... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمہوریت نظام سیاست کا نہایت دلچسپ ہاتھی ہے ۔ اس کی وجہ اس کے نابینا شیدائی ہیں ۔ ان میں سے کوئی اس کی سونڈ کو پکڑ کر اعلان کرتا ہے کہ اگر یہ ہاتھی مرجائے تو کائناتِ ہستی میں اظہار رائے کی آزادی کا نام و نشان مٹ جائے گا حالانکہ جمہوری ممالک میں بھی آزادیٔ رائے کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود ہندوستان ہے جہاں و زیراعظم اپنے ملک کو مادرِجمہوریت کے لقب سے نوازتے ہیں۔ اس ہاتھی کے کچھ اور شیدائی بڑے بڑے کانوں سے لپٹ کر یہ دعویٰ کربیٹھتے ہیں کہ نظامِ جمہوریت میں عوام کے شکوہ شکایت کو بہت غور سے سنا جاتا ہے حالانکہ مودی جی صرف اپنے من کی بات کہنے میں یقین رکھتے ہیں ۔ اپنے من کی بات وہ خود بھی سننے کے قائل نہیں ہیں اور ان کو اس ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس ہاتھی کی ٹانگوں کو کچھ اندھوں نے شورائیت کے ستون قرار دے دیا ۔ ان کے خیال میں جمہوریت کے بغیر شورائیت کی عمارت ڈھے جائے گی حالانکہ اس نظام میں اقتدار پر فائز ہونے والے کئی حکمراں اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور کسی سے مشورہ لینے کے قائل ہی نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم مودی جیسے لوگوں کی زبان پر تو دن رات میر تقی میر کا شعر رواں ہوتا ہے
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
جمہوری ہاتھی کے کچھ شیدائی اس کے بڑے بڑے دانتوں کو انسانی حقوق کا محافظ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بیچارے نہیں جانتے کہ یہ صرف دکھانے کے دانت ہیں ۔ اس کے کھانے کے دانت اندر ہوتے ہیں جن سے وہ انسانی حقوق کو چبا چباکر نگلتا رہتا ہے اور کسی پتہ ہی نہیں چلتا مگر یہ بیچارے بڑے بڑے دکھانے دانتوں سے ہی اپنی قلبی تسلی کا سامان کرلیتے ہیں۔ جمہوریت کے کچھ شیدائیوں کے ہاتھ میں اس کی چھوٹی سے دُم آجاتی ہے ۔ وہ اس سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی کا سب سے پرامن طریقہ یہی ہے حالانکہ ہندوستان جیسے ممالک میں کوئی انتخاب تشدد کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ گجرات اور نیلی کا روح فرسا فساد سیاسی مفاد کی خاطر ہی تھا۔ دہلی میں سکھوں کو راجیوگاندھی کی تاجپوشی کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔ انفرادی سطح پر بھی ہرین پنڈیا اورجسٹس لویا جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو سیاسی فائدے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ عشرت جہاں اورہیمنت کرکرے جیسے نہ جانے کتنے بے قصور لوگوں کو یہ نظام نگل گیا ۔ اس کے باوجود اس کے آگے دُم ہلانے والے دن رات اسے گنیش دیوتامان کر اس کی آرتی اتارتے رہتے ہیں ۔
امسال چونکہ اتفاق سے ہندوستان کو جی 20 ممالک کی صدارت کا موقع ہاتھ آگیا اس لیے وزیر اعظم کو ”جمہوریت کی ماں ہندوستان ” کا نعرہ لگانے کا نادر موقع مل گیا۔اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جن غلط یا صحیح حوالوں سے یہ نظریہ جانا پہچانا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ۔ ہاتھی کی سونڈ اس کو دیگر جانوروں سے الگ کرتی ہے گوکہ وہ اس کے اپنے اور دوسروں کے بہت زیادہ مفید نہیں ہوتی۔ اس لیے اظہار رائے کی آزادی کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اس مادرِ جمہوریت کی صحت کا کیا عالم ہے ؟ اظہار رائے کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ یہ کسی کو دیا نہیں جاتا بلکہ جمہوریت سمیت مختلف نظریات یا سرکاریں الگ الگ بہانوں سے اسے سلب کرنے کا کام ضرور کرتی ہیں ۔ عام آدمی کو اس کی کس قدر آزادی ہے یہ جاننا آسان نہیں ہے لیکن جن لوگوں کا کام ہی بولنا ہے یعنی صحافی برادعی تو اس کا انطباق دیگر لوگوں پر بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کا فرض منصبی حکومت سے سوال پوچھنا ہے اور تلخ و شیریں حقائق سے عوام کو روشناس کرانا ہے اس لیے اس کے اند ر پائی جانے والی آزادی کا جائزہ گویا قوم کی نبض ٹٹولنے جیسا ہے ۔
میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے Reporters Sans Frontires نے پچھلے دنوں اپنی عالمی پریس فریڈم انڈیکس شائع کی اس میں ظاہر ہے ہندوستان بھی شامل تھا۔ صحافتی آزادی کی درجہ بندی 2022 میں وطن عزیز 180 ممالک کے درمیان 150 ویں پر تھا جو بہت اچھی حالت نہیں تھی۔ یہ توقع تھی کہ جی 20کی صدارت سنبھالنے کے بعد اربابِ حل و عقد کو اپنی ذمہ داری احساس ہوگا اور وہ اس جانب توجہ فرمائیں گے جس سے حالت بہتر ہوگی لیکن الٹا ہوگیا ۔ اس سال ہندوستان مزید نیچے کھسک کر 161 ویں نمبر پر پہنچ گیا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دنیا صرف 19 ممالک ایسے ہیں جن کی حالت ہم سے بھی خراب ہے جبکہ 160 ممالک میں اظہار رائے کی صورتحال بہتر ہے ۔ ایسی صورتحال میں ہم لوگ عام طور پر پاس پڑوس میں دیکھ کر اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان سے موازنہ کرکے خوش ہونا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن وہ بھی 150ویں مقام پر ہے ۔ افغانستان کے بارے میں عالمی سطح پر یہ پروپگنڈا کیا گیا ہے کہ طالبان نے اپنے ملک میں آزادی و حریت کا گلا گھونٹ دیا لیکن وہ بھی 152ویں درجہ پر ہے ۔ سری لنکا اور نیپال کی حالت تو ان دونوں سے بہتر ہے اور وہ بالترتیب135ویں اور95ویں پر ہیں ۔
اس میدان میں مودی جی کے چہیتے بنگلہ دیش کی حالت ہم سے بدتر 163ویں اور بیچارہ چین نیچے سے دوسرا یعنی 179ویں درجہ پر فائز ہے ۔ اب اس مادرِ جمہوریت کو ان سے مسابقت درپیش ہے ۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو2002 سے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس شائع کر رہی ہے ۔ وہ پانچ بنیادوں یعنی سیاسی، اقتصادی، قانون سازی، سماجی اور سلامتی کی بنیاد پر مختلف ممالک میں آزادی صحافت کا جائزہ لیتی ہے ۔اس کے مطابق ہندوستان میں جنوری سے اب تک ایک صحافی کو قتل کیا گیا ہے اور 10 زیر حراست میں ہیں۔ ہندوستان کی اس طرح کی درجہ بندی کیوں کی گئی، اس پر اپنے ابتدائی ریمارکس میں آر ایس ایف کا کہنا ہے ”صحافیوں کے خلاف تشدد، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کا ارتکاز یہ تمام چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی صحافت بحران کا شکار ہے ، جو 2014 سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور ہندو قوم پرست حقوق کے مجسم وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر اقتدار ہے ۔”
عالمی درجہ بندی کی یہ رپورٹ اگر خود احتسابی کا سبب بنتی تو اس معاملے میں بہتری کی امید تھی مگر نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو اس حقیقت کی منکر ہے کہ ملک میں صحافیوں کا استحصال ہوتا ہے ۔ مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ایوان بالا کے اندر اپنے تحریری بیان میں کہا کہ ‘ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس’ رپورٹرس وِداؤٹ بارڈرس نامی ایک غیر ملکی ادارہ کے ذریعہ جاری کیا جاتا ہے اور حکومت نہ تو اس کی رینکنگ اور نہ ہی اس کے نظریات کو مانتی ہے ۔ حکومت اس ادارہ کے ذریعہ اخذ کیے گئے نتائج سے متفق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی درجہ بندی کو کوئی اہمیت دیتی ہے ‘۔ایک سوال کے جواب میں موصوف نے اس انڈیکس کو نہ ماننے کے کئی اسباب یہ بتائے کہ اس کا سیمپل سائز بہت چھوٹا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس میں جمہوریت کے اہم عناصر کو اہمیت نہیں دی جاتی نیز اس کا طریقہ کار شفاف نہیں ہے ۔ یہ ساری باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کیونکہ رپورٹ ابتری کا آئینہ دکھا رہی ہے ۔ صورتحال اگر اس کے برعکس ہوتی تو اس کا بڑھ چڑھ کر حوالہ دیا جاتا۔
انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ مرکزی حکومت ملک کے سبھی شہریوں بشمول صحافیوں کے تحفظ کو بہت اہمیت دیتی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ اکتوبر 2017 میں سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو ایک ایڈوائزری جاری کر سبھی میڈیا اہلکاروں کی سیکورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی گزارش کی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اور کیا صرف سفارشار جاری کر دینے سے بات بن جاتی ہے۔ پانچ سال بعد کیا اس کا جائزہ لینا ضروری نہیں ہے ۔ مرکزی وزیر کے بیان کی تردید تو پچھلے دنوں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ تقریب کے دوران انڈین ایکسپریس کے مدیر اعلیٰ نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد کی موجودگی میں اس طرح کیا کہ فی الحال ملک میں صحافیوں کا استحصال ہو رہا ہے اور صحافیوں کے ساتھ ہی کئی دیگر لوگوں کی اظہارِ رائے کی آزادی کی بات بھی اٹھائی تھی۔
وطن عزیز میں اس گراوٹ کا سلسلہ مودی جی کے اقتدار سنبھالنے سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اس انڈیکس میں سال 2005 کی درجہ بندی میں ہندوستان پر 106 تھا یعنی اٹل جی نے ملک کو اس مقام پر چھوڑا۔ ان کے بعد منموہن سنگھ نے اقتدار سنبھالا ۔ یو پی اے کی د س سالہ حکومت کے خاتمہ تک 140 پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد نریندر مودی آئے تو ان کی قیادت والی حکومت میں نے اس پھسلن پر اپنا سفر جاری رکھا اور اسے 161 پر پہنچا دیا ۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود ہندوستان میں پریس کی آزادی مسلسل 20 سال سے روبہ زوال ہے اور اس معاملے میں این ڈی اے و یوپی اے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس شرمناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے معمر صحافی پی سائی ناتھ نے کہا کہ’پریس انڈیکس میں یہ گراوٹ انتہائی شرم کی بات ہے ، لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جو شرم رکھتے ہیں۔’انوراگ ٹھاکر کو اب ٹوئٹر کے سابق سی ای او جیک ڈورسی کے دعویٰ کا بھی جواب دینا ہوگا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ہندوستان میں کسان تحریک کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا تھا۔یہ جھوٹی سرکار آخر کس کس کو جھٹلائے گی؟
٭٭٭