... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں بجلی ہے نہ روزگار اور نہ ہی ایک عام انسان کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت جو حوکت ہے اس میں اسلام کے وہ پیروکار بھی شامل ہیں جو مذہب اور سیاست کو لازم ملزوم کہتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج صورتحال یہ ہے کہ بزرگوں کی پنشن کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں ہمارے آج کے حکمران دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں، کبھی آئی ایم ایف کے ترلے کیے جاتے ہیں تو کبھی دوست ممالک کے سامنے کشکول رکھا جاتا ہے لیکن خیر کہیں سے نہیں ملتی کیونکہ ہم نے اسلامی اصولوں پر چلنا چھوڑ دیا غریبوں کا حق کھانا شروع کردیا۔جمہوریت کے نام پر جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں انہیں ہی پائوں تلے روندنا شروع کردیتے ہیں۔ جمہوریت کا اراگ الاپنے والوں کو جمہور کی فکر ہے نہ جمہوریت کی۔ صحیح معنوں میں اگر جمہوریت کا سبق سیکھنا ہے تو حضرت عمر بن خطاب کے دور کی صرف ایک جھلک دیکھ لیں جنہوں نے حقیقی جمہوریت سے پوری دنیا پر حکومت کی اور انکے بنائے ہوئے قوانین آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں شائد انکی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ حضرت عمرؓ جب خلیفہ تھے تو راتوں کو گشت کیا کرتے تھے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا، کوئی تکلیف میں تو نہیں۔ ایک دن چہرے پر نقاب پہنے ایک گلی سے گزرے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی اماںکو دیکھا تو آپ رک گئے غلام سے کہنے لگے کہ بوڑھی پریشان لگتی ہے جس پر غلام نے پوچھا کہ اماں اندر آجائیں تو اماں کہنے لگی کہ جائو دوڑ جائو اپنا کام کرو کہا تیری مہربانی آنے دیں اور جب زد کی تو کہنے لگی آجائو۔ حضرت عمر ؓ چہرے پر نقاب کے ساتھ اندر گئے پوچھا اماں کیوں پریشان ہو کہنے لگی عمر سے بڑی شکایت ہے۔ پوچھا کیوں؟ تو کہنی لگی بوڑھی بھی ہوں بیوہ بھی ہوں بے اولاد بھی ہوں۔ 25 دینار کا قرضہ چڑھ گیا، تین دن ہوگئے، روٹی نہیں کھائی اور عمر امیرالمومنین ہیں ۔اس نے میرا حال تک نہیں پوچھا، حضرت عمر ؓ کہنے لگے اماں عمر کو کیا پتا تو اس حال میں ہے تو مدینے کی وہ بوڑھی عورت بھی جانتی تھی کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ اماں نے کہا کہ کیا کہا تم نے عمر کو پتہ نہیں تو عمر کو جاکر میرا پیغام دے دو کہ حکومت چھوڑ دے اس کے حوالے کرے جو غریبوں کا پتہ رکھ سکے۔ اگر وہ یہ پتہ نہیں رکھ سکتا تو پھر کیوں حکومت کرتا ہے۔ غلام کہتے ہیںکہ حضرت عمر ؓ دوڑ لگا کرباہر نکلے کھانا پکا پکایا اور25دینارگھر سے لائے ۔دو بوریاں اناج کی کندھوں پر رکھ لیں۔ غلام کہنے لگا حضور مجھے دیدیں۔ فرمانے لگے وعدہ کر قیامت کے دن بھی میرا بوجھ اٹھائے گا۔ غلام بولا حضور میں نہیں اٹھا سکتا حضرت عمر سامان لائے اور اس بوڑھی اماں کو 25دینار دیے ۔دو تین مہینے کا راشن دیا۔ اپنے ہاتھوں سے اماں کو کھانا کھلایا۔ حضرت عمرؓاماں کے قدموں میں بیٹھ گئے، کہنے لگے اماں چل عمر کو میری خاطر معاف کردے جس پر اماں نے ایک لفظ کہا کہ میں معاف نہیں کرونگی۔ میں تو بوڑھی ہوں ،کسی وقت بھی بلاوا آسکتا ہے، جب میں مرونگی ناں نبی پاک ﷺ میری قبر میںآئیں گے تو میں عمر کی شکایت کرونگی ،کہوں گی کہ آقا میں غریب مجبور اور پریشان تھی اور آپ نے عمر کی ڈیوٹی لگائی تھی اور اس نے میرا حال نہیںپوچھا تو غلام کہتے ہیں کہ حضرت عمر بچے کی طرح بلک کر روئے اورہم نے انکو اتنا روتے کبھی نہیں دیکھا جتناوہ آج روئے ہیں ۔ کہنے لگے کہ اماں اس طرح نہ کرنا، عمر بڑا کمزور ہے جو حقیقت میں اس وقت دنیا کا طاقتورترین حکمران تھا۔آپ نے کہااماں یہ شکایت نہ لگانا ۔عمر بہت ماڑا ہے وہ حضور کا سامنا نہیںکرسکے گا تو اماں نے کہا کہ نہیں میں شکایت لگائوں گی۔ میرا دکھ ہی بڑا ہے جس پر حضرت فاروق آعظم بولے کہ اماں عمر کو میری خاطر معاف کردے۔ تب بوڑھی اماں نے کہا ٹھیک ہے۔ تیرے کہنے پرمیں عمرکو معاف کرتی ہوں جس پر نقاب پہنے حضرت عمر نے کہاں امان مجھے لکھ دے کہ تو نے عمر کو معاف کردیا۔ اماں نے کہا تو لکھ دے میں دستخط کردیتی ہوں۔ جس پر حضرت عمر نے لکھا کہ فلاں بنت فلاں حضرت عمر سے ناراض تھی پھر عمر نے راضی کرلیا ۔اماں دستخط کرنے ہی لگی تھی کہ مولا علی شیر خدا آگئے اور کہنے لگے کہ عمر آپ ادھر کھڑے ہو میں سارے مدینے میں ڈھونڈ آیا ہوں۔ ملک شام کے سفیر آپ سے ملنے آئے ہیں ۔یہ سننا تھا کہ اماں فٹا فٹ اٹھ گئی اور کہنے لگی ہائے یہ عمر تھا اور اس کے سامنے کہتی رہی جس پر فاروق اعظمؓ کہنے لگے ،نہ اماں تو وعدے پہ قائم رہ تو نے جو کیا ٹھیک کیا۔ اب دستخط کردے، اماں نے دستخط کیے تو حضرت عمر ؓ وہ خط شیر خدا کو دیکر کہنے لگے کہ علی گواہ کے دستخط آپ بھی کردو۔ جس کے بعد آپ نے وہ خط حضرت علیؓ کو دیا اور کہنے لگے کہ مجھے امید ہے کہ میں آپ سے پہلے دنیا سے چلا جائونگا اور جب میں مر جائوں تو یہ رقعہ میرے کفن میںرکھ دینا۔ میرے نبی جب پوچھیں گے کہ عمر میری امت کا کیا کرکے آئے ہو تو میں رقعہ نکال کر عرض کرونگا کہ مولا ایک بوڑھی اماں ناراض تھی میں اسے بھی راضی کرکے آیا ہوں ۔
آج یہ حال ہے کہ گھر گھر اور گلی محلے میںلوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں قرض حکمران کھا جاتے ہیں اور سود سمیت ادا عوام کو کرنا پڑتا ہے حکمران دنیا بھر کے چکر لگاتے ہیں پیسہ عوام کی جیب سے جاتا ہے ایوان اقتدار میں ہر روز لاکھوں کے کھانے کھائے اور کھلائے جاتے ہیں پیسہ غریب لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کا ہوتا ہے آج تک کسی حکمران نے اپنی جیب سے کچھ نہیں خرچ کیا بلکہ عوام کا پیسہ لانچوں میں بھر بھر کر بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ جن کے نام پر سیاست کی جاتی ہے وہ در در کی خاک چھان رہے ہیں اور خود کو خادم اعلی سمیت کیا کیا کہنے والے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں ۔سو سال بھی جی لیں آخر ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے آقا نبی کریم ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہمارے دور میں غریب ،ناداراور مفلس لوگ خودکشیاں کرتے رہے۔ اسلام میں ایسی جمہوریت تو نہیں تھی جو ہم نے بنا رکھی ہے یہاں جس کے دو چار سو ووٹ ہوں۔ اس کی چاپلوسی کی جاتی ہے۔ غریبوں کو کون پوچھتا ہے۔ وہ تو روزی روٹی کی تلاش میں والدین کی ساری عمر کی جمع پونجی لٹاکر کشتی میں بیٹھ کر سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر اس پر بھی تاویلیں دی جاتی ہیں غریب تو بس یہ پوچھتا ہے کہ
نہ اِدھر ادھر کی تو بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے