وجود

... loading ...

وجود

انٹرا پارٹی الیکشن یا "ڈرامہ" پاکستان میں خاندانی سیاست کا بول بالا

منگل 20 جون 2023 انٹرا پارٹی الیکشن یا

٭ن لیگ میں کے حالیہ انٹراپارٹی الیکشن میں شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کو پارٹی کی مرکزی قیادت سے باہر کردیا گیا، نوازشریف تاحیات قائد، شہبازشریف صدر اور مریم نواز سینئر نائب صدر منتخب
٭امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد،انگلینڈ میں 7فیصد، بھارت میں 28 فیصد،بنگلہ دیش میں 36فیصد اور پاکستان میں 53 فیصد تھا،اسی لیے پاکستان جمہوری ملکوں کی فہرست میں 110ویں نمبر پر ہے
٭پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان نواز شریف، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور لغاری، مزاری اور بزدار قبائل کی اجارہ داری برقرار،مولانا فضل الرحمن اپنے والد مفتی محمود کی وجہ سے لیڈر بنے
٭سندھ میں موروثی سیاست بہت زیادہ مضبوط ہے، یہاں بھی بھٹو سے محترمہ اور محترمہ سے بلاول تک کا سفر جاری ہے،اعتزاز احسن، رضا ربانی بہت پیچھے رہ گئے، بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں موروثی سیاست پر بہت کچھ لکھا، پڑھا، سنا اور بولا جاتا ہے، لیکن خاندانی سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں موروثی سیاست سب سے زیادہ ہے۔حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی الیکشن میں سابق وزیراعظم و لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کی مرکزی قیادت سے باہر کردیا گیا۔شاہد خاقان کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا، وہ (ن) لیگ کے سینئر نائب صدر تھے۔ مریم نواز کو عہدہ دینے پر شاہد خاقان کے پارٹی سے اختلافات ہوئے تھے۔سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ملا، اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے قبل مفتاح اسماعیل سے وزیر خزانہ کا عہدہ واپس لے لیا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ مختلف ٹی وی شوز پر حکومتی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔نوازشریف پارٹی کے تاحیات قائد،وزیراعظم شہباز شریف (ن) لیگ کے آئندہ 4 سال کے لیے صدر، مریم نواز سینئرنائب صدر اور چیف آرگنائزر منتخب ہوگئیں۔امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد،انگلینڈ میں یہ تناسب 7فیصد، بھارت کی لوک سبھا میں 28 فیصد،بنگلہ دیش میں 36فیصد اور پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان جمہوری ملکوں کی فہرست میں 110ویں نمبر پر موجود ہے۔اگر ملک بھر میں موروثی سیاست کی بات کریں تو پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور لغاری، مزاری اور بزدار قبائل کی اجارہ داری برقرار ہے، منتخب ایوانوں میں بھی ان ہی خاندانوں کے افراد موجود ہوتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مفتی محمود کی وجہ سے لیڈر بنے، جب کہ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کے بعد ان کی بیٹی قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔موروثی یا خاندانی سیاست کی یہی حالت صوبہ خیبرپختونخوا کی ہے۔ سندھ میں موروثی سیاست بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہاں بھی بھٹو سے محترمہ اور محترمہ سے بلاول تک کا سفر جاری ہے جب کہ بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا مسلم لیگ ن میں ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں ہے جو مریم نواز یا حمزہ شہباز سے بہتر ہے۔ اسی طرح حمزہ شہباز اور بلاول کا معاملہ ہے۔ روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty Democracy Notis میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست ختم کرنے یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جب کہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ لیکن یہاں انھی قوتوں نے آج تک نہ تو عدالتی نظام ٹھیک ہونے دیا اور نہ ہی صاف شفاف الیکشن کروائے۔
پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں، اعتزاز احسن، رضا ربانی جیسے لوگ ہیں۔کیا یہ نالائق ہیں؟ جن کی پوری دنیا قابلیت کی معتقد ہے۔ انھیں یہ پارٹیاں سائیڈ لائن کرکے خود اقتدار میں آجاتی ہیں۔ خاندانی سیاست اس وقت ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں وراثتی یا خاندانی سیاست کی ایک مضبوط روایت موجود ہے اور نہ صرف نسل در نسل یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ بیک وقت ایک ہی خاندان کے افراد کے اسمبلی میں ہونے کے رواج کو تقویت مل رہی ہے۔وزیرِاعظم کے بھائی اور بیٹے کا بیک وقت اسمبلی کا رکن ہونا پاکستانی سیاست میں کوئی اچنبھے کی بات اس لیے نہیں کہ پاکستان میں بڑے سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک ہی وقت میں اسمبلی کا رکن بننے کی ریت نئی نہیں ہے۔ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر اور آصف علی زرداری ایک ساتھ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام اور ان کی اہلیہ سیدہ عابدہ حسین کو بھی بیک وقت رکن اسمبلی بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ناہیدخان اور ان کے شوہر صفدر علی عباسی بھی ان سیاسی جوڑوں میں سے ہیں جو بیک وقت پارلیمان کے رکن رہے۔ اس کے علاوہ رکن اسمبلی جوڑوں میں مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی اور ان کی اہلیہ غزالہ سعد پنجاب اسمبلی کی رکن رہی ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر