وجود

... loading ...

وجود

عیدگاہ مرادآبادکا سانحہ زخم پھر ہرے ہوگئے!

پیر 12 جون 2023 عیدگاہ مرادآبادکا سانحہ زخم پھر ہرے ہوگئے!

معصوم مرادآبادی

مغربی یوپی کا شہر مرادآباد جہاں اپنی پیتل صنعت کے لیے پوری دنیا میں مشہورہے تو وہیں اس شہرسے عیدگاہ قتل عام کے کچھ ایسے زخم بھی وابستہ ہیں جو 43 برس کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش کی یوگی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ وہ 1980 کے مرادآباد فساد کی تحقیقاتی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گی۔ اس اعلان کے بعدوہ تمام زخم ہرے ہوگئے ہیں جو اس وحشیانہ قتل وغارتگری سے وابستہ ہیں۔ سرکار اسے بھلے ہی فساد کا نام دے کر اس کی وحشت کو کم کرنے کی کوشش کرے لیکن 13؍اگست 1980کو مرادآباد کی عیدگاہ میں جو کچھ ہوا وہ فساد ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف پولیس ایکشن تھا جس کی زد میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کی جانیں آئی تھیں۔اس کے بعدمرادآباد کے باشندوں کومہینوں کرفیو کاعذاب جھیلنا پڑا تھا۔
13؍اگست1980کو عید الفطرکی نماز کے دوران مرادآباد کی عیدگاہ میں جو کچھ ہواتھا، اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہ سانحہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کی یادیں آج بھی ان ہزاروں انسانوں کے وجود کو لرزا دیتی ہیں، جنھوں نے تاریخ کے اس بدترین قتل عام کواپنے وجود پر جھیلا تھا۔ایسی قتل وغارتگری اور ایسا ظلم وستم شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ اس کا ثبوت مرادآباد کی عیدگاہ میں برسنے والی پی اے سی کی گولیاں ہی نہیں تھیں بلکہ شہر میں کرفیو کے دوران بے گناہ مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑتوڑے گئے ، وہ بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ آج جب 43 سال بعد میں اس عنوان پر کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے وجود پر لرزہ طاری ہے اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔اترپردیش سرکار کو نہ جانے کیا سوجھی ہے کہ وہ‘مرادآباد فساد کی تحقیقاتی رپورٹ’ اسمبلی میں پیش کرنے جارہی ہے ، لیکن اس کے مندرجات کو عام نہیں کیا جائے گا۔ مرادآباد کی نسل کشی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ایم پی سکسینہ کی سربراہی میں جویک نفری تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، اس نے 20/نومبر1983کو اپنی رپورٹ اس وقت کی صوبائی حکومتکو پیش کردی تھی، جو چالیس برسوں سے سرکاری ریکارڈ میں خاک پھانک رہی ہے ۔ اب چالیس سال بعد اسے اسمبلی میں پیش کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے ، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔وہ بھی اس اعلان کے ساتھ کہ اس رپورٹ میں جو کچھ لکھا ہے اسے عام نہیں کیا جائے گا۔ یوگی سرکار اس رپورٹ کو بھلے ہی منظرعام پر نہ لائے ، لیکن اس کا نچوڑ یہ ہے کہ13/اگست 1980کو عیدگاہ میں افراتفری پھیلانے کا کام مقامی لیڈر شمیم احمد خاں اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا تھا۔انھوں نے یہ کام انتظامیہ کو بدنام کرنے اور بالمیکیوں و ہندو پنجابیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے کیا تھاتاکہ انھیں مقبولیت حاصل ہو۔سکسینہ کمیشن کی رپورٹ میں نہ تو پولیس اور پی اے سی کے مظالم کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی جانبداریوں کا کوئی حوالہ۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ اس رپورٹ کو ابھی مزید خاک ہی پھانکنی چاہیے تا وقتیکہ اسے دیمک اپنی غذا نہ بنالے ۔مرحوم ڈاکٹر شمیم احمد خاں مرادآباد میں مسلم لیگ کے علمبردار تھے ۔بعد کو وہ جنتادل کے ٹکٹ پرشہر سے ممبراسمبلی چنے گئے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سکسینہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انھیں قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی ہے اور ان حقائق کو نظرانداز کردیا ہے جن کی وجہ سے مرادآباد کی عیدگاہ جلیاں والا باغ بنی تھی۔
عیدالفطرکی نمازکے دوران مرادآباد کی عیدگاہ میں نجس جانور کیسے اور کیونکر داخل ہوا یہ بات ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ اس جنگلی جانور نے نمازیوں کے کپڑے ہی خراب نہیں کئے بلکہ پوری نماز ہی خراب کی جس سے مسلمان بے انتہا مشتعل ہوگئے ۔ اس وقت عیدگاہ میں 70ہزار سے زیادہ نمازیوں کا ہجوم تھا اور ہمیشہ کی طرح لوگ اپنے کمسن بچوں کو ساتھ لے کر آئے تھے ۔ بپھرے ہوئے مسلمانوں نے ان بچوں کی بھی پروا نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب پی اے سی کے جوانوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کی تو بے تحاشہ بھگدڑ مچ گئی اور اس کی زد میں بڑوں کے ساتھ ساتھ سیکڑوں بچے بھی آئے ۔ اس کا ثبوت عیدگاہ اور اس کے آس پاس بکھرے ہوئے جوتے چپل، ٹوپیاں اور جاء نمازیں ہی نہیں تھیں بلکہ خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے بھی تھے ۔ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق عیدگاہ میں شہید ہونے والوں کا ہندسہ 200کو پار نہیں کرسکا ہے ، لیکن غیرسرکاری ذرائع نے یہ تعداد کئی گنا زیادہ بتائی ہے ۔
پی اے سی نے عیدگاہ میں اندھا دھند فائرنگ ہی نہیں کی تھی بلکہ اس کے بعد مسلم علاقوں میں کرفیو نافذ کرکے درندگی اور بربر یت کا تانڈو کیا۔ میرا گھر عیدگاہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پرکٹارشہید علاقہ میں چاندوالی مسجد کے سامنے تھا۔میں نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے ہیں، انھیں بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ گلی کوچوں میں اپنی جان بچاکر چھپے ہوئے لوگ جب اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے سڑک پار کرتے تھے تو پی اے سی کے جوان ان کی تاک میں بیٹھے رہتے تھے ۔ گل شہید اور کٹار شہید کے چوراہوں سے وہ جان بچاکر بھاگنے والوں کو گولی کا نشانہ بناتے اور پھر ان کے قریب جاکر مزید گولیاں ان کے سینوں میں داغتے ۔ اس کے بعد ان کی لاش کو الٹا کرکے سڑک پر دور تک گھسیٹتے تھے تاکہ ان کے چہرے کی شناخت مٹ جائے ۔ گل شہید چوراہے پر لکڑی کی ایک ٹال تھی جہاں رات گئے ان لاشوں کو جلایا جاتا تھا۔ رات میں روزانہ انسانی گوشت کے جلنے کی بو ہمارے گھر تک آتی تھی۔کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جن کے پیاروں کو تلاشی کے نام پر ان کے گھروں سے اٹھایا گیا اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔گلشہید پولیس چوکی کے پیچھے حاجی انوار کے خاندان کے چار افراد کو تلاشی کے بہانے اغواء کیا گیا تھا جن کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔
13؍اگست 1980کے دودن بعد یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مرادآباد کے سانحہ کا ذکر کیا تھا۔ بعد کو مرادآباد کے حالات کا جائزہ لینے وہاں گئی بھی تھیں۔ مظلوموں نے دہاڑیں مارمار کر انھیں اپنی بپتائیں سنائی تھیں، لیکن وہ انھیں انصاف نہیں دلاسکیں۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے اپنی لال قلعہ کی تقریر میں کہا تھا کہ مرادآباد کے واقعہ نے ہمارے ملک کو چوٹ پہنچائی ہے ۔ جس کسی نے بھی وہاں گڑبڑ کی ہے خواہ وہ سرکاری ملازم ہو یا عام شہری اسے سخت سزا دی جائے گی۔ مرادآباد کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا یہ وعدہ آج بھی وعدہ فردا ہی ہے ۔ کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزائیں ملیں۔ خود یوگی سرکار بھی اس کی تحقیقاتی رپورٹ صرف زخموں کو ہرا کرنے کے لیے اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے ۔اس وقت کے مرکزی وزیرمملکت داخلہ یوگیندر مکوانہ نے مرادآباد کے فساد کے لیے آرایس ایس کو موردالزام قراردیا تھا۔ لیکن اس موقع پر آرایس ایس نوازمیڈیا نے اس کی پوری ذمہ داری مسلمانوں کے سرڈالی تھی اور ان پر ایک اور پاکستان بنانے کی سازش رچنے کا الزام عائد کیا تھا۔ دہلی روڈ پر زیرتعمیر مدرسہ حیات العلوم کی عمارت کو پاکستان بنانے کی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔ انگریزی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ کی رپورٹنگ اس معاملے میں خاصی گمراہ کن تھی۔مرادآباد سانحہ کے بعد پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں مسلم لیگ کے رکن جی ایم بنات والا نے مرادآباد کے تعلق سیمذمتی قرارداد پیش کی تھی۔ اس موقع پر فارورڈ بلاک کے ممبر چتو بسو نے الزام عائد کیا تھا کہ مرادآباد کا فساد مسلمانوں کے خلاف سرکاری تشدد تھا۔ اس موقع پر یوپی اسمبلی میں بھی خاصا ہنگامہ ہوا تھا۔جنتا پارٹی کے ممبراسمبلی راجندر سنگھ نے مرادآباد کی عیدگاہ کا موازنہ جلیاں والا باغ سے کیا تھا۔ اپنی جوابی تقریر میں وزیراعلیٰ وی پی سنگھ نے کہا تھا کہمیں یہاں کوئی وضاحت پیش کرنے کے لیے نہیں کھڑا ہوا ہوں بلکہ میں یہاں سزا پانے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔
افسوس کہ آج تک مرادآباد قتل عام کے ایک بھی مجرم کو معمولی سزا بھی نہیں ملی ہے اور نہ ہی معاوضہ کے نام پر کسی کو پھوٹی کوڑی۔ سیکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون کس کی گردن پر ہے ، کسی کو نہیں معلوم۔سکسینہ کمیشن کی رپورٹ اس قتل عام کی لیپا پوتی سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر