... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ہمارابجٹ کچھ ایسا ہوتاہے جیسے کھانا ختم ہونے کے باوجود مہمانوں کو یہ کہہ کر مطمئن رکھاجائے کہ تھوڑی دیر تک بس ابھی کھانا لگنے ہی والا ہے ،یہی روش خرابیوں کی اہم وجہ ہے۔ کئی دہائیوں سے ہمارے حکمران اپنے ووٹروں سے ایسے ہی وعدوں کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور وعدے بھی ایسے جو کبھی ایفا نہیں ہوئے۔ بارباردھوکا ہونے کے باوجودعوام الناس کو بجٹ کا انتظارہوتاہے ۔متوقع ریلیف کی آس میں لوگ ساراسال تکالیف اُٹھاتے ہیں۔ حالیہ بجٹ کو حقیقی کے بجائے اِس لیے بھی تصوراتی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کل آمدن کے برابرپاکستان نے غیر ملکی قرضوں کی اقساط اور سود ادا کرنا ہے۔ اِس کے باوجود ترقیاتی رقوم مختص کرنا مزاق ہی توہے۔ تمام طبقات کے لیے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک الگ مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہوسکا۔ اسی لیے غربت کی لیکر سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جسے اب صرف جرات مندانہ فیصلوں سے ہی روکا جا سکتا ہے اور جرات مندانہ فیصلہ یہ ہے کہ چادردیکھ کر پائوں پھیلائیں جب تک ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنائیں گے معاشی مسائل ختم نہیں ہوسکتے ۔
معاشی ترقی کا داخلی استحکام سے گہراتعلق ہے اگر سیاسی استحکام نہ ہوتو ترقیاتی منصوبہ بندی کابھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بدقسمتی سے گزشتہ کئی برس سے پاکستان بدترین داخلی عدمِ استحکام سے دوچار ہے لیکن لچھے دار باتوں کے سواحکمران کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ بجٹ کے حوالے سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مشکلات کاذکرکرتے ہوئے سیلاب،عالمی سپلائی لائن میں رکاوٹیں اور دیگرعالمی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے سیاسی استحکام سے معیشت کو درپیش چیلنجز کی بات بھی دہرائی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے چارٹر آف اکانومی کو خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ مگر کیا عملی طور پر حکومت ایسی کسی روش پر گامزن ہے جس سے مذکورہ معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں؟ بظاہر اِس سوال کا کسی صورت ہاں میں جواب نہیںدیا جا سکتا کیونکہ ناہموارملکی معیشت بہتر بنانے کی بجائے حکمران اتحاد کی آج بھی ترجیح اپنی سیاست ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تواپوزیشن کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کو بغیر سوچے سمجھے ہر گز رَد نہ کیاجاتا ۔اب تو عمران خان کا ناطقہ بند کرانے کے لیے ایسی قومی اسمبلی سے ایک عدد قرارداد بھی پاس کرالی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر کا اہم عہدہ راجہ ریاض جیسے حکومتی اتحادی کے پاس ہے جوعوام کی آواز بننے کی بجائے ہر معاملے میں حکومتی وکالت کرتے ہیں ۔ایسے طرزِ عمل سے سیاسی عدمِ استحکام کم نہیں ہوسکتا ۔سیاسی بدامنی سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہو تااسی لیے عوامی طبقات کہنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ سیاسی عدمِ استحکام میں حکومت کااپناہاتھ ہے۔
ہر سیاستدان اپنی سیاست بچانے اور سیاسی کامیابیوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جس سے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی ہوں ،ایسے اقدامات سے پرہیز کیاجاتاہے ۔گزشتہ برس جس بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا عوام کو سامنا رہا، ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ معاشی اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکے۔ شرح ترقی کم ہوتے ہوتے محض 0.29 فیصد رہ گئی ہے۔ البتہ موجودہ دورمیں مہنگائی کے
نت نئے ریکارڈ قائم ہوئے جس میں تاریخی 29.9اضافہ دیکھنے میں آیا ۔فی کس آمدنی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہونے کے ساتھ ملکی معیشت سکڑ کر 341ارب ڈالر رہ گئی۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69.1فیصدتک اضافہ ہو اہے۔ اگر زرعی شعبے پر نگاہ دوڑائیں تو وہ بھی تاریخ کی کم ترین سطح 1.55 فیصدرہی۔ یہ نہایت مایوس کُن شرح بڑھتی آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اِس شرح سے ملکی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا کسی طورممکن نہیں۔ گزشتہ برس صنعتی ترقی کیاہوتی منفی 2.94ہوگئی۔ اِس کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ میں سو فیصد اضافہ کردیا گیا جس پر فہمیدہ حلقے کافی حیران ہیں۔ کیونکہ جب آئی ایم ایف جیسا عالمی مالیاتی اِداراہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر قرض کی نئی قسط دینے سے گریزاں ہے ،ملک کے ذرائع آمدن بھی کم ہوتے جارہے اور بجٹ خسارہ بڑھتاجارہا ہے تو پھر ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟اسی بناپر حالیہ بجٹ کو تصوراتی کہہ سکتے ہیں مگر شیخ چلی کی طرح کے منصوبے بناکر ملک کو شاہراہ ترقی کی طرف نہیں لے جا یاسکتا۔
ملکی مسائل میں اضافہ کرنے میں ہماری سیاسی اشرافیہ کا اہم اورمرکزی کردار ہے جس نے ووٹ لینے کے لیے ایسے منصوبے شروع کیے جن کے فوائد دیرپا نہیں، بلکہ وقتی ہیں حالیہ بجٹ میں 451 ارب بے نظیر پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں ۔جس سے لوگوں کی وقتی اور محدودحد تک مدد کی جائے گی ۔اِس رقم کا ملک یا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔کیا ہی بہتر ہوتااگر پیسے دیتے ہوئے لوگوں کو پابند کر دیا جائے کہ صرف اُسے ہی پیسے ملیںگے جو حکومتی اِداروں سے کوئی ہنر سیکھیں ۔اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سال یا چھ مہینے حکومتی امداد پر گزربسر کرنے والا بعد جلدہی نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اُٹھانے کے بھی قابل ہو سکتا ہے۔ یوں امدادکے ساتھ بحالی کا سلسلہ شروع ہوسکتاہے اور جوخاندان معاشی طورپر خودکفالت حاصل کر تاجائے اُس کی جگہ حکومت نئے خانداان کا اندراج کرلے لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب سیاست سے بالاتر ہو کر اخلاص سے مسائل حل کیے جائیں اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں ایسے اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو محض کاغذوں کی حد تک موجود ہیں ،جن پر ہرسال اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، لیکن تعلیم یا صحت کے حوالے سے اِن کاکوئی کردارنہیںاگر حکومت ایسا طریقہ کار بنائے جس سے تعینات عملے پر چیک اینڈ بیلنس ہو تو ضائع ہونے والے اربوں روپے سے تعلیم و صحت کے حوالے سے بڑی حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ خیر ہمارا کام حضورکو نیک و بدسمجھاناہے ،اگرپھر بھی نعرہ فروشی سے ووٹر بنانے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے کیونکہ سمجھایا بھی اُسے جاتا ہے جو سمجھنے پر آمادہ ہو۔
پاکستان کی پس ماندگی کو سمجھنامشکل کام نہیں۔ یہاں لوگوں کو پائوں پر کھڑاکرنے کی بجائے یوٹیلٹی سٹورپراشیائے خورونوش اوربجلی پر سبسڈی دیکرایک طرف قوم کو بھکاری بنایاجارہا ہے۔ مگر اِس طریقہ کار سے ملک غریب سے غریب ہورہاہے ،اگر جنوبی ایشیا ئی ممالک کا جائزہ لیا جا ئے توکہیں بھی ایساطریقہ رائج نہیں۔ پاکستان میں آبادی کے لحاط سے خطے میںسب سے کم تعدادکام کرنے والوں کی ہے ۔یہ بھی غربت وافلاس کی بڑی وجہ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں ہمارے جیسا سیاسی عدمِ استحکام بھی نہیں۔ اسی بناپر دیگرممالک نے تیز رفتار ترقی سے پاکستان کو مات دے دی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں بنگلہ دیش کی نظیر سامنے ہے۔ پاکستان سے الگ ہوکرجس کی ہر میدان
میں ترقی ہمارے لیے چشم کشا ہے، جس نے آمدہ برس ترقی کا ہدف 7.5رکھاہے مگر2023.24 کے میزانیہ میں پاکستان کی ترقی کا ہدف 3.5 ہے لیکن ملکی اور عالمی اِدارے اِس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ورلڈ بینک حال ہی دوفیصدکے قریب ترقی کی پیشگوئی کر چکاہے۔ یہ حالات بہت تشویشناک ہیں جس پر حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے ۔جب تک ہم بھکاری بنانے کی روش نہیں چھوڑیں گے اور لوگوں کو اپنے پائوں پرکھڑا ہونے کی ترغیب نہیں دیں گے۔ تب تک تصوراتی بجٹ بنتے رہیں گے۔ اگرترقی کی منزل حاصل کرنی ہے اور شہریوں کو غربت سے نکالنا ہے توحکمت ِعملی حالاتِ حاضرہ کے مطابق بنانا ہوگی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام سے نکالنا ہو گا۔
٭٭٭