... loading ...
میر افسر امان
سلطان محمد فاتح ترکوں کے کائی قبیلے کے فرزند تھے۔ یہ30 مارچ1432 ء میں پیدا ہوئے۔3 مئی1481 ء کو قسطنطنیہ میں ہی وفات پائی۔ ان کو مسجد کے احاطے میں دفنایا گیا۔یہ خلافت عثمانیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔ انہوں نے صرف21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ، ترکیہ کا موجودہ شہر استنبول فتح کیا تھا۔اس فتح سے عیسائیوں کی بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا تھا۔
حدیث کی کتاب مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے۔بس بہتر امیر ، اس کا امیر ہو گا۔اور بہترین وہ لشکر ہو گا”یہی فرمان تھا کہ جس نے ہر دور کے مسلمان فاتحین کو قسطنطنیہ فتح کرنے کا پروانہ بنائے رکھا۔ مگرکئی حملوں کے باوجود اسے فتح نہیں کیا جا سکا۔حضرت عمر بن عبدلعزیز، ہشام بن مالک اور ہارون الرشید جیسے پُر جلال خلفاء نے اس شہر کو فتح کرنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔قسطنطنیہ ایک نا قابل تسخیر شہر تھا۔ اس کے تین اطراف سمندر تھا۔قسطنطنیہ کے حکمرانوں نے لوہے کی زنجیروں سے سمندری راستہ کو روک رکھا تھا۔ اس سمندری راستے سے کوئی بھی حملہ آور بحری جہازگزر نہیں سکتاتھا۔صرف ایک طرف خشکی تھی۔ اس قلعہ کی دیواروں کے سامنے ساٹھ فٹ چوڑی اور سو فٹ گہری خندق تھی۔جس میں ہرو قت پانی بھرا رہتا تھا۔اس دیوار کے اندر مزید ایک فصیل تھی۔ اس میں ایک وقت ایک لاکھ افراد رہ سکتے تھے۔اس شہر کو فتح کرنا ،ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قسطنطنیہ شہر عیسائی دنیا کا روحانی مرکز تھا۔اس شہر کو ایک عیسائی بادشاہ، جس کا نام قسطنطین تھا ،نے تیسری صدی عیسوی میں عیسایت قبول کر کے پایا تخت بنایا تھا۔ قسطنطنیہ کی فتح جہالت میں ڈوبی مغربی دنیاکی آخری شکست تھی، جو سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں نصیب ہوئی تھی۔اس شہرپر کئی مسلمان فاتحین نے حملے کیے مگر ناکام رہے تھے۔عثمانی ترک خلفائ، خراسانی خانہ بدوش” طغرل” کے بیٹے عثمان خان کی اُولاد تھے۔انہوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہو کر ترک سلطنت قائم کی تھی۔ یہ سلطنت تین سوسال میں دنیا کی ایک عظیم طاقت بن گئی تھی۔ قسطنطین اور خلیفہ سلطان محمد فاتح کے درمیان یہ جنگ عجیب و غریب تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان محمد فاتح نے اپنی فوج کو خشکی پر بحری جہاز چلانے کا حکم صادر کیا تھا۔یہ دنیا میں عجیب و غریب واقعہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔خشکی پر بحری جہاز چلانا واقعی ایک عجیب و غریب واقعہ ہے۔ مگر مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا تھا۔ آج امریکہ نے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی ایجاد کی۔ اس ٹیکنالوجی سے بنے ہیلی کاپٹر کو راڈار تلاش نہیں کر سکتا ۔ تو اس کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے صدیوں پہلے ترک مسلمانوں نے خشکی پر بحری جہاز چلا کر دس میل کا زمینی راستہ طے کر کے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا جو عسایوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
سلطان محمد فاتح کے حکم کے مطابق جانوروں کی چربی زمینی راستے پر ڈال دی گئی تھی۔ پھر ان راستوں پر بحری جہازوں کوڈال کر اِن کو کھینچا گیا۔ منزل پر پہنچ کر ان جہازوں کو خشکی سے دوبارہ سمندر میںڈالا گیا۔یہ سخت طریقہ فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوا۔ ان کے ذریعے دشمن پر حملہ کیا گیا اور فتح حاصل کی۔یہ فتح سلطان محمد فاتح جو ترکوں کا ساتویں خلیفہ تھے ،کے ہاتھوں مئی1453 ء میں ہوئی۔ پھر یہ سلطان محمد فاتح تاریخ میں قسطنطنیہ کے فاتح کی حیثیت سے دنیا میں جلوہ گر ہوا۔اس شاندار اور تاریخی اور عجیب و غریب مہم کی وجہ سے ”فاتح” کا لقب ملا۔ اب تاریخ اُسے” سلطان محمد فاتح” کے نام سے جانتی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعدفصیل ِ شہر کے قریب مدفون میزبان رسولۖۖ حضرت ایوب انصاری کے مزار کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کرائی۔ اس مسجد کا نام ”جامع ایوب” رکھا۔تاریخ ِاسلام میں حضرت ایوب انصاری کے متعلق یہ واقعہ موجود ہے۔ قسطنطنیہ میں جب مسلمان جنگ میں مصروف تھے توایک دفعہ مدینہ میں سورة توبہ کی آیت پڑھی جاری تھی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ” نکلو اللہ کی طرف چاہے ہلکے ہو یا ”بو جھل” اس محفل میںحضرت ایوب انصاری موجود تھے۔ کہنے لگے یہ آیت ہمارے متعلق نازل ہوئیں تھیں۔ باوجود کہ وہ اس وقت بوڑھے ہو چکے تھے، ترکیہ کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور وہاں پہنچ گئے۔ وہاں جاری جنگ میں شریک ہوئے تھے اوراس جنگ میں شہادت پائی تھا۔ابو ایوب نصاری کی قبراُس وقت وہاں بنائی گئی تھی۔ مسجد جامع ایوب اور اس کے احاطے میں ابو ایوب انصاری کی قبر پر اب بھی دنیا سے مسلمان زیارت کرنے جاتے ہیں۔
سلطان محمد فاتح نے یونان، بوسینیا، کریمیا سمیت کئی یورپی علاقوں کو فتح کیا ۔ بہت سی یورپی ریاستوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا۔ فوجی مہمات کے ساتھ ساتھ سلطان محمد فاتح نے علوم و فنون کے فروغ پر بھی توجہ دی۔ آج جو ترک تعلیم سے آراستہ ہیں، اِس کا سہرا سلطان محمد فاتح کے سر جاتا ہے۔
٭٭٭