... loading ...
حمیداللہ بھٹی
حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود معاشی ماہرین اب بھی دیوالیہ کاخطرہ ظاہر کررہے ہیں، جب تک برآمدات نہیں بڑھائیں گے، تب تک یہ خطرہ مکمل طورپرختم نہیں ہوگا۔ مخدوش حالات میں کسی ملک یا مالیاتی اِدارے سے مزید قرضہ بھی نہیں مل سکتا۔ایسی کسی نوعیت کی درخواست کرنے پر یقینی ادائیگی کا طریقہ کاریا منصوبہ دریافت کیا جا سکتاہے ۔پاکستان کے پاس آمدن کے ذرائع محدود ہیں۔ اسی بناپرنئے قرض کے لیے عالمی اعتماد میں کمی آئی ہے۔ بدقسمتی سے اب بھی معیشت کی بجائے محاذآرائی کو فوقیت حاصل ہے ۔حالانکہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اِس کے نتائج صرف عام آدمی نہیں بلکہ ہر طبقے کے لیے تباہ کُن ہونگے۔ پالیسیوں میں تسلسل ، برآمدی مالِ تجارت میں اضافے اور ڈالر پر انحصار میں بتدریج کمی معیشت کے لیے آکسیجن ثابت ہو سکتی ہیں لیکن آج کل ملک بدترین سیاسی عدمِ استحکام سے دوچار ہے۔ باربار حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے اِس میں مزید شدت آگئی ہے۔ حکمرانوں کی لاپرواہی اور مسائل سے چشم پوشی ہی معیشت کے زوال کا سبب ہے۔
ڈالر عالمی کرنسی سہی لیکن گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی ممالک متبادل کرنسی میں تجارت شروع کرچکے ہیں۔ بالخصوص 2016 میں اِس حوالے سے کافی تیزی دیکھنے میںآئی ہے جس سے عالمی تجارت میںروسی روبل ،چینی یوآن اور بھارتی روپے کا کردار بڑھا ہے۔ عالمی تجارت پر نظر رکھنے والے کئی اِدارے متفق ہیں کہ گزشتہ چندبرسوں سے ڈالر کی بالادستی خطرے میں ہے اورتجارتی حوالے سے یہ خطرہ اکیس فیصد سے زائد ہے۔ روس اور یوکرین جنگ سے حاصل بالادستی کے زوال میں مزیدتیزی آئی ہے۔ امریکا کی روس پر پابندیاں بھی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں ۔روس نے سستا تیل خریدنے کے آرزو مند پاکستان سمیت کئی ممالک کو ڈالر کے متبادل کرنسی میں ادائیگی کی سہولت دے رکھی ہے اور اب پاکستان بھی چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کر سکتا ہے۔ حالات سے فائدہ اُٹھاکر پاکستان تجارتی لین دین میں ڈالر کے انحصار میں کمی لاسکتاہے ۔بظاہر ٹیسلا جیسے اِدارے کے سربراہ جن کا شمارعالمی سطح پر امیر ترین افرادمیں ہوتاہے نے واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ اگر ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے سے منافع کی بجائے نقصان کا امکان بڑھ جائے گا۔ مگر اِس دھمکی کواِس وقت کوئی بھی سنجیدہ لینے پرتیارنہیں۔ عالمی تجارت میں یوآن کا فروغ پزیرکردارایک حقیقت ہے لیکن امریکا باوجود کوشش کے نہ تو چینی ترقی روک سکا ہے اور نہ ہی ڈالر کی اجارہ داری قائم رکھنے میں کسی نوعیت کی غیرمعمولی کامیابی حاصل کرسکا ہے۔ اب تو روبل اور روپیہ بھی مقابلے پرہے بھارت پہلے اگر 19 ممالک سے اپنی کرنسیروپیہ میں تجارت کررہا تھا جن میں اسرائیل ،بنگلہ دیش، جرمنی، روس، ملائشیا، سنگاپور،نیپال،بھوٹان،مالدیپ،سری لنکا وغیرہ شامل ہیں اب روپے میں تجارت کا دائرہ کار چالیس ممالک تک بڑھانے کے منصوبے پر عمل پیراہے۔ اسی طرح روبل اور یوان میں جاری تجارت دنیا کے کئی براعظموں تک وسعت اختیار کر چکی ہے۔ لہٰذا وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی تجارتی معمولات میں تبدیلیاں لائے تاکہ ڈالرکی بالادستی سے چھٹکارے کے ساتھ قرضوں سے نجات ملے۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے معاشی ارسطو ناکام ہو چکے ہیں مفتاح اسمعٰیل کو ہٹاکر بڑے طمطراق سے اسحاق ڈار کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا جنھوں نے کئی ایسے دعوے کیے جو ہنوز پورے نہیں ہوسکے نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حدتک کمی آئی ہے۔ بلکہ عالمی مالیاتی اِدارے باوجود کوشش کے مزید قرض دینے سے ہچکچارہے ہیں ۔اگلے برس2024 میں ہم نے پچیس ارب ڈالراداکرنے ہیں جن میںپندرہ ارب قلیل مدتی جبکہ سات ارب ڈالر طویل مدتی قرض ہے قلیل مدتی قرض میں چین کے چار ارب، سعودیہ کے تین جبکہ متحدہ ارب امارت کے دوارب ڈالر شامل ہیں لیکن تجارتی خسارے پر کیسے قابو پانا ہے؟ حکمران تعین نہیں کرسکے حالات کاتقاضا ہے کہ نتیجہ خیز طریقہ کاروضع کیاجائے ،کیا ہمارے لیے یہ باعثِ شرم نہیں کہ ہم سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش آج ہم سے زیادہ مستحکم معاشی بنیادوں پر کھڑا ہے ۔اُس کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر 31 ارب سے زائد جبکہ ہمارے پاس محض چارارب ڈالر ہیں اُس کی برآمدات 52 ارب جبکہ ہم 31ارب ڈالرکے قریب ہیں وہ تجارت میں ملکی کرنسی ٹکا کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم آج تک بمشکل بارٹر سسٹم تک پہنچ سکے ہیں اور لکیر کے فقیر کی طرح قرض لیکر امورِ مملکت چلانے پر تکیہ ہے۔ اگرہم نے ادائیگیوں میں ناکامی سے بچنا ہے تو فوری طورپر برآمدات میں اضافہ ،غیر ضروری درآمدات میں کمی،بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زراور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کوفروغ دینا ہوگامگررواں برس برآمدات میں بارہ فیصد،ترسیلاتِ زر میں تیرہ جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کی نسبت 23 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے ایسے حالات میں بہتری کا گمان دانشمندی نہیں ۔
پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ روس،وسطی ایشیائی ریاستوں ،افغانستان جیسے ممالک سمیت چین کے مغربی علاقوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے والا ہے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں بہتر منصوبہ بندی سے کام لینا ہوگالیکن عالمی اشاریے مثبت نہیںجن میں ہماری کوتاہیوں کا بڑاعمل دخل ہے۔ فوڈ اینڈایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے غذائی قلت سے خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے8.5فیصدلوگوں کو رواں برس ستمبر اور دسمبر میں شدید غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سیاسی انتشار کے ساتھ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج ملنے میں تاخیرہے ۔علاوہ ازیں آئندہ تین برسوں کے دوران پاکستان کو 77.5ارب ڈالرکی خطیررقم قرضوں کی مد میں ادا کرنی ہے۔ اگر معاشی ،سیاسی اور سرحدی علاقوں میں سیکورٹی صورتحال بددستور خراب رہی تو کوئلے اور خوراک جیسی برآمدات میںکمی کا الگ خطرہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود دس ارب ڈالر تو ہر سال خوراک کی درآمدات پرخرچ کر دیتے ہیں۔ یہ تیل کے بعد سب سے بڑادرآمدی خرچ ہے جو زرعی ملک کے لیے نہایت شرمناک ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات سے اب بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہیں بلکہ ایسی قیاس آرائیاں تقویت حاصل کررہی ہیں کہ ترجیحات میں معیشت ثانوی جبکہ سیاسی کامیابیاں اولیں ترجیح ہیں اسی بناپر معاشی حالت مزید بگڑنے کا امکان رَد کرناممکن نہیں۔
حکومتی اخرجات بے ہنگم ہو چکے ہیں ۔ وزیرِ اعظم ،وزیرِ خارجہ سمیت مولانا فضل الرحمٰن تک خصوصی طیارے پر سفر کرنا پسندکرتے ہیں، ایسے اطوارقرضوں کی دلدل میں پھنسے ملک کو مزید دھنسانے کا باعث ہیں ۔حکومتی اشرافیہ سادگی کلچر اپنا کر اربوں کی بچت کر سکتی ہے۔ پاکستان ،ایران اور ترکی میں بذریعہ ریل تجارت جاری ہے۔ رواں برس دوجون کو روس ،ایران،اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ تجارت کا معاہدہ بھی ہو چکا،یہ کسی حدتک معاشی بہتری کی طرف پیش قدمی ہے مگر پابندیوں اور ڈالر کے ڈسے ایران سے سرحدی تجارت کا طریقہ کارمربوط بنانے اورچین سے مہنگے قرض لینے میں احتیاط بھی ضروری ہے ۔اِس وقت غیرملکی سگریٹ کا48فیصد اسمگل ہوکر آتا ہے جس سے ٹیکس یا ڈیوٹی کی مد میں ملک کابھلاہونے کی بجائے کئی سوارب کا نقصان ہوتاہے۔ اِس طرف توجہ دینے کے ساتھ سرحدی اسمگلنگ پر پانے سے اربوں روپے کا ریونیوحاصل کیا جا سکتاہے ۔علاوہ ازیں ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں جو موجودہ پالیسیوں کی ناکامی کی دلیل ہیں۔ توانائی کی قلت پر قابو پاکر ملکی صنعت کا پہیہ رواں کیاجائے تو برآمدات میں کافی حدتک اضافہ ممکن ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ ترکیہ اورچین پاکستان کے دوست ممالک ہیں لیکن اُن کی ایسی کمپنیاں جن کی دونمبری ثابت ہوچکی اُن پرپا بندی لگاکر ملکی وسائل بچائے جا سکتے ہیں۔ نیزمقامی مصنوعات پر صارفین کا اعتماد بحال کرنے نیز پُرتعیش اشیا کی درآمد ختم کرنے سے بھی درآمدات پر اُٹھنے والے اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں ۔ہرمیدان میں خود کفالت کی پالیسی سے بھی قرضوں کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔