... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماتحت اور بڑے آفیسر کا رشتہ بھی کیسا عجیب ہوتا ہے ماتحت سارادن کام کرتے ہیں لیکن جب کارکردگی لکھی جاتی ہے تو کچھ نہ کرنے کے باوجود بڑے آفیسر کا نام لکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔ یہ مجبوری اچھی اے سی آر لکھوانے کے ساتھ اچھی تعیناتی حاصل کرنا ہوتی ہے اب تو کچھ عرصہ سے یہ روایت پختہ ہونے لگی ہے کہ کوئی تفتیشی یا ایس ایچ او اگر کسی ملزم کو پکڑ لے تو پریس ریلیزمیں لکھا جاتا ہے ڈی پی او کی ہدایت پر اور ڈی ایس پی کی سربراہی میں پولیس نے مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کر تے ہوئے خوف ودہشت کی علامت فلاں ابنِ فلاں کو حراست میں لے لیاہے۔ ملزم کا نام لکھتے ہوئے ناکردہ گناہوں کی بھی لمبی چوڑی فہرست بتائی جاتی ہے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ گرفتار ملزم کوئی بدنامِ زمانہ ایسا شخص ہے جو نہ صرف عادی مجرم ہے بلکہ علاقہ میں بدامنی کی اصل وجہ ہے جس کی گرفتاری پرپوراعلاقہ امن کاگہوارہ بن جائے گامگر جس تھانہ میں گرفتاری ہوتی ہے وہاں کے رہائشی لوگ بھی محکمانہ پریس ریلیزپڑھ کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ گرفتار بندہ کون ہے اور اِس نے کیا کیا ہے؟
پریس ریلیز کے بعد تفتیش کیا ہوئی اور ثابت کیا ہوا؟انجام کے بارے کبھی کچھ نہیں بتایا جاتااسی لیے پولیس کے کہے پر عوام کو یقین کرنا پڑتا ہے چند دنوں بعد گرفتارملزم کچھ ثابت نہ ہونے یا پھر پولیس کوکچھ دے دلا کر ضمانت کرالیتاہے مجھے تو خدشہ ہے کہ کبھی کسی ڈی پی او کی کارکردگی بہتر ثابت کرنے کے لیے ماتحت اہلکاریہ نہ لکھنا شروع کردیں کہ گرفتارہونے والا شخص اِتنا سفاک اور سنگ دل ہے کہ معصوم بچوں سے ٹافیاں اور قلفیاں تک چھین کرنہ صرف فرار ہونے کاماہرتھا بلکہ مالِ مسروقہ بھی اکیلا ہی کھاکر ہضم کرجاتا تھا پولیس کی کئی ماہ کی شب وروز کی محنتیں رنگ لائیں اور بمشکل اِس چھلاوے کو گرفتار کیاجاسکااب معصوم بچے سرِراہ بھی ٹافیاں اور قلفیاں بلا جھجک کھا سکیں گے سید اسد مظفر کی تعیناتی کے دوران اِس قسم کے بے مقصد اور فضول کام کارکردگی کے نام پر بیان کرنے کے ریکارڈ بنائے گئے ۔
سید اسد مظفر سے دو یا تین بار میری گفتگو ہوئی ایک بار میں نے اُن کی درج ہونے والے ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے کی طرف توجہ مبذول کرائی تو انھوں نے پنجابی میں کہا کہ ،جھوٹا پرچہ ہوگیااے تے مُن کی ہویاایہداوی کوئی حل کڈھ لینے آں۔چند دن بعد دوبارہ بات ہوئی تو فرمانے لگے پولیس کا کام پرچے دینا ہے جبکہ انصاف کرنا عدالتوں کی ذمہ داری ہے، ہم تو اپنا کام کررہے ہیں لیکن عدالتیں ذمہ داریاں ادا نہیں کررہیںپھر بھی کچھ دن دیں کوئی حل تلاش کرتے ہیں۔ آخری بار تین چاربار کال کرنے کے بعدبات ہوئی تو اختصار سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کربات ختم کردی کہ میرا تو تبادلہ ہونے والا ہے۔ میرے ساتھ ہی کام کرنے والے ایک بڑے ہی معصوم سے ساتھی نے ایک دن مجھے یہ بتا کرحیران کر دیا کہ ڈی پی او سے ایک مسئلہ کے بارے میں اُنھوں نے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ نہ صرف رابطہ کرنے پر خفا ہوئے بلکہ پوچھنے لگے کہ فون نمبر کہاں سے لیا ہے؟ مگر اُن کے ماتحت شب وروز یہی گردان کرتے رہے کہ وہ ایک دبنگ ،تجربہ کار اور فرض شناس آفیسر ہیں جبکہ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ خوبیاں کیسے تلاش کی جاتی رہیں یا کون ایسی خوبیاں دیکھنے پر مامورتھا؟ گجرات تعیناتی کے دوران تو موصوف نے عہدے کی زمہ داریوں کے علاوہ ہی زیادہ تر کام کیے ۔
تبادلے کے بعداکثر رازوں سے پردہ اُٹھتا ہے آج جب سید اسد مظفر گجرات چھوڑ کر کسی نئی تعیناتی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں تووہ اپنی کارکردگی بارے نجی محافل میں حکومتی جماعتوں کے علاوہ کسی اور کاجائز کام بھی نہ کرنے کو اپنا کارنامہ جتاتے اور کسی اپوزیشن رہنما کاٹیلی فون تک نہ سننے کواپنی جرات مندی قرار دیتے ہیں اِس کے باوجود ابھی تک مالی لحاظ سے آسودہ کرنے والی کوئی تعیناتی حاصل کرنے میں ہنوز ناکام ہیں گجرات میں بھی دورانِ تعیناتی انھوں نے تھانہ جات میں زیادہ تر ایسے چہروں کو ایس ایچ اولگاکر کام کا موقع دیاجن کی واحد خوبی ہر خاص و عام کی جیبیں ہلکی کرنا ہے ۔ایس ایچ اولگنے کے متمنی ایسے چہرے اکثر شام کو گھراپنے آفیسر جاکر بھی من کی مراد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے چند ماہ پیشتر ایک نوجوان ایس ایچ او نے سفارش پر ایک گاڑی کاپرچہ دیتے ہوئے فرمائش کی کہ خود بھی کھائیں اور مجھے بھی کھلائیں مل جل کر کام کرنا اچھی بات ہے ایس ایچ او کو سفارشی پرچہ دینے کے بعدجب پتہ چلا کہ پرچہ کرانے والے نے مدعی سے پیسے لے کر خود رکھ لیے ہیں تو وہ پیسے ملنے تک گاڑی دینے سے انکار کر دیا ۔ ایسے بدنام چہرے اکثر سید اسد مظفر کے اردگرد گھومتے من کی مراد پاتے رہے ۔
جس نے جرم کیا ہوتا ہے اُس کے خلاف کاروائی بنتی ہے مگر سید اسد مظفر نے اپنی تعیناتی کے دوران حکمران جماعتوں کے سیاستدانوں کی ایماپر کئی ایک تھانہ جات میں ایسے پرچے درج کرنے کے احکامات صادر کیے جن میں بے گناہ اورشریف سیاسی لوگوں کو ملوث کیا گیا ایس ایچ اوز کویہاں تک ہدایت کی کہ بندے کو تھانے بلاکر بٹھا لیں کچھ دیر تک پرچے کے لیے درخواست پہنچ جائے گی اِس دوران پینسٹھ یا ستر سالہ بزرگ کی بھی کوئی حیا یا شرم نہ کی گئی جلالپورجٹاں کے ایک تھانے میں ایک ضعیف العمرشخص کوعیدکے ایام میں جیل بھیج دیا گیا حالانکہ اُس بزرگ کا بیٹا چیختا چلاتا رہا کہ اگرجھوٹا پرچہ دینا مجبوری ہے تو میرے والد کی بجائے مجھ پر دے لیں لیکن ایس ایچ نے جواب دیا کہ یہ ڈی پی او کا حکم ہے یا تو فلاں حکومتی جماعت میں شامل ہوجائو وگرنہ جیل جانا ہوگا جماعت بدلنے سے انکار پر اُس عمر رسیدہ شخص کو جیل بھیج دیا گیا اب مجھ ایسا کم فہم و دانش یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایسی حرکات کوبھلا کارکردگی کوئی کیسے لکھ سکتاہے ؟ صاحبان؟ فہم و دانش اِس حوالے سے اپنی صائب رائے سے نوازیں۔
سید بھی ہواور سفاک ،بے رحم اور سنگ دل بھی،یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی لیکن سید اسد مظفر نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اُن کے دل میں نہ تو کسی ماتحت کے لیے رحم کا جذبہ ہے نہ ہی کوئی سائل کسی نرمی و شفقت کا مستحق ہوتا ہے البتہ اتنے بہادر اور سخی تھے کہ کوئی بھی مناسب دام کے عوض اہلیت وصلاحیت نہ ہونے کے باوجود ایس ایچ او جیسی تعیناتی لینے میں کامیاب ہوجاتا اسی طرح صاحبِ ثروت سائلین کے لیے بھی من کی مراد حاصل کرنا کافی سہل رہا نیز کوئی بھی بااختیار کسی کو پولیس کے زریعے دبوچ سکتا تھا تھانہ رحمانیہ کے ایس ایچ او نے ڈی پی او اسد مظفر کو خوش کرنے کے لیے چوری کے الزام میں گرفتار ایک ملزم پر تشدد کی انتہا کردی جب ملزم کی حالت غیر ہوگئی تو بڑے آرام سے اُسے ایک جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا گیاصاحبِ ثروت سائلین کے لیے سید اسد مظفر اپنی تعیناتی کے دوران اِتنے مہربان ثابت ہو تے رہے کہ بے گناہ کو گناہ گار اور بے گناہ کو مجرم بنا کر پیش کرنے میں اُنھوں نے خاصی مہارت دکھائی لیکن جو صرف سفارش پراکتفا کرتے وہ
چاہے انھیں گجرات لانے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔ بے رُخی سے پیش آنے میں کوئی عار تصور نہ کرتے اتنی خوبیوں کے باوجود گجرات سے اُن کے جلدی تبادلے پرکئی لوگ حیران ہیں۔خیر تبادلے ملازمت کا حصہ ہیں ۔یہ دنیا عارضی اور فانی ہے ممکن ہے یہ کہہ کر وہ اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کرگجرات سے روانہ ہو گئے ہوں۔نئے ڈی پی او احمد نوازشاہ بھی سادات خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ابھی اُن کے بارے ابھی زیادہ معلوم نہیں ۔خیریہ کہانی پھر سہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔