... loading ...
حمیداللہ بھٹی
کسی کو چلتے ٹھوکرلگے یا دھکا ،گرنے والے کا اگر بیچ چوراہے سامان بکھر جائے تو جمع ہونے والی بھیڑ میں ایسے افرادبھی ہوتے ہیں جو بکھرے سامان سے کچھ اپنے پاس بھی رکھ لیتے ہیں اور بکھرے سامان کا مالک سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی حالات کی وجہ سے بازپُرس سے قاصر رہتا ہے۔ تحریک ِ انصاف آج کل ایسے ہی حالات سے دوچار ہے جس کا سامان بکھر چکا ہے، جسے سبھی سمیٹنے کی تگ ودو میں ہیں عدمِ اعتماد کی کامیابی سے اُسے پہلی ٹھوکر لگی پھر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور دونوں صوبائی حکومتوں سے محروم کے لیے اِس جماعت کوزوردار دھکا دیا گیا جس سے جماعت کا شیرازہ ایسا بکھراہے کہ حریف جماعتیں بڑھ چڑھ کر سمیٹنے کے چکرمیں ہیں۔ کوئی بھی بکھرے سامان کو اکٹھا کرنے میں مددنہیں کررہا۔البتہ جس کے جو ہاتھ لگتا ہے وہ ہتھیانے کی کوشش میںہے اورجس جماعت کا سامان بکھراہے وہ دیکھتے ہوئے بھی اتنی بے بس ہے کہ کچھ کرنے سے قاصرہے مگر اِس جماعت کو لگنے والی زیادہ تر ٹھوکروں میں قیادت کا اپنا ہاتھ ہے جس نے فیصلوں سے قبل کبھی کسی سے مشاورت تک نہیں کی اور نتائج و مضمرات بارے غوروفکر کیے بغیرفواد چوہدری جیسے کم فہم لوگوں پر تکیہ رکھا۔ اسی لیے جماعت کو لگنے والی ٹھوکر کے ذمہ داران کا تعین کرنے کی کوشش کریں تو عمران خان کسی حوالے سے بری الذمہ نہیں کیونکہ جن کے کہنے پر غلط فیصلے کیے وہ حالات کا رُخ دیکھ کر اپناسیاسی قبلہ تبدیل کرچکے ہیں۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی خود کُشی کی طرف جانے کا تمام تر نقصان اکیلے عمران خان کواُٹھانا پڑے گا۔
اِس امر میں شائبہ نہیں کہ عمران خان کی بات کریں یا پی ٹی آئی کو ذہن میں رکھیں اِس وقت تمام سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں سے مقبولیت میں آگے ہے۔ اِس کے باوجود آج کل بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں ،آئے دن بڑے بڑے نام اِس جماعت کو یا توخیر باد کہہ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں یا سیاست کو ہی خیر بادکہنے پرمجبور ہیں ممکن ہے عدمِ اعتماد کی ٹھوکر اور پھردو صوبائی حکومتوں سے محرومی کے دھکے سے پہنچنے والے نقصان کی اِتنی شدت نہ ہوتی مگر نومئی کے واقعات نے اِس جماعت کا انجرپنجر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب کوئی لاکھ کہے کہ وہ کسی دبائو کے بغیر جماعت کو خیر باد کہہ رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ملک کی اکثریت دفاعی اِداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کو پسند نہیں کرتی مگر یہاں تو قومی املاک کے ساتھ دفاع کے ذمہ دار اِدارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی جس سے نہ صرف عسکری قیادت خفاہوئی بلکہ عوامی حلقوں میں شدید غم و غصے کی کیفیت پیداہوئی۔ اسی وجہ سے اہم عہدیدار اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے دیگر جماعتوں سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ملک کے اکثر سیاسی حلقے اِس قیاس سے متفق ہیں کہ بقاکی جدوجہد شاید ہی کامیاب ہو زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ جماعت آمدہ انتخابی میدان میں بڑی سیاسی شکست سے دوچار ہوسکتی ہے ۔
ملکی منظرنامے پر موجود کئی اہم جماعتوں کی نظریں پنجاب پر ہیں۔ سب کی کوشش ہے کہ آمدہ عام انتخابات میں اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار کامیاب کرانے کاانتظام کرالیں۔ سابق صدر آصف زرداری لاہورکے مرکز ماڈل ٹائون میں چارکنال سے زائد رقبے پر محیط وسیع وعریض ایک نیا گھر لے چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے تحریک ِ انصاف کے علاوہ دیگر کئی جماعتوں کے الیکٹ ایبلز اہم امیدواروں کوانھوں نے پہلے ہی اپنی جماعت میں شامل کر لیاہے۔ اب اُن کی نظریں وسطی اور شمالی پنجاب پر ہیں۔ اِس دوران اپنی جماعتوں سے منحرف رہنما جس تیزرفتاری سے پی پی کی طرف راغب ہیں، سے ایسے قیاسات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ شاید آمدہ انتخابات کے بعد وزارتِ عظمٰی جیسے اہم منصب کے لیے بلاول بھٹو پسندیدہ ترین امیدواروں میں سے ایک ہیں۔اِس بارے باخبر حلقے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ عدمِ اعتماد کے دوران پی پی نے جس طرح غیر مشروط ن لیگ کی مدد کی تھی، میاں شہبازشریف سے بھی ممکنہ طور پر حمایت کا صلہ طلب کیا جا سکتا ہے۔ ظاہرہے پی پی اگر پنجاب سے پینتیس یا چالیس نشستیں لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اُسے حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیونکہ سندھ میں بھاری اکثریت سے جیت نوشتہ دیوار ہے ، جبکہ بلوچستان اور کے پی کے سے بھی مناسب حصہ واضح ہے اسی بنا پر پی پی کو کچھ حلقے ابھی سے چہیتی جماعت تصور کرنے لگے ہیں مگر تصورات اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے ۔پی ٹی آئی کے بکھرے سامان سے پی پی کوبڑا فائدہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ چاہے لاکھ چالیں چلی جائیں عوامی ووٹوں سے کامیابی ملتی ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو فتح حاصل کرنے اور حکومت بنانے کا خوب چکنا چور ہو سکتا ہے۔
عمران خان حکومت تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جہانگیر ترین استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ایک الگ جماعت بنانے کا علان کر چکے ہیں جس میں شامل ہونے والوں کی اکثریت پی ٹی آئی کے منحرفین کی ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ طیارے کے ذریعے چند افراد کو اِدھر سے اُدھر لاناتو بہت آسان ہے مگر ووٹروں کی بڑی تعدادکاذہن اپنے حق میں کرنا بہت مشکل ہے ،نئی جماعت کا سربراہ جائیداد کی خریدوفروخت کے کاروبارسے وابستہ ارب پتی علیم خان کوبنایا گیا ہے جو پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف پیش ہونے والی تحریکِ عدمِ اعتماد کے دوران لندن جا کر میاں نواز شریف سے مل کر ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کرچکے تھے۔ اب الگ جماعت بنانے کی طرف کیوں آئے ہیں؟ عین ممکن ہے یا تو ن لیگ نے ٹکٹ جاری کرنے سے معذرت کرلی ہے یا پھر پی ٹی آئی کے ووٹر تقسیم کرنے کے لیے الگ جماعت بنائی گئی ہے جو بھی ہے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کا ووٹرصرف عمران خان سے لگائو رکھتا ہے۔ قبل ازیں عائشہ گلہ لئی نے الگ نئی جماعت بنا کر حشر دیکھ لیانیز میاں حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلیٰ منتخب کرنے میں جن ممبرانِ صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دیا ضمنی الیکشن میں وہ بھی عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے، اسی لیے جہاندیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ تاحیات نااہلی کا صدمہ اُٹھانے والے امیرترین شخص جہانگیرترین ہوں یا پھر علیم خان جیسے صاحبِ ثروت ، دونوں کو سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی بقا کی جدوجہد میں منہ کے بل جا گریں ۔
کئی سیاسی جاعتیں پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں شروع کر چکی ہیں اِس کے باوجودن لیگ جانے کیوں ہنوز خاموش ہے ویسے تو عطا تارڑ زرائع ابلاغ سے گفتگو میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ جہانگیرترین کے ساتھ شامل ہونے والے کئی اہم رہنمائوںسے رابطے میں ہیں مگر رابطے کے باوجود وہ حکومتی جماعت میں شامل ہونے سے کیوں گریزاں ہیں ؟ اِس کی سمجھ نہیں آتی ایسی قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں کہ
پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرح ن لیگ کو بھی سیاسی بقا کامرحلہ درپیش ہے یادرہے کہ پنجاب ہی ن لیگ کی اصل سیاسی طاقت ہے حال ہی میں پی پی کی طرف سے ایسا اظہار ہوچکا کہ وہ حکمران نہیں بلکہ محض حکومتی اتحاد کا حصہ ہے ممکن ایسے خیالات کی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہو تاکہ عوامی غضب سے بچا جا سکے، مگرحکومت کے اچھے یا بُرے کسی فیصلے سے پی پی بطور جماعت بری الذمہ نہیں ہو سکتی، نہ ہی اِکا دُکا بیانات سے بقا کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ شریف خاندان کوپنجاب میں غیر معمولی سیاسی نقصان سے دوچارکیا جا سکتا ہے ۔
٭٭٭