... loading ...
رفیق پٹیل
وفا قی وزیر دفاع خو اجہ آصف نے اپنے ایک سے زائد انٹرویو میں اشارہ کیا ہے کہ بانی تحریک انصاف پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جس میں ریاست سے بغاوت کی دفعات شامل ہونگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کسی بھی ناکام بغاوت کا جو انجام ہوتا ہے وہی انجام بانی پی ٹی آئی کا ہوگا ۔ان کی اس گفتگو سے سزائے موت کا گہرا تاثر اُبھر تا ہے۔ خود بانی تحریک انصاف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بھٹو دوئم بنانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہیں پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بھٹو اور عمران خان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا، اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر ان پر 9مئی کو ان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرکے فوجی عدالت یادیگر کسی عدالت سے سزاہوجاتی ہے اور اس الزام کی نوعیت کسی دشمن قوت سے ساز باز کی بابت ہوتی ہے تو انہیں پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میںبعض ٹی وی شومیں فیاض الحسن چوہان کا نام ممکنہ وعدہ معاف گواہ کے طور پر لیا جا رہاہے۔ خصوصاً ان کے سیاسی مخالفین اس کوشش میں ہونگے کہ انہیںکسی طرح میدان سے مکمل باہر کردیا جائے۔
اس وقت عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے آٹھ سے دس ہزار کارکن جیلوں میں بند ہیں بے شمار عہدیدار بھی 9 اپریل کے توڑ پھوڑاور،جلائو گھیرائو والے واقعات کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں جس میں خواتین بھی شامل ہیں جبکہ روز انہ جیل سے باہر آنے والے تحریک انصاف کے عہدیداریہ بیان دے کر تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں کہ وہ ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنا کام جاری رکھنے کے لیے عہدیداروں اور کارکنوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اگر اس کے عہدیدار ار اور کارکن جیلوں میں ہوں یاپارٹی سے علیحدہ ہوجائیں تو وہ عوامی حمایت کے باوجود غیر فعاّل ہو جاتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف اسی عتاب کا شکار ہے، اس کی حیثیت ایک ایسی غیر اعلانیہ کا لعدم جماعت کی ہے جس کا تن سر سے جدا ہوچکا ہے ۔وہ انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت سے محروم ہے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کو تتّر بتّرکرنے اسے مکمل منتشر کرنے کی یہ بڑی کارروائی ہے۔ اس بات کا امکان غالب ہے کہ تحریک انصاف کو ملک دشمن جماعت قرار دے کر جلد ہی پابندی لگادی جائے۔ پابندی لگا نے کی صورت میںتحریک انصاف کسی دوسری جماعت کے نام سے کام کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگی ۔اگر پابندی نہ بھی لگائی گئی تو بھی اس وقت پی ٹی آئی مکمل مفلوج ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھیوں اور ان کی جماعت کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جیلوں میں خواتین سے ناروا سلوک اور مرد کارکنوں سے غیر انسانی سلوک کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ نئے مرحلے میں جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، اس میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممکنہ امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ ا نتخابی میدان میں ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کو پنجاب میں موقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل چکا ہے۔ ان حالات میں آصف زرداری نے خود کو پاکستان کی سیاست کا بادشاہ ثابت کیا ہے۔9مئی کے واقعات سے دو روز قبل7مئی کو انہوں نے ایک بیان جاری کیا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ ” ایک شخص اداروں کو بدنام کرنے کی ہر حد عبور کر چکا ہے جسے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش نے ایک شخص کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے، بس بہت ہوگیاغیر ملکی ایجنٹ کی گزشتہ روز کی تقریر سننے کے بعد کوئی محب وطن اس کی پیروی کرنے کا اب سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک شخص میرے آبائو اجداد،میرے بچوں اور میرے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے جس کی ہم اجازت نہیں دیں گے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ہم سب نے دفن ہونا ہے ہم ایک شخص کو اجازت نہیںدیں گے کہ وہ ہماری اقدار اور ہمارے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرے ۔میجر جنرل فیصل سمیت پاک آرمی کے مایہ ناز افسران پر الزامات دراصل اس ادارے پر حملہ ہے جس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے۔ ایک شخص جھوٹ اوردھوکے سے اپنے معصوم کارکنان کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ میں اس شخص کا زوال دیکھ رہا ہوں” ۔یہ بیان ہر جگہ شائع ہوا اور ٹی وی پر بھی نشر ہوا۔ اگر پی ٹی آئی اس بیان کے بعد محتاط ہوجاتی تو وہ سمجھوتہ کرتی، وہ جال میں پھنس چکی تھی۔ اب وہ انتخابات کے عمل میں مکمل باہر نظر آرہی ہے۔ پارٹی تنظیم کے بغیر وہ اپنے ووٹر کو باہر نہیں نکال سکتی ہے۔ اس وقت سب سے بہتر سیاست آصف زرداری کی ہے۔ وہ اپنی مفاہمت کی جادو گری سے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے ہدف کو حاصل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔اگر پنجاب اورخیبر پختون خواہ کے طاقتور سیاسی گھرانوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو پیپلز پارٹی آسانی سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی جس کا امکان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ آصف زرداری مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو بھی راضی کر سکتے ہیں۔ اس وقت جے یو آئی ،مسلم لیگ ن اور پی پی اس بات پر متفق ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو میدان سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیا جائے، جس کی وجہ سے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے جو بانی پی ٹی آئی کی ناکام بغاوت پر بہت بڑی سزا کا اشارہ دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی پنجاب کے میدان کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہتی ہے لیکن ان کے پاس پی پی جیسی مفاہمتی سیاست کی مقناطیسی صلاحیت مو جود نہیں ہے ۔پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھرپور اکثریت حاصل کی جائے ۔پی پی کے چیئرمین آصف زرداری نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں ،اگر نواز شریف نے کوئی بڑی رکاوٹ نہ ڈالی تو بلاول بھٹو کے لیے وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرنا آسان ہوگا۔پی ٹی آئی کو ہر صورت انتخابی عمل سے باہر رکھا جا ئے گا۔ عمران خان کی نااہلی اور انہیں سیاسی منظر سے باہر رکھنا حکومت کی منصوبہ بندی کا حصہ نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعت کے پاس اگر انتخابی مہم چلانے والی افرادی قوت گرفتاریو ں اور چھاپوں کے خوف سے میدان سے باہر ہوگی تو وہ رائے دہندگان کو پولنگ بوتھ تک نہ لا سکے گی۔ ان کے پاس پولنگ ایجنٹوں کی کمی ہوگی ۔حکومت کی انتظامی مشینری کے سامنے وہ بے بس ہونگے۔ اکھاڑے میں ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیے جائیں گے جبکہ ان کے مقابل پہلوان کو ہر طرح کی آزادی ہوگی۔ اس وقت حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بجٹ ہے جسے جلد ہی پیش کر دیا جائے گا۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے کوئی مدد نہیں مل سکی ہے۔ خود وزیر اعظم نے رابطہ کرکے آئی ایم سے مدد مانگی ہے، جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور آئین پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
٭٭٭