... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انتخابات کے ذریعے کسی سیاسی حکومت کے بغیر نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے پانچ سال مکمل ہو گئے۔اس دوران جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون ختم کیا گیا ۔آرٹیکل 370 اور35 اے کے خاتمے کے بعد بھارتی ہندووں کو جموں وکشمیر میں مستقل رہائش کا قانون لایا گیا جس کے ذریعے جموں وکشمیر کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔5 اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارتی فورسز نے 730 کشمیریوں کو شہید کر دیا۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 جس کے تحت جموںوکشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، کی منسوخی کے بعد ایک اور کشمیر دشمن اقدام کے طورپر مقبوضہ کشمیرمیںانتخابی حلقوںکی حدبندی کے نام پرنئی سازش کا آغاز ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت تبدیل ہو جائے گی۔ وزارت قانون و انصاف کے محکمہ امور قانون کے ایما پر چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے الیکشن کمشنر سوشیل چندر اکو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مجوزہ حد بندی کمیشن کیلئے نامزد کیاہے۔کمیشن کے ایک عہدیدار نے کہا الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال اگست میں حد بندی کے عمل پر تبادلہ خیال کیلئے ایک اجلاس بلایا تھا اوردو عہدیداروں کے ناموں کو حتمی شکل دی گئی تھی جنہوںنے گزشتہ حد بندیوں پر کام کیا تھا۔حد بندی کمیشن ایکٹ کے مطابق نئی دلی کی طرف سے مقرر کردہ حد بندی کمیشن تین ارکان پر مشتمل ہو گا جس کا سربراہ سپریم کورٹ کا حاضر یا ریٹائرڈ جج ہو گا۔
مودی حکومت کی کشمیر اور مسلم دشمن پالیسیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد نام نہاد اسمبلی کیلئے انتخابی حلقوںکی حد بندی میں ایک سازش کے تحت ردوبدل کر کے وادی کشمیر کے مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔مسلم اکشریتی حلقوں کو تقسیم کیا جائے گا اور نئی حلقہ بندی میں ہندو آبادی کو شامل کیا جائیگا اور ان کی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی اور جن علاقوں میں ہندو اکثریت نہیں ہوگی وہاں نئے ووٹر بنا کر نئی بستیاں بنائی جائیں گی۔اس نئی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں کو کانٹ چھانٹ کر ان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل سرفہرست ہے۔ بھارت کے اس مذموم منصوبے کی کشمیری عوام کی طرف سے شدید مذمت اور مزاحمت کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے۔ بھارت کے اس طرزعمل سے وادی کشمیر میں ہندو اور مسلم کشمیریوں کے درمیان قائم روایتی بھائی چارے کی فضا ختم ہوسکتی ہے۔ کشمیری کسی بھی قیمت پر اپنی اکثریت اور ثقافت کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بھارت کی مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے جموں، ادھم پور، پونا، دہلی اور دیگر شہروں میں تین دہائیوں سے مقیم کشمیری پنڈتوں کیلئے وادی میں خصوصی ٹاؤن شپ قائم کیے جائیں گے۔اسی لئے 1990 سے وادی کشمیر سے باہر رہنے والے پنڈت خاندانوں کی کشمیر واپسی کیلئے بھارتی حکومت نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ہندوستان کے انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کیلئے دس علیحدہ علاقے مختص کیے ہیں۔ یہ علیحدہ بستیاں وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں قائم کی جائیں گی۔ ان خصوصی بستیوں میں پنڈت خاندانوںکیلئے مکانات تعمیر کیے جانے کے ساتھ ساتھ ہسپتال ،مارکیٹ اور سکول کالج کی سہولیات بھی رکھی جائیں گی۔نئے کشمیر بلیو پرنٹ کے مطابق مخصوص بستیوں کے نزدیک خصوصی سیکورٹی کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ اس مقصد کیلئے پولیس اور سیکورٹی فورسز کی مشترکہ چوکیوں کا قیام بھی عمل میں لانے کے قوی امکانات ہیں۔دو تین عشرے قبل90ء کی دہائی میں پرتشدد صورتحال کے باعث تقریباً دو اڑھائی لاکھ سے زائد ہندو مقبوضہ کشمیر چھوڑ کر بھارت منتقل ہوگئے تھے اس عرصہ میں تمام ہندوخاندان بھارت میں رچ بس چکے ہیں لیکن نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کی جڑیں مزید گہری اورمضبوط بنانے کی ٹھانی ہے۔
بھارتی ایجنسی این آئی اے نے منگل کو وادی کشمیر کے چار اضلاع میں متعدد مقامات پر چھاپے مارے۔NIA یہ چھاپے سرینگر، اسلام آباد، پلوامہ اور کپواڑہ اضلاع میں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے بھارت مخالف پروپیگنڈہ پھیلائے جانے کی آڑ میں مارے گئے ہیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں اور تنظیموں نے مودی حکومت کی کشمیر مخالف پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے بھارت پر دیرینہ تنازعہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قربانیاں تحریک آزادی کشمیر کا قیمتی اثاثہ ہیں اور انہیں رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ حریت رہنمائوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ بھارت اور مقبوضہ علاقے کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظربند حریت رہنمائوں اور کارکنوں کی حالت زار کا نوٹس لیں۔