... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ پنجاب کا بجٹ بھی مرکز کی طرح غریب عوام کی محرومیوں اور مراعات یافتہ طبقہ پر نوازشات کا ڈاکومنٹ ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار میں آکر ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ ملک میں 11کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کمزور کو انصاف نہیں ملتا۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ غربت، مہنگائی اور افراتفری پاکستان میں ہے، جس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں ملک کی حکمران اشرافیہ ہے۔ کراچی میئر سلیکشن کو جماعت اسلامی اور شہر کے عوام کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے ہر مرحلے کے دوران ریکارڈ توڑ دھاندلی ہوئی۔ 30بلدیاتی نمائندوں کا الیکشن والے دن غائب ہو جانا جمہوریت اور کراچی کی تاریخ کا افسوس ناک واقعہ ہے، لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے، حق کے لیے تمام آئینی و قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔ 23جون کو بدترین دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں الیکشن کمشن کے مرکزی دفتر کے باہر عظیم الشان مظاہرہ ہو گا۔
امیر جماعت نے یونان کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی شہادت پر نہایت دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا اور حادثے کے ذمہ داران پاکستان میں موجود انسانی سمگلروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے مافیا کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے کہ نوجوان مایوس ہو کر باہر بھاگ رہا ہے۔ کراچی سے چترال تک ہر شخص پریشان ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ پڑھا لکھا نوجوان بے روزگار ہے۔ بیرونی سفارت خانوں کے سامنے پاکستانیوں کی لائنیں نظر آتی ہیں۔ ملک میں روزگار نہیں، معیشت تباہ ہو گئی، سودی نظام اور کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ نوجوان مایوس نہ ہوں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تاکہ خوشحال اسلامی فلاحی پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ انتخابات میں التوا کے بیانات آ رہے ہیں۔امیر جماعت نے تنبیہ کی کہ ایسی کوششیں آئین کا انحراف ہو گا جس کی جماعت اسلامی بھرپور مخالفت کرے گی۔ ادارے غیر سیاسی ہو جائیں اور عوام کو آزادانہ طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ موجودہ نظام کھوکھلا اور کرپٹ ہے اور اس کے وفادار بحرانوں کے ذمہ دار ہیں۔ 75برسوں سے ملک کو لوٹا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ملک غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہے، جسے ختم کرنے کے لیے الیکشن کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کی معاشی پالیسی دولت کا ارتکاز نہیں اس کی سرکولیشن ہے۔ہمیں اقتدار ملا تو سودی نظام کو ختم کریں گے۔ ٹیکسز کی بجائے زکو اور عشر کا نظام لائیں گے۔ ملک میں ساڑھے سات کروڑ افراد زکو دے سکتے ہیں۔ صرف پچیس لاکھ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ زکواة و عشر کا نظام لاگو ہوجائے تو پاکستان لینے والا نہیں دینے والا بن جائے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ملک کو اسلامی معیشت دے سکتی ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی عدالتوں میں قرآن کا نظام نافذ کرے گی۔ یکساں تعلیمی نظام دے گی۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر ایک دن کے لیے بھی یہاں قرآن وسنت کا نظام نافذ نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا مقصد ملک میں پرامن جمہوری جدوجہد سے اسلامی انقلاب ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس اسلامی نظام معیشت کا زکوہ و عشر کے نظام معدنیات۔بنجر زمینوں کو آباد کرکے پاکستان کوخوشحال کرنے کا واضح ایجنڈا ہے جماعت اسلامی عوام کی طاقت سے ملک کو اسلامی فلاحی خوشحال پاکستان بنائے گی۔اس وقت ملک شدید معاشی و سیاسی مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن سیاسی قیادت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ تمام سیاسی رہنما اپنی اپنی اناؤں کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ان کی اناؤں کی تسکین کی قیمت ملک اور عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ان کے سوا کوئی بھی ملک کا خیر خواہ نہیں اور خود کو وہ ایک ایسے مقام پر فائز کرچکے ہیں جہاں سے وہ اب کبھی بھی نیچے نہیں اتر سکتے۔ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی قائدین کے بیانات سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھیں عمران خان کے خلاف ہونے والے اقدامات پر توجہ دینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔ ملک دشمن قوتیں اس وقت جشن منا رہی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ وہ کرنا چاہتی تھیں وہ ملک کے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہورہا ہے۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور سیاسی قیادت کے لیے ایک چیلنج بھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس چیلنج سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے۔
٭٭٭