... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںہر 6میں سے ایک ساٹھ سال کی عمر کے بزرگ کو کسی نہ کسی طرح بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ بدسلوکی اہل خانہ کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے۔عمررسیدہ افراد اس بدسلوکی پر احتجاج بھی نہیں کرپاتے۔اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس کے دور میں بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کے دوران ان کو شدید جسمانی و ذہنی نقصان کا خطرہ عام انسانوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا شعور بیدار کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن2011میں ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت ہر سال 15جون کو بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 60 سے 65 سال کی عمر کے افراد کا شمار معاشرے کے عمررسیدہ افراد میں ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ دہائیوں میں دنیا کی آبادی کی تشکیل میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے۔سن 1950 سے 2010 کے درمیان دنیا بھر میں متوقع عمر 46 سے 68 سال تک تھی جبکہ عالمی سطح پر سن 2019میں متوقع عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہوگئی ،اس وقت ایسے افراد کی مجموعی تعداد 703 ملین تھی ۔رپورٹ کے مطابق اگلی تین دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہونے کا امکان ہے جو سن 2050 میں 1.5 بلین سے زیادہ تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر میں سن 2019 اور 2050 کے درمیان عمر رسیدہ افراد کی آبادی کے حجم میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔رپورٹ کے مطابق مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں عمر رسیدہ افراد کی تعدادبڑھے گی ۔ سن 2019 میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد 261 ملین تھی جو 2050 میں بڑھ کر 573 ملین تک پہنچ جائے گی ۔اسی طرح شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میںبھی تیزی سے اضافے کی توقع ہے جو 226 فیصد اضافے کے ساتھ سن 2019 میں 29 ملین سے بڑھ کرسن 2050 تک 96 ملین تک ہوجائے گی۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق کل آبادی کا چار اعشاریہ دو فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ 2050تک یہ تناسب 15 اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ جاہے گا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے 66 برس ہے اورپاکستانی خواتین کی اوسط عمر تقریباً 67 سال جبکہ مردوں کی اوسط عمر لگ بھگ 65 برس کے برابر ہے۔اسلام میں بزرگوں کو اہمیت اور خاص مقام دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا”۔اسی طرح نبی کریم ۖ نے نہ صرف بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی بلکہ عملی طورپر ایسا نمونہ بھی پیش کیا جو دنیا کے ہر فرد کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ ایک بوڑھی عورت آپ ۖ پر روز کوڑا پھینکتی تھی لیکن آپۖ نے کبھی اسے برا بھلا نہ کہا۔ایک دن جب وہ بوڑھی عورت بیمار ہوگئی اور کوڑا نہ پھینکا تو آپۖ اس کے گھر چلے گئے،اس کے گھر کو صاف کیا ،پانی بھرا اور تیمارداری کی۔آپۖ کا حسن سلوک دیکھ کر وہ بوڑھی عورت مسلمان ہوگئی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے،پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے۔”اسی طرح نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا”بڑوں کی تعظیم دتوقیرکرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے۔”اسلامی معاشرے میں آج بھی بزرگوں
کا ادب و احترام پایا جاتا ہے جسے مزید فروغ دینے کے لئے نوجوان نسل کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اگر آج ہم بزرگوں کا احترام کریں گے تو کل ہم بھی اسی عزت و احترام کے حقدار بن سکیں گے۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔