... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ جموں و کشمیرمیںکل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے چوٹہ بازارسرینگر کے شہداء کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا صرف ایک واقعہ ہے جبکہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے دوران بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اس طرح کے دل دہلا دینے والے20 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 11جون 1991کو سرینگر کے علاقے چوٹہ بازار میں بھارتی پیرا ملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف)کے اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے خواتین اور بچوں سمیت 30سے زائدبے گناہ شہریوں کو شہید کر دیاتھا۔
حریت رہنماؤںسید بشیر اندرابی اور خواجہ فردوس نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو شکست نہیں دے سکتی۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھارتی فوج کے ہاتھوں جاری کشمیریوں کی نسل کشی کا فوری نوٹس لیں۔ شہدا ء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا اور کشمیری عوام اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھیں گے۔سینئر بھارتی صحافی اور معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے مقبوضہ کشمیر میں لاگو کالے قوانین کو عوامی حقوق کا قاتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کیخلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔امن، ترقی کے تمام دروازے بنداور حالات انتہائی نامساعد ہیں۔ آفسپا اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین نے کشمیری عوام کے حقوق سلپ کررکھے ہیں ۔لوگ پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہیں ۔بھارتی اور ریاستی حکومتوں کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور لوگوں کیخلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔ سینکڑوں افراد کو جیلوں میں ٹھونس کر ان پر ملک اور حکومت دشمنی کا الزام لگا دیا گیا ہے اور ان ریاستوں میں قانون اور فوج کی تلوار غریبوں پر لٹکائی جارہی ہے۔ افسپا ،پبلک سیفٹی ایکٹ ایک ایسی بیماری ہے جس کا اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بیماری بن سکتی ہے۔ جموں وکشمیر ، منی پور ، ناگالینڈ کی ریاستوں میں لوگوں کے سروں پر فوج تعینات ہے۔
یکم جنوری 1949ء کی جنگ بندی کے بعد کشمیری ظلم کی جس طویل رات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اس نے ہر ایک کشمیری کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ آزادی خیرات میں نہیں ملتی۔ اس کیلئے جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔ دشمن کی قوت کو اپنے مقابلے میں ہیچ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر ریاست جموں و کشمیر میں آزادی کی کرنوں کے مدہم سائے ابھرنے لگے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کوئی بڑا علاقہ نہیں، گنجان آباد بھی نہیں، بظاہر آزادی کیلئے ہتھیار اٹھانے والوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں مگر ان کے مقابل بھارت کی آٹھ لاکھ فوج ہیچ ثابت ہوئی ہے۔ جب تک کشمیر کی سر زمین پر بھارت کا ایک سپاہی بھی موجود ہے، کشمیری آزاد نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بھارتی فوج کو ہیچ ثابت کرنا صرف ایک محاذ پر کامیابی ہے اور اس مقام پر کھڑے ہو کر ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نے کشمیر میں بڑے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہ ایک طاقتور ملک ہے اس کے پنجے اکھاڑنے، اس کی طاقت کا گھمنڈ توڑنے کیلئے کشمیریوں کو ابھی کئی صحراؤں سے گزرنا ہے۔
کشمیری عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ انہیں ایک ایٹمی طاقت کا سہارا ہے اور پاکستان کے ساتھ نے کشمیریوں کو حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح بے نام نہیں ہونے دیا۔ پاکستان نے ان کی خاطر بھارت سے دشمنی مول لی، آزاد کشمیر کو بچائے رکھا اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں کشمیریوں کی خاطر جسم و جاں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے ایک حصے کی قربانی بھی دی۔کشمیری جانتے ہیںکہ سفارتی محاذ پر تمام تر جدوجہد پاکستان نے کی ہے اور کر رہا ہے۔جب مقبوضہ کشمیر میں کسی مکان کو آگ لگائی جاتی ہے اس مکان کے مکین کھلے آسمان تلے بے بسی کی تصویر بنے اسے جلتا دیکھتے رہ جاتے ہیں تو اسی بے بسی کا زہر ہر پاکستانی کے دل میں اترنے لگتا ہے۔ جب حراست کے دوران کسی کشمیری نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو ہر کوئی اپنے لہو کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اور جب خواتین کی بے حرمتی کی خبریں آتی ہیں تو ہر پاکستانی کا اشکبار چہرہ بھی آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے۔
بھارتی فوجیں آئے دن معصوم کشمیری نوجوانوں کو پکڑ کر اذیت خانوں میں پہنچا کر غیر انسانی سلوک کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے کشمیر کی تحریک کبھی کمزور نہیں ہو سکتی۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ یہاں اپنا رول نبھائیں اور اقوام عالم کے اداروں میں بھارت کو ننگا کریں۔ ہزاروں بے گناہ کشمیری ہندوستان کی مختلف جیلوں میں شدید بیماریوں کا شکار برسوں سے بند پڑے ہیں، جو انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ کشمیری قوم نے آج تک ایک لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ قربانیاں کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کیلئے نہیں دی گئیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی پاس شدہ اور تسلیم شدہ قراردادوں کے تحت حل کرنے کیلئے دی گئیں۔ مسئلہ کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس کے ساتھ برصغیر کا امن جڑا ہوا ہے۔ جب تک اس مسئلہ کو حل نہ کیا جائے تب تک برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
تمام کشمیری امید کرتے ہیں کہ نئے دن کا سورج ان کی آزادی کا پیغام بر ہوگا۔ جب نئے دن کا سورج اس پیغام کے ساتھ طلوع نہیں ہوتا تو سندھ، دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے پانیوں میں کشمیریوں کالہو بدستور شامل ہوتا رہے گا۔ ہر کشمیری اپنی جگہ متحرک ہے۔ کشمیریوں کے لہو کو ارزاں سمجھنے والے ہمارے دشمن ہیں۔
٭٭٭