وجود

... loading ...

وجود

تصوراتی بجٹ

جمعرات 15 جون 2023 تصوراتی بجٹ

حمیداللہ بھٹی

ہمارابجٹ کچھ ایسا ہوتاہے جیسے کھانا ختم ہونے کے باوجود مہمانوں کو یہ کہہ کر مطمئن رکھاجائے کہ تھوڑی دیر تک بس ابھی کھانا لگنے ہی والا ہے ،یہی روش خرابیوں کی اہم وجہ ہے۔ کئی دہائیوں سے ہمارے حکمران اپنے ووٹروں سے ایسے ہی وعدوں کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور وعدے بھی ایسے جو کبھی ایفا نہیں ہوئے۔ بارباردھوکا ہونے کے باوجودعوام الناس کو بجٹ کا انتظارہوتاہے ۔متوقع ریلیف کی آس میں لوگ ساراسال تکالیف اُٹھاتے ہیں۔ حالیہ بجٹ کو حقیقی کے بجائے اِس لیے بھی تصوراتی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کل آمدن کے برابرپاکستان نے غیر ملکی قرضوں کی اقساط اور سود ادا کرنا ہے۔ اِس کے باوجود ترقیاتی رقوم مختص کرنا مزاق ہی توہے۔ تمام طبقات کے لیے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک الگ مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہوسکا۔ اسی لیے غربت کی لیکر سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جسے اب صرف جرات مندانہ فیصلوں سے ہی روکا جا سکتا ہے اور جرات مندانہ فیصلہ یہ ہے کہ چادردیکھ کر پائوں پھیلائیں جب تک ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنائیں گے معاشی مسائل ختم نہیں ہوسکتے ۔
معاشی ترقی کا داخلی استحکام سے گہراتعلق ہے اگر سیاسی استحکام نہ ہوتو ترقیاتی منصوبہ بندی کابھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بدقسمتی سے گزشتہ کئی برس سے پاکستان بدترین داخلی عدمِ استحکام سے دوچار ہے لیکن لچھے دار باتوں کے سواحکمران کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ بجٹ کے حوالے سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مشکلات کاذکرکرتے ہوئے سیلاب،عالمی سپلائی لائن میں رکاوٹیں اور دیگرعالمی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے سیاسی استحکام سے معیشت کو درپیش چیلنجز کی بات بھی دہرائی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے چارٹر آف اکانومی کو خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ مگر کیا عملی طور پر حکومت ایسی کسی روش پر گامزن ہے جس سے مذکورہ معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں؟ بظاہر اِس سوال کا کسی صورت ہاں میں جواب نہیںدیا جا سکتا کیونکہ ناہموارملکی معیشت بہتر بنانے کی بجائے حکمران اتحاد کی آج بھی ترجیح اپنی سیاست ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تواپوزیشن کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کو بغیر سوچے سمجھے ہر گز رَد نہ کیاجاتا ۔اب تو عمران خان کا ناطقہ بند کرانے کے لیے ایسی قومی اسمبلی سے ایک عدد قرارداد بھی پاس کرالی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر کا اہم عہدہ راجہ ریاض جیسے حکومتی اتحادی کے پاس ہے جوعوام کی آواز بننے کی بجائے ہر معاملے میں حکومتی وکالت کرتے ہیں ۔ایسے طرزِ عمل سے سیاسی عدمِ استحکام کم نہیں ہوسکتا ۔سیاسی بدامنی سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہو تااسی لیے عوامی طبقات کہنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ سیاسی عدمِ استحکام میں حکومت کااپناہاتھ ہے۔
ہر سیاستدان اپنی سیاست بچانے اور سیاسی کامیابیوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جس سے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی ہوں ،ایسے اقدامات سے پرہیز کیاجاتاہے ۔گزشتہ برس جس بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا عوام کو سامنا رہا، ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ معاشی اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکے۔ شرح ترقی کم ہوتے ہوتے محض 0.29 فیصد رہ گئی ہے۔ البتہ موجودہ دورمیں مہنگائی کے
نت نئے ریکارڈ قائم ہوئے جس میں تاریخی 29.9اضافہ دیکھنے میں آیا ۔فی کس آمدنی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہونے کے ساتھ ملکی معیشت سکڑ کر 341ارب ڈالر رہ گئی۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69.1فیصدتک اضافہ ہو اہے۔ اگر زرعی شعبے پر نگاہ دوڑائیں تو وہ بھی تاریخ کی کم ترین سطح 1.55 فیصدرہی۔ یہ نہایت مایوس کُن شرح بڑھتی آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اِس شرح سے ملکی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا کسی طورممکن نہیں۔ گزشتہ برس صنعتی ترقی کیاہوتی منفی 2.94ہوگئی۔ اِس کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ میں سو فیصد اضافہ کردیا گیا جس پر فہمیدہ حلقے کافی حیران ہیں۔ کیونکہ جب آئی ایم ایف جیسا عالمی مالیاتی اِداراہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر قرض کی نئی قسط دینے سے گریزاں ہے ،ملک کے ذرائع آمدن بھی کم ہوتے جارہے اور بجٹ خسارہ بڑھتاجارہا ہے تو پھر ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟اسی بناپر حالیہ بجٹ کو تصوراتی کہہ سکتے ہیں مگر شیخ چلی کی طرح کے منصوبے بناکر ملک کو شاہراہ ترقی کی طرف نہیں لے جا یاسکتا۔
ملکی مسائل میں اضافہ کرنے میں ہماری سیاسی اشرافیہ کا اہم اورمرکزی کردار ہے جس نے ووٹ لینے کے لیے ایسے منصوبے شروع کیے جن کے فوائد دیرپا نہیں، بلکہ وقتی ہیں حالیہ بجٹ میں 451 ارب بے نظیر پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں ۔جس سے لوگوں کی وقتی اور محدودحد تک مدد کی جائے گی ۔اِس رقم کا ملک یا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔کیا ہی بہتر ہوتااگر پیسے دیتے ہوئے لوگوں کو پابند کر دیا جائے کہ صرف اُسے ہی پیسے ملیںگے جو حکومتی اِداروں سے کوئی ہنر سیکھیں ۔اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سال یا چھ مہینے حکومتی امداد پر گزربسر کرنے والا بعد جلدہی نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اُٹھانے کے بھی قابل ہو سکتا ہے۔ یوں امدادکے ساتھ بحالی کا سلسلہ شروع ہوسکتاہے اور جوخاندان معاشی طورپر خودکفالت حاصل کر تاجائے اُس کی جگہ حکومت نئے خانداان کا اندراج کرلے لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب سیاست سے بالاتر ہو کر اخلاص سے مسائل حل کیے جائیں اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں ایسے اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو محض کاغذوں کی حد تک موجود ہیں ،جن پر ہرسال اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، لیکن تعلیم یا صحت کے حوالے سے اِن کاکوئی کردارنہیںاگر حکومت ایسا طریقہ کار بنائے جس سے تعینات عملے پر چیک اینڈ بیلنس ہو تو ضائع ہونے والے اربوں روپے سے تعلیم و صحت کے حوالے سے بڑی حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ خیر ہمارا کام حضورکو نیک و بدسمجھاناہے ،اگرپھر بھی نعرہ فروشی سے ووٹر بنانے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے کیونکہ سمجھایا بھی اُسے جاتا ہے جو سمجھنے پر آمادہ ہو۔
پاکستان کی پس ماندگی کو سمجھنامشکل کام نہیں۔ یہاں لوگوں کو پائوں پر کھڑاکرنے کی بجائے یوٹیلٹی سٹورپراشیائے خورونوش اوربجلی پر سبسڈی دیکرایک طرف قوم کو بھکاری بنایاجارہا ہے۔ مگر اِس طریقہ کار سے ملک غریب سے غریب ہورہاہے ،اگر جنوبی ایشیا ئی ممالک کا جائزہ لیا جا ئے توکہیں بھی ایساطریقہ رائج نہیں۔ پاکستان میں آبادی کے لحاط سے خطے میںسب سے کم تعدادکام کرنے والوں کی ہے ۔یہ بھی غربت وافلاس کی بڑی وجہ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں ہمارے جیسا سیاسی عدمِ استحکام بھی نہیں۔ اسی بناپر دیگرممالک نے تیز رفتار ترقی سے پاکستان کو مات دے دی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں بنگلہ دیش کی نظیر سامنے ہے۔ پاکستان سے الگ ہوکرجس کی ہر میدان
میں ترقی ہمارے لیے چشم کشا ہے، جس نے آمدہ برس ترقی کا ہدف 7.5رکھاہے مگر2023.24 کے میزانیہ میں پاکستان کی ترقی کا ہدف 3.5 ہے لیکن ملکی اور عالمی اِدارے اِس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ورلڈ بینک حال ہی دوفیصدکے قریب ترقی کی پیشگوئی کر چکاہے۔ یہ حالات بہت تشویشناک ہیں جس پر حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے ۔جب تک ہم بھکاری بنانے کی روش نہیں چھوڑیں گے اور لوگوں کو اپنے پائوں پرکھڑا ہونے کی ترغیب نہیں دیں گے۔ تب تک تصوراتی بجٹ بنتے رہیں گے۔ اگرترقی کی منزل حاصل کرنی ہے اور شہریوں کو غربت سے نکالنا ہے توحکمت ِعملی حالاتِ حاضرہ کے مطابق بنانا ہوگی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام سے نکالنا ہو گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر