... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس میں سے ایک شخص آلودہ کھانا کھانے کے باعث بیمار پڑجاتا ہے جبکہ اسی آلودہ کھانے کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ بیس ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس طرح سالانہ (33 )تینتیس ملین افراد صحت مند زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق آلودہ خوراک میں خطرناک قسم کے بیکٹیریا،وائرس اور کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جن سے عام بیماریوں ڈائیریا (اسہال) سے لے کر کینسر تک کے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ان بیماریوں میں اسہال کی بیماری سب سے زیادہ عام ہے جس کی بنیادی وجہ آلودہ کھانے کا استعمال ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں ہر سال 550 ملین افراد بیمار اور2 لاکھ 30ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا 40فیصد5 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے،سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزارکم عمر بچے آلودہ کھانے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پیداواری اور طبی اخراجات میں ہر سال 110 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
انسانی صحت کے لئے معیاری خوراک اور صاف پانی کس قدر ضروری ہیں،اس بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے ہر سال 7جون کو ورلڈ سیفٹی فوڈ ڈے منایا جاتا ہے۔اس سال اس دن کا موضوع ہے ”معیاری خوراک زندگی بچاتی ہے ”اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں غیر معیاری خوراک اورآلودہ پانی کے باعث انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات اورپیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں سے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا ہے ۔دنیا بھر میں پہلا فوڈ سیفٹی ڈے 7 جون 2019 کو منایا گیا تھاجس کا اہتمام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
بدقسمتی موجودہ دور میں کھانے پینے کی ہراشیاء میں ملاوٹ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ۔اس گھناونے کاروبار میں ملوث بے حس افراددوسروں کی جان کے بدلے پیسہ کمانے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے ۔انسانی جان کے بدلے منافع کمانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر وہ ملاوٹ کرکے غیر معیاری اور مضرصحت کھانے پینے کی اشیاء دوسروں کو بیچ رہے ہیں تواس طرح وہ خود اپنی نسلوں کوبھی برباد کررہے ہیں کیونکہ وہ خود اور ان کے اہل خانہ بھی کسی دوسرے بے رحم ملاوٹ مافیا کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔غیر معیاری اشیائے خوردونوش کا کاروبار کرنے والے ہر شخص کو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیئے کہ اگر وہ دوسروں کوکھانے پینے کی مضر صحت چیز بیچ رہا ہے تو بدلے میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کے لئے مضر صحت اشیاء خرید بھی رہا ہے مثال کے طور پر اگرایک گوالا غیر معیاری اورملاوٹ شدہ دودھ بیچ کر کمائی کررہا ہے تو اسی کمائی سے کس طرح اپنے بیوی بچوں کے لئے خالص خوراک دوسروں سے خریدنے کی توقع کرسکتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو کھانے پینے کی مضر صحت اشیاء بیچنے والے صرف اپنے گاہکوں کو ہی موت کے منہ میں نہیں دھکیل رہے بلکہ ان کے بیوی بچے بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔اس لئے اگر ہم آنے والی نسلوں کی زندگی بچانا چاہتے ہیں تومعاشرے سے ملاوٹ،غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کی خریدوفروخت پر مبنی ہر قسم کے کاروبارکو بند کرنے میں پہل کرنا ہوگی ۔جب ہوٹل مالکان،گوالا،پرچون فروش،قصائی،سبزی و پھل فروش اور اشیائے خوردونوش بیچنے والے تمام افراد اپنی اپنی سطح پر ملاوٹ اور آلودہ خوراک کو بیچنا بند کردیں گے تب وہ اپنے بچوں کی زندگیوں کومحفوظ بنا سکیں گے۔
اکثرآئے روز اخبارات ومیڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ مضر صحت کھانا کھانے سے بچے ہلاک ہوگئے لیکن منافع خور کتنے سنگدل ہوتے ہیں جوان واقعات کی پروا کئے بغیرملاوٹ کے نت نئے طریقے استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔متعلقہ محکموںکی جانب سے ملاوٹ مافیا کے خلاف سخت کارروائیوں کے باوجودمارکیٹوں اوربازاروںمعیاری اشیائے خوردونوش دستیاب نہیں ہیں ۔دودھ میں یوریا کھاد،مرچوں میں بھوسے،مکئی اور چوکر ، مردہ جانوروں کے خون سے بنا کیچ اپ ، مردہ مرغیوں،بکروں اور گائے کا گوشت، کیمیکل ملے ڈرنکس،ملاوٹ شدہ آٹا،گھی،دالیںاورچینی کھلے عام بیچی جارہی ہے حتیٰ کہ اب تومضر صحت گلے سڑے پھل اور سبزیاں بھی مہنگے داموںفروخت کی جارہی ہیں۔حکومت کوچاہیئے کہ غیر معیاری،ملاوٹ شدہ اور مضر صحت اشیائے خوردونوش بیچنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کو معیاری خوراک مل رہی ہے کیونکہ معیاری خوراک زندگی بچاتی ہے۔
٭٭٭