... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،آپ بھی شاید ہماری بات سے اتفاق کریں گے کہ تبدیلی کا سفر۔۔ایاک نعبدوایاک نستعین سے شروع ہوا، ان للہ مع الصابرین سے ہوتا ہوا۔۔ اناللہ واناالیہ راجعون کی طرف گامزن ہے۔۔اس تباہی و بربادی کی ذمہ دار حکومت ہے یا سلیکشن کمیٹی؟؟ کیا سلیکٹرز(ایمپائرز) کو کسی قسم کی شرمندگی محسوس ہورہی ہے؟؟ قوم کو مدینہ کاٹکٹ دکھا کر ”کُوفے” کے راستے پر ڈال دیاگیا۔۔ باباجی فرماتے ہیں، پی ٹی آئی کو اگر قیام پاکستان کے فوری بعد انیس سو سینتالیس میں بھی حکومت ملتی تو انہوں نے یہی رونا تھا انگریز پورا ملک تباہ کرگیا۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔تبدیلی کا کیڑا اب صرف ان لوگوں میں زندہ ہے جن کا جیب خرچ ابھی تک والدین اٹھا رہے ہیں۔ ۔ باباجی کی باتیں سن کر ہمارے پیارے دوست کہاں خاموش رہنے والے تھے فوری بولے۔۔ تبدیلی لوٹوں سے شروع ہوئی ہالینڈ کی سائیکل سے ہوتی ہوئی انڈوں، مرغیوں، کٹوں ، IMF کی خودکشی، ایبسولوٹلی ناٹ تک تو پہنچی ، پھر حقیقی آزادی کے چکر میں پڑگئے، ایسے مادر پدر آزاد ہوئے کہ اب ”قید” ہونے کا خوف کھائے جارہا ہے۔ہمارے ایک ”پٹواری” دوست ( ن لیگ سے تعلق ہے) سرگوشیانہ انداز میں کہنے لگے۔۔ مجھے اللہ سے قوی امید ہے کہ جو مسلمان پی ٹی آئی کے فتنے سے بچ گیا وہ دجال کے فتنے سے بھی بچ جائے گا، انشااللہ۔ہم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ۔۔کپتان خود تو سائیکل پر دفتر نہ جاسکے لیکن عوام کو سائیکل چلانے پر مجبور کردیا۔ویسے یوتھیئے اب بھی اپنی قیادت کو فرشتہ ہی سمجھ رہے ہیں لیکن مخالفین بھی اس کی تائید کرتے ہیں وہ بھی پی ٹی آئی قیادت کوفرشتہ ہی سمجھتی ہے، لیکن موت کا۔۔
یقین مانیں سیاست پر لکھنے کا کبھی دل چاہتا ہے نہ کبھی سوچ آتی ہے، عام لوگوں کے مسائل ہی اتنے زیادہ ہیں کہ سیاست کی طرف ذہن کم کم ہی جاتا ہے، ویسے بھی سیاست ہمارے ملک میں ”سیاہ ۔ست” بن چکی ہے، اور عوام کے نزدیک تو اسے گالی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے، اگر کسی نے کسی کے ساتھ دھوکا کیا ہو،یا کسی نے کسی سے کوئی بات کرکے پھر اس سے پلٹ گیا تو سامنے والا فوری کہہ دیتا ہے، یار میرے ساتھ سیاست تو نہ کرو۔۔ اس وقت ملک میں اتنا برا حال ہے کہ شاید ہی حکمران طبقے کے علاوہ کوئی آپ کو خوش نظر آئے۔۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ بزرگ پنشن کی لائن میں، نوجوان پٹرول کی لائن میں، خواتین بارہ ہزار لینے والی لائن میں، بچے راشن کی لائن میں اور ملک کھڈے لائن میں ہے۔۔لیکن ان سب کے باوجود یہ قوم زندہ دل ہے، تفریح کے مواقع نہ ہونے کے باوجود ”تفریح” کرنا اور تفریح لینا خوب جانتی ہے۔ کچھ دکانوں پر لکھے دلچسپ جملے پیش خدمت ہیں، سمجھ آئے تو منہ کو کانوں کے پاس ضرور لے جائیے گا، یعنی بانچھیں کھلالیجئے گا۔حجّام کی دوکان پر ایک سلوگن پڑھا۔ ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔۔بجلی کا سامان بیچنے والے کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا۔آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا۔۔ چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا۔۔میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں۔۔ ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا۔یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔۔ الیکٹرانک دوکان پر سلوگن پڑھا تو دم بہ خود رہ گئے۔۔اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔۔گول گپے والا بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا، اپنے ٹھیلے پر لکھوایا۔۔گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں۔۔پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا۔آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔۔ گھڑی کی دوکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا۔بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔۔ ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر سلوگن کُچھ یوں لکھوایا۔آئیے!صرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپی سوڈ دیکھیے۔۔ بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر لکھ دیا۔ ہم بھی بال بال بچاتے ہیں۔ایک دندان ساز نے لکھوایا تھا۔دانت کوئی بھی توڑے لگا ہم دیں گے۔۔ چٹائی بیچنے والے نے لکھاتھا۔ نوسوروپے میں خریدیں اور ساری عمر بیٹھ کر کھائیں۔۔ایک ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے باہر تحریر کیا تھا۔دوکان کے اوقات کار،صبح 9 سے شام 6 تک۔ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کا گیٹ چوری کر کے بعوض 9 ہزار روپے سکہ رائج الوقت کباڑ میں بیچنے والے یوتھئیے سے پولیس نے دوران تفتیش پوچھا کہ تم خان کی سپورٹ کیوں کرتے ہو۔۔؟
تو اس نے کمال ڈھٹائی سے جواب دیا اور تاریخ کا بوتھا پھیر دیا کہ ”وہ چوروں کے خلاف ہے”
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جس ملک میں تعلیم کا بجٹ اکیاسی ارب اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 400 ارب ہو۔۔ تووہاں لوگ سائنس دان کم بھکاری زیادہ بنتے ہیں۔باباجی نے شوہروں کو مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔شادی شدہ حضرات معمولی اختلاف سے بھی احتیاط کریں،بعض علاقوں سے خبر آئی ہے کہ خاوند کی معمولی چوں چراں پر بیوی آرمی کی ہیلپ لائن پر کال کر کے کہہ رہی ہیں کہ آرمی تنصیبات پر حملے میں میرا خاوند بھی ملوث ہے مجھے ملک سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ بیویوں کے نام صیغہ راز میں رہیں گے۔۔ایک آدمی سوات گیا تو جاتے ہی اپنی بیگم کو ایس ایم ایس بھیجا۔۔ مگر غلط نمبر پر بھیج دیا۔ جس عورت کو وہ ایس ایم ایس ملا۔ اس کا شوہر دو دن پہلے فوت ہوگیا تھا۔ ایس ایم ایس پڑھتے ہی عورت بے ہوش ہوگئی۔ لکھا تھا کہ۔ میں خیریت سے پہنچ گیا، نیٹ ورک بھی موجود ہے، جگہ چھوٹی ہے مگر شاندار ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں جنت کا مزا دیتی ہیں۔ دھول مٹی بالکل بھی نہیں ہے۔ میں نے جو سفید لباس پہنا تھا وہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اور دو چار دن تک تم کو بھی بلا لوں گا ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کرکٹ سکھانے والے کی تنخواہ بتیس لاکھ روپے اور جو قرآن پاک سکھاتا ہے اس کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے۔ایسی قوم پر زوال نہیں آئے گا تو پھر کیا آئے گا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔