... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بھارتی ریاست منی پور میں تین مئی سے جاری خونریزنسلی فسادات کومذہبی رنگ دیکربی جے پی خانہ جنگی کی طر ف لے آئی ہے جس میں اب تک سینکڑوں ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ نیز ہزاروں افرادبے گھر ہوکر امدادی کیمپوں میں پناہ گزین ہیں مردہ خانوں میں لاشوں کے ڈھیر ہیں، جن میں درجنوں ایسی لاوارث لاشیں ہیں جوجلنے کی وجہ سے شناخت کے قابل نہیں رہیں۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں ۔بھارتی حالات دنیا سے مختلف ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں تصادم و فسادہوتوایسی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اِدارے فوری حرکت میں آتے اور بلوائیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ پولیس ہو یا فوج،اقلیتوں پر مظالم ڈھانے میں ہندو اکثریت کی سرپرست بن جاتی ہیں ۔منی پور میں بھی ایسا ہی کھیل کھیلا گیا۔ابتدامیں پولیس اور فوج نے بلوائیوں کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عیسائی اقلیت کو تلف کیا جا سکے ۔مگر حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ فوج کے کنٹرول میں بھی نہیں رہے ۔یکم جون سے دوسو اہلکاروں پر مشتمل ایک بڑا فوجی قافلہ ، جن میں فوجی آفیسران اور جونیئرکمیشنڈ اور دیگر رینک کے لوگ شامل ہیں، ہائی وے پر غمال ہیںاور اُنھیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اشیائے ضروریہ اور خشک راشن پہنچایاجارہا ہے۔ کُکی اور میتی دونوں قبائل وفاقی حکومت کی بنائی امن کمیٹی کے ساتھ بات چیت سے انکاری ہیں ۔عیسائی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل کشی پر طیش میں ہیں جبکہ میتیوںکا غصہ بے دخلی میں سُستی کرنے کی وجہ سے ہے۔ دراصل اقلیتوں کی نسل کشی میں پولیس، فوج اور حکومت برابرکی شریک ہوتی ہیں۔ اسی بناپر آج بھارت کو جمہوری یا مذہبی آزادی کے علمبردار انسانی حقوق کے اِدارے مشکل سے دوچار ہیں۔ بھارت اقلیتوں کے لیے کسی جہنم سے کم نہیں۔ یہاں صرف ہندو اکثریت کوحقوق حاصل ہیں جبکہ اقلیتیں قیدیوں کی سی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور بدھ مت سبھی ہندواکثریت کے پنجہ استبدادمیں ہیں ۔بظاہردنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک میں روز انسانیت سسکتی ا ورتڑپتی ہے۔ یہ ملک مذہبی ،نسلی و لسانی نفرت کی آماجگاہ ہے۔
منی پور ایک کثیرنسلی،لسانی اور مزہبی ایسی قبائلی پیاڑی ریاست ہے جس کی ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں کمال کی ہوشیاری کی گئی ہے۔ سولہ پہاڑی اضلاع کوبیس جبکہ وادی کے چھ اضلاع کوچالیس نشستیں دیکر مستقل نفرت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اِس نفرت کی دیوارکے خاتمے کے بظاہرکوئی آثار نہیں۔ چالیس نشستیں ہندوئوں کے پاس ہونے سے اُنھیں سیاسی غلبہ حاصل ہوگیاہے ،جس سے نجات کے لیے عیسائی اقلیت طویل عرصہ سے کوشاں ہے۔ اسی بناپر یہ ریاست مسلسل ہنگاموں کی زد میں ہے۔ 2009 سے لیکر اب تک ہنگاموں میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں ۔رواں برس تین مئی سے جاری خونی کھیل کو آج پینتالیسواں دن ہے مگر صوبائی یا وفاقی حکومت نے واقعات سے عملاََ چشم پوشی اختیار کررکھی ہے تاکہ ہندوبلاخوف و خطر مظلوم عیسائی اقلیت کی نسل کشی کر سکیں۔ لیکن پُر تشدد کے واقعات کسی حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے لگے ہیں ۔دی گارڈین نے لکھا کہ منی پور کے پُرتشدد واقعات نے علیحدہ ریاست جیسے مطالبات کو ہوا دی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی نے فسادات پر قابوپانے کی کوشش کرنے کی بجائے مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مارو جیسے احکامات جاری کیے ہیں ۔ریاست میں جاری خونریز واقعات روکنے کے لیے ریاستی وزیرِ اعلیٰ بیرین سنگھ اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کوخود پہاڑیوں پر جاکرمظلوم مسیحیوں کو تحفظ کی یقین دہانی کراناچاہیے تھی لیکن مذہبی نفرت اورہندوئوں کے خوف سے وہ نہیں گئے۔ جوا ب میں کُکی مسیحی اراکین ِ اسمبلی نے امپھال آنے اوروزیرِ اعلیٰ سے مذاکرات کرنے سے انکارکردیاہے۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر فسادات پر قابوپانے کے لیے نتیجہ خیزحکمتِ عملی اختیارکرنے کی بجائے حکومت نے علاقے میں انٹرنیٹ سروس بندکردی ہے ۔تاکہ واقعات دنیا سے چھپائے جا سکیں ۔یہاں کے مظالم ہولناکی میں کسی طرح مقبوضہ کشمیر میں روارکھے ظلم و جبرسے کم نہیں۔ایمبولینس پر حملہ کرنے اورزخمی سمیت تین افرادکو زندہ جلا نے کے عمل پرحملہ آور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کشمیر اور منی پورمیں روح تک کو تڑپا دینے والے زیادہ تر واقعات سے انٹرنیٹ کی بندش کی بناپرشاید دنیا لاعلم ہے ۔سچ یہ ہے کہ بی جے پی جیسی جنونی جماعت خود حملہ آوروں کی رہنمائی کررہی ہے۔ اب تو میتی قبائل تھانو ں پر حملے کرتے اور سرکاری اسلحہ چھین کر عیسائیوں کو مارنے لگے ہیں، پھر بھی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نسل کشی میں حکومتی رضامندی شامل ہے ۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں آسام ،میزورام اور ناگالینڈ سے منسلک منی پور ایک ایسی ریاست ہے جہاں تین بڑے قبائل آباد ہیں وادی کے چھ اضلاع میں میتی یعنی ہندوآباد ہیں ۔جبکہ دس پہاڑ ی اضلاع میں کُکی اورناگا یعنی عیسائی رہائش پزیر ہیں جوعددی اعتبارسے تقریباََ برابر ہیں۔ لیکن ریاستی اسمبلی کی نشستیں تقسیم کرتے وقت ایسا ہیرپھیر کیا گیا جس سے میتی ہندوئوں کو کُکی اور ناگا عیسائیوں پر بالادستی مل گئی۔ ہندوئوں اور عیسائیوں کے درمیان شروع ہونے والے فسادات میں ویسے تو ریاست کا کوئی حصہ محفوظ نہیں رہابلکہ ہرطرف حالات سخت کشیدہ ہیں۔ لیکن دس اضلاع زیادہ متاثر ہیں جہاں بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ تین ہزار مکانات ،250 گرجا گھر اور بیس سے زائد پولیس اسٹیشن جلائے جا چکے، ہرجگہ گاڑیوں اورنجی املاک کو بے دریغ آگ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس اور بھارتی فوج آسام رائفلز کی طرف سے معاونت ،رہنمائی اور سرپرستی میں ہندوبلوائی کُکی اور ناگا عیسائی آبادی پرظلم کے پہاڑتوڑ رہے ہیں۔ تشدد سے تنگ منی پورکے ایسے اضلاع جہاں قبائلی کُکی اور ناگا(مسیحی)اکثریت میں ہیںکے الگ انتظامی بندوبست کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ پہاڑی اضلاع سے منتخب دس ایم ایل اے بھی اپنی برادری کے لیے الگ انتظامی یونٹ کے مطالبے پرڈٹ چکے ہیں۔ ایسے مطالبے کی گونج ماضی میں 1960کی پُرتشدد دہائی میں بھی سنی گئی تھی لیکن حکومت عملی اقدام کی بجائے ابھی تک ہوتی ماردھاڑ دیکھنے پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔
رواں برس فروری میں جنگلی حیات کے تحفظ اور جنگلات بچانے کے نام پر ریاستی انتظامیہ نے مسیحیوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک عجیب مُہم کے آغازپر جنگلوں میں رہائش پذیرکُکی اور ناگا قبائل کو تجاوزات کاذمہ دار قرار دے دیاجسے عیسائی اُنھیں دانستہ طورپربے گھر کرنے کی سازش قراردیتے ہیں۔ اگلے ماہ مارچ میں ہندوئوں نے ایک اجتماع کے دوران جنگلات بچانے اور مسیحی برادری سے اراضی کا قبضہ چھڑانے کا برسرِعام نہ صرف عہد کیا بلکہ مخالفانہ نعرے بھی لگائے۔ یہ واقعہ اشتعال پھیلانے کا ایسا باعث بناکہ نوبت کُکی ،ناگا (مسیحی) اور میٹی(ہندو) قبائل میں تصادم تک جا پہنچی جس کے دوران زیادہ ترکُکی اور ناگا یعنی مسیحی ہالاک اور زخمی ہوئے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ ریاستی انتظامیہ حالات پر قابو پانے کی حکمتِ عملی بناتی اُلٹا ہندوئوں کی حمایت کرنے لگی اور مسیحی قبائل کے خلاف مُہم جاری رکھنے کے اعلانات جاری رکھے اور اگلے ہی ماہ اپریل میں امپھال کی مسیحی کالونی میں آپریشن کرتے ہوئے تین گرجا گھروں سمیت کئی رہائشی مکانات گرا دیے۔ اِس مسماری مُہم کو مسیحیوں نے اپنی مذہبی نشانیوں کو ختم کرنے کی باقاعدہ کاروائی قرار دے کر احتجاج شروع کردیا جوجلدہی پوری ریاست منی پور تک پھیل گیا۔ مسیحی مظاہروں پرہندوبڑھ چڑھ کر حملے کرنے لگے جو تصادم کی خونریز شکل اختیار کرچکے ہیں ۔آسام کے مسلمانوں کی طرح منی پورکے عیسائی بھی نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن(NRC) جیسے مسئلے سے دوچارہیں جس کامقصداقلیتوں کو مستقل طورپرخوفزدہ رکھناہے تاکہ سیاسی قوت بننے کی بجائے اپنی شناخت ثابت کرنے میں الجھی رہیں ۔یہی حربے اقلیتوں میں بے چینی پیداکرنے کا باعث ہیں۔
٭٭٭