... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ سن1912میں جب ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا تواس وقت کچھ دور تین بحری جہاز’’فرینکفرٹ‘‘’’کارپیتھیا‘‘اور ماونٹ ٹیمپل بھی اپنے سفر پر رواں دواں تھے ۔ٹائی ٹینک جہاز کے عملہ نے مدد کے لئے ایس او ایس سگنل کا ستعمال کیا لیکن کچھ تینوں بحری جہاز کے عملہ نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی،شاید ایس او ایس سگنل کا استعمال پہلی مرتبہ کیا گیا تھااس لئے انھیں اندازہ نہ ہوسکا کہ کوئی مدد کے لئے سگنل دے رہا ہے یا انھوں نے جان بوجھ کر لاپروائی دکھائی یا ان تینوں جہازوں کو بھی آئس برگ کا ڈر تھاجو وہ اس طرف بروقت نہ پہنچ سکے ؟ ان سوالات کا جواب آج بھی ایک معمہ ہے۔سن1912میںبرطانیہ کی مشہور شپنگ کمپنی ’’THE WHITE STAR LINE‘‘دی وائٹ سٹار لائن نے جب ٹائی ٹینک کی روانگی سے قبل اس کے تعارفی اشتہارات چھپوائے تو ان میں ٹائی ٹینک کو سمندروں کی ملکہ کا خطاب دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ،جو کبھی بھی ڈوب نہیں سکتا،پر سمندر کے سفر کا مزہ لیں ۔ اسی خدائی دعویٰ کی بنیاد پر ٹائی ٹینک بنانے والی کمپنی نے جہاز میں لائف بوٹس کی تعداد مسافروں کے مقابلے میں بہت ہی کم رکھی تھی کیونکہ انھیں پوار یقین تھا کہ جہاز کبھی نہیں ڈوبے گا لیکن یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ خوشیاں مناتے،ناچتے گاتے اور بڑے فخرکے ساتھ ایک ایسے بحری جہاز میںسوار ہورہے ہیں جس کی منزل صرف موت ہے۔ٹائی ٹینک میں2200 سے زائد مسافر سوار تھے جن میں سے صرف 722مسافر لائف بوٹس کی وجہ سے زندہ بچے جبکہ باقی 1500 سے زائد مسافرلائف بوٹس نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے اور دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز سمندر میں گم ہوگیا۔
دنیا بھر کے ماہرین 73برس تک سمندر میں ٹائی ٹینک کا ملبہ تلاش کرتے رہے لیکن ناکام رہے بالآخر سن1985میں سمندری مہم جوئی کے دوران ایک ٹیم کو بحراقیانوس کی بارہ ہزار فٹ کی گہرائی میں ٹائی ٹینک مل گیا جس کے بعد ایسے دلخراش حقائق سامنے آئے کہ دنیاکانپ گئی،پتہ چلا ٹائی ٹینک ڈوبنے کے دوران عملہ نے تیسرے درجہ کے مسافروں کو آخری وقت تک اس لئے بند کیے رکھا تاکہ پہلے درجہ کے مسافروں کی جان بچائی جاسکے ۔ٹائی ٹینک کے نچلے حصے میں قیدانہی تیسرے درجہ کے مسافروں کی روحیں آج بھی بحراوقیانوس میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ ٹائی ٹینک کامشاہدہ کرنے والے افراد کئی مرتبہ بتا چکے ہیں کہ جب بھی وہ ٹائی ٹینک کے پاس گئے تو انھیں ایسا لگا جیسے کوئی انھیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔
بدقسمتی سے ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے لئے جانے والوں میں دومعروف پاکستانی بھی شامل تھے۔ آبدوز کاخول جس میں مسافر بیٹھے تھے وہ ابھی تک نہیں مل سکا تاہم جب مالک کمپنی’’ اوشین گیٹ‘‘نے مسافروں کی موت کی تصدیق کی تو ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔آبدوز میں سفر کرنے والے افراد کو کیا معلوم تھا کہ وہ فی کس ڈھائی لاکھ ڈالر دے کر موت کا ٹکٹ خرید رہے ہیں۔اگرچہ مالک کمپنی کی جانب سے اس سانحہ پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن بتایا جارہا ہے کہ ٹائٹن آبدوز کو ٹائی ٹینک کی طرح حفاظتی خامیاں دور کئے بغیر سفر پر روانہ کیا گیا تھا۔میڈیا رپورٹس میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ آبدوز کے سربراہ کی اہلیہ کا تعلق ٹائی ٹینک میں ہلاک ہونے والے جوڑے کی نسل سے ہے۔سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعہ پر سوال اٹھانا شروع کردیئے ہیں کہ آبدوز ٹائٹن کس طرح تباہ ہوئی ؟ کیا یہ فنی خرابی تھی یا سازش؟کچھ سوشل میڈیاصارفین نے ٹائٹن آبدوز کی قسمت ٹائی ٹینک سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے ہی سفر میں سمندر میں غرق ہوکر لاپتہ ہوگئی۔فی الحال ٹائٹن کی تباہی ایک معمہ بنا ہوا ہے جس کی حقیقت تحقیقات کے بعد سامنے آئے گی۔
٭٭٭