وجود

... loading ...

وجود

بہاول پور براستہ گورکھ پور

بدھ 14 جون 2023 بہاول پور براستہ گورکھ پور

رانا خالد قمر

پروفیسر ڈاکٹر شہزاد رانا اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں میڈیا اینڈ کمیونی کیشن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ ہزاروں طالب علموں،سینکڑوں عامل صحافیوں کے استاد ہیں۔ شہزاد رانا بہاول پور جیسے پسماندہ اور دور دراز علاقے کی یونیورسٹی کے پروفیسر کی بجائے اگر لاہور کی کسی یونیورسٹی میں ہوتے تو قومی اخبارات کے صفحوں اور ٹی وی کی ا سکرینوں پر چھائے ہوتے ۔ یہ اور بات کہ رانا صاحب اب بھی پنجاب کی دیگر یونیورسٹیز کے سینکڑوں اساتذہ کی طرح “گم نامی” میں زندگی نہیں گزار رہے ۔ وہ لکھ رہے ہیں پڑھ رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں ۔ وہ میڈیا کی زینت بھی بنتے رہتے ہیں ان دنوں وہ پھر سے خبروں ۔ تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی وہ تحقیقاتی کتاب ہے جسے “جہد مسلسل” کے نام سے ملتان کے کتاب نگر نے شائع کیا ہے ۔ یہ کتاب کہنے کو تو وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی سوانح عمری دراصل یہ برصغیر پاک و ہند کے ان دو گھرانوں کی داستان ہے جو اپنا سب کچھ اس وطن پر قربان کرکے یہاں پہنچے ۔ بہاول پور براستہ گورکھ پور کے دکھوں کو اس خوبصورتی سے کوئی ایسا انسان ہی بیان کرسکتا تھا جو خود یا جس کے آباء و اجداد اس قرب سے گزرے ہوں۔
ڈاکٹر اطہر محبوب 1971 میں قاضی محبوب الحق کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد گرامی پاک فضائیہ کے بہترین پائلٹس میں شامل اور ان دنوں پی اے ایف بیس کورنگی کریک میں تعینات تھے ۔ وہ پاک فضائیہ کے ان اولین ہوا بازوں میں شمار ہوتے ہیں جو امریکہ سے تربیت حاصل کرچکے تھے ۔ 1965 کی جنگ میں ایسے ہی تربیت یافتہ پائلٹس نے ازلی دشمن بھارت کے دانت کھٹے کئے تھے ۔ اس معرکے کے بعد پاکستان نے اپنی فضاؤں کو مزید محفوظ بنانے کے لئے ہوا بازی کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور اپنے جہازوں کو مسلسل فضاء میں بلند رکھنے کا ریکارڈ بنایا۔ 1969 میں ایسے ہی مشن سے کامیاب واپسی پر ان کا طیارہ کراچی کی فضاء میں واپس لوٹا تو فنی خرابی کا شکار ہوگیا ۔ قاضی محبوب الحق اپنے کو پائلٹ اسکواڈن لیڈر اختر کے ساتھ محو پرواز تھے چاہتے تو دونوں پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکل جاتے مگر انہوں نے نیچے آباد سینکڑوں انسانوں پر قہر بن کر گرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنا بہتر سمجھا اور جب طیارہ آبادی سے نکل گیا تب بہت دیر ہوچکی تھی ۔ قاضی محبوب تو جمپ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اونچائی کم ہونے کی وجہ سے پیرا شوٹ نہ کھل سکا وہ کسی پتھر کی طرح زمین سے ٹکرائے اور شدید زخمی ہوگئے کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد موت کو شکست دینے میں کامیاب رہے اور غازی ٹھہرے البتہ ان کا کو پائلٹ شہید ہوگیا۔ انجینئر اطہر محبوب کے والد قاضی محبوب الحق اپنی جگہ بہت نامور ہیں ان کے والد قاضی منظور الحق یعنی اطہر محبوب کے دادا بھی تحریک پاکستان میں نام کما چکے ہیں۔ قاضی منظور الحق نے جہاں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی وہاں اپنے عزیز ترین دوست مولوی سبحان اللہ کے صاحبزادے سید رضوان اللہ کو باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا اور اس تعلق کو رشتے داری میں بدل دیا ان کی بیٹی کو اپنی بہو بناکر یہ رشتہ امر کردیا۔ یوں وہ تعلق جو گورکھ پور سے چلا تھا وہ پاکستان پہنچ کر اٹوٹ انگ میں بدل گیا۔ مولوی سبحان اللہ اور ان کے فرزند مولوی رضوان اللہ کو آپ سر سید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، چراغ حسن حسرت ، پیر جماعت علی شاہ، جوہر برادران، علامہ اقبال ، رائے احمد نواز کھرل ،نظام لوہار جیسے مشاہیر کی سطح پر پرکھ سکتے ہیں ۔ مولوی رضوان اللہ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے ۔ یو پی صوبائی مسلم لیگ کے سیکریٹری، صوبائی مجلس قانون ساز کے نمائندے اور مرکزی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے ۔ وہ ورکنگ باؤنڈری کمیشن جسے ریڈ کلف کمشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس کے رکن تھے ۔ وہ ان زعماء میں شامل تھے جو غیر منصفانہ تقسیم پر سخت تنقید کرتے رہے ۔ وہ بنگال کی شمالی پٹی کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے تاکہ مشرقی پاکستان خشکی کے راستے بھی پاکستان سے جڑ جائے ۔ وہ گورداس پور اور فیروز پور جیسی مسلم آبادیوں کو بھی پاکستان کا حصہ دیکھنے کے خواہش مند تھے ۔ ان کی بات رد کیے جانے کی وجہ سے انہوں نے ریڈ کلف کمشن کے رکن کی حیثیت سے ملنے والا چالیس ہزار کا خطیر مشاہرہ بھی لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے خاندانوں کے چشم و چراغ انجینئر اطہر محبوب نے ان علم دوست عباسی نوابوں کی سرزمین پر قدم رکھا جن سے ان کے ددھیال کی نسبت ہے ۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے مصنف نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہماری نوجوان اور آئندہ آنے والی نسل کو اپنے ماضی اور حال سے ہمیشہ جوڑے رکھے گی۔ ڈاکٹر شہزاد رانا،ڈاکٹر آصف ندیم بہاول پور کے سینئر صحافی زاہد علی خان ، اسامہ شہزاد ، احمد ندیم اور ان کے علاوہ جس نے بھی اس کتاب کو ہم تک پہنچانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے وہ لائق تحسین ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر شہزاد رانا اور انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی کا نام روشن اور ہمارے جیسے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کا اہتمام کرتے رہیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر