وجود

... loading ...

وجود

آئی ایم ایف اب بھی مطمئن نہیں!

منگل 20 جون 2023 آئی ایم ایف اب بھی مطمئن نہیں!

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روزایک بیان میں امید ظاہرکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جلد طے پاجائے گا اور معاشی سطح پر استحکام پیدا ہوجائے گا،جبکہ دوسری جانب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی پیش کردہ بجٹ تجاویز پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی پروگرام کی شرائط گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے جو نقصان دہ مثال قائم کرتی ہے۔انھوں نے پاکستان حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔خبر رساں اداروں کے مطابق آئی ایم ایف کا یہ بیان غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے شکارایک ایسے ملک کے لیے ایک دھچکا ہے جس کے بیل آؤٹ پروگرام کی میعاد ختم ہونے میں صرف دو ہفتے باقی ہیں۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر باقی ہیں۔ پاکستان کو امید تھی کہ گزشتہ سال نومبر میں 1.1 ارب ڈالر کے فنڈز جاری ہوں گے لیکن آئی ایم ایف نے مزید ادائیگیوں سے قبل کئی شرائط لاگو کردیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پاجانے کے بارے میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی خوش فہمیوں پر مبنی لن ترانیاں دھری رہ گئیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہناہے کہ پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے علاوہ توقع تھی کہ ایف ایکس مارکیٹ کا معمول کے مطابق کام بحال کیا جائے گا اور محصولات اور اخراجات میں 6 ارب ڈالر کے فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔یہ سب 6.5 ارب ڈالر کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف یعنی بیرونی قرض کی سہولت) کے لیے حتمی جائزے کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جانا تھا لیکن وزیر خزانہ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک ٹیکسٹ میسج میں بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کاعملہ استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر پاکستانی حکام سے بات کرنے میں مصروف ہے تاہم، مالی سال 24 کے بجٹ نے زیادہ ترقی پسند انداز میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کا موقع گنوا دیا ہے۔ نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کرتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں غریب طبقے کے لیے درکار وسائل کو کم کرتی ہے۔انھوں نے کہاکہ توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی میں شامل کیا جا سکتا تھا۔انھوں نے پیشکش کی کہ آئی ایم ایف کی ٹیم اس بجٹ کی منظوری سے قبل حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس ای ایف ایف پروگرام کے اختتام سے قبل نویں بورڈ جائزے کو بچانے کا موقع اب بھی موجود ہے۔اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تجاویز میں بعض اقدامات آئی ایم ایف کی سربراہ کی جانب سے عالمی ادارے کے فنڈز کی منظوری سے متعلق زبانی یقین دہانی کے بعد کیے ہیں۔ اسی بنیاد پر انھوں نے انتہائی وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیاتھا کہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ اسی مہینے منظور ہو جائے گا اور فوراً بعد آئی ایم ایف کے بورڈ سے بھی اس کی منظوری مل جائے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھاکہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کی ہیں اور اب کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو قرض کی وصولی میں رکاوٹ بن سکے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کے تازہ ترین بیان سے اب صورتحال واضح تر ہوتی جارہی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے کہنے پر کئی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے اسے مقامی سطح پر غیر مقبولیت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف نے معاہدہ نہیں کیا۔ مسلسل کہا جاتا رہا کہ فلاں دوست ملک سے یہ ضمانت لاؤتو معاہدہ ہو جائے گا۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہم سے بھرپور تعاون بھی کیا اور ان کے تعاون کی وجہ سے ہی پاکستان ابھی تک دیوالیہ ہونے سے بچا ہوا ہے۔ اسی دوران آئی ایم ایف نے یوکرین جیسے جنگ زدہ ملک کو ساڑھے 16 ارب ڈالر کی رقم دی جس سے یہ بات ایک بار پھر پوری طرح کھل کر سامنے آگئی کہ آئی ایم ایف مختلف ملکوں کو رقوم فراہم کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے سیاسی بنیادوں پر کرتا ہے اور اس وقت امریکہ اور یورپی ممالک کیونکہ روس کے مقابلے میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں، اس لیے آئی ایم ایف نے ان کے کہنے پر بغیر کوئی شرط لگائے یا مطالبہ کیے یوکرین کو ایک خطیر رقم جاری کردی، اور اس رقم کی واپسی کا قابلِ قیاس مستقبل میں تو کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔امریکہ کی طرف سے ویسے تو اس قسم کے بیانات مسلسل جاری ہوتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو لیکن عملی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس کے ایسے بیانات زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں بھی جس ملک کو پاکستان کی سب سے زیادہ فکر ہے یہ امریکہ ہی ہے لیکن اس فکر مندی کا نہایت قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ امریکہ کے جن 66 ارکانِ پارلیمان نے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اس معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہا، ان میں سے 59 ایسے ہیں جو بھارت اور اسرائیل کے حامی ہیں، اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے حامی پاکستان سے کتنی محبت رکھ سکتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ کے کہنے پر کوئی بین الاقوامی یا عالمی ادارہ پاکستان کو تنگ کررہا ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سب کی وجہ بہت صاف اور سیدھی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور یہ رویہ اس کا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ملکوں کے ساتھ ہے۔ اب جب اسے دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم بنارہا ہے اور خاص طور پر وہ ان دونوں ممالک کی مدد سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے تو یہ بات اسے ہضم نہیں ہورہی اور وہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے سے روکا جائے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر کڑی شرائط کا عائد کیا جانا اور تمام شرائط کو مان کر سخت اقدامات کرنے کے باوجود قرضے کی قسط کا جاری نہ کیا جانا اسی سلسلے کا ایک پہلو ہے جسے پورے منظر نامے کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھاجائے تومسئلہ امریکہ یا آئی ایم ایف سے بڑھ کر ہمارا اپنا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بالغ نظری کی اس سطح پر ابھی تک پہنچی ہی نہیں جس سے قومی مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے ملک کو ماضی میں بھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس وقت بھی یہ ایک ایسی حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک اور عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ گزشتہ4-5برس سے ’میثاقِ معیشت‘ کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے اور ہر سیاسی قائد یہ جانتا ہے کہ ایسا معاہدہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے اشد ضروری ہے لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پارہی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی انائیں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ وہ قومی مفاد کے پیش نظر بھی ان کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر عوام سیاسی قیادت کی بجائے غیر جمہوری یا غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس کے لیے صرف اور صرف سیاسی قائدین ذمہ دار ہیں جو معاملات کو سلجھانے کے لیے درکار بصیرت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔کیا ہمارے قائدین ایک دوسرے پرالزام تراشی کے بجائے اس طرح دیکھنے کی بھی کوشش کریں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر