... loading ...
ریاض احمدچودھری
علامہ اقبال نے اپنے افکار اور شاعری کے ذریعے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فیصلہ کیا جب وہ اپنی شناخت کی تلاش میں غلامی کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ساتھ اس انداز میں مسلمانوں کو بیدار کیا جس کی مدد سے مسلمانان بر صغیر کو مایوسی کے احساس سے بیدار ہونے اور ناممکنات کو ممکن بنانے میں بھر پور رہنمائی حاصل ہوئی۔
قلم کاروان اسلام آبادکی عالمی مجلس کی ادبی نشست میں”ہزارموجوں کی ہوکشاکش؛مگریہ دریاسے پارہوگا”کے عنوان پرمحترمہ شہنازظہیرنے خطاب میںکہاکہ علامہ کے سینے میں امت کا درد تھا جس کی وجہ دورزوال میں مسلمانوں کی فکری و عملی پسماندگی تھی۔ علامہ کے نزدیک امت کی بنیادرنگ ،علاقے اورنسل کی بجائے روحانیت ہے۔ یہی روحانیت امت کوایک رسی میں پروسکتی ہے۔ علامہ نے امت کو غیرروحانی آمیزشوں سے پاک کرنے کی سعی کی۔ امت کو اس وقت موجوں کی کشاکش جیسے حالات کاسامناہے جس سے نکلنے کے لیے علامہ نے خودی و خودآگاہی کاتصورپیش کیا۔ علامہ شاعر امید ہیں۔ انسان کی اصل اس کی شخصی پہچان ہے جب کہ “مصنوعی ذہانت”کی ترقی نے انسان سے اسکی معرفت سلب کرلی ہے،ایسے میں علامہ کاکلام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کل انسانیت کے لیے کارگرہے۔ مسلمانوں نے اپناشاندارماضی بھلا دیا ہے اوراہل مغرب کی پیروی میں درجہ بدرجہ زوال کاشکارہوتے چلے جارہے ہیں۔ بقول کسے اقبال کی نظم “مسجدقرطبہ” اردوکا تاج محل ہے۔
مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول ۖ علامہ اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اقبال نے جس طرح کی ریاست کا خواب دیکھا تھا ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ارض پاک کی صورت میں اس طرح کی ریاست نہیں ملی۔پاکستان کے بائیس کروڑ باسی یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز کی تشکیل ایسی ریاست کی صورت میں ہو جہاں مساوات،بھائی چارے اور عدل وانصاف کی حکمرانی ہو۔جہاں ملک میں بسنے والے ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔جہاں دین کے نام پر بے گناہ لوگوں کا خون نہ بہایا جائے۔جہاں شدت پسند عناصر تکفیر و قتل کے فتوے نہ بانٹتے پھریں۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی، جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دعا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبال نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔تاریخ پرنظررکھنے والے اقبال کی نوبل پرائز سے محرومی کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اقبال کے پیغام خودی کو مغرب نے جہاد پر آمادہ کرنے سے تعبیر کیا اور یہی اختلاف اقبال کی بجائے، ان کے ہم عصر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کا جواز ٹھہرا۔اقبال پر تنقید کرنے والے مغربی دانشور یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا یورپ کے علم وہنر کو سراہا اور مسلمانوں کو ترقی کے اس راستے پر چلنے کی تلقین کی۔ علامہ اقبال عوامی شاعر تھے انہوں نے مسلمانوں کی بیداری کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ عالمی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لئے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کئے، ان کی کرنیں آج بھی بآسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں علامہ اقبال کے کلام اور فکر کے پیغام پر عمل کرنے کے لئے رنگ، نسل، فرقے کی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک ملت کے تصور کو عام کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر بنائیں۔ اسلام کی حقیقی تصویر علامہ اقبال کے کلام میں ملتی ہے۔
اقبال نے غلام قوم کو انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نکال کر اقوام عالم میں سرفراز کیا۔ فکر اقبال یہ ہے کہ پوری قوم کو مثبت مقاصد کے لئے تیار کیا جائے، حالات کا مقابلے کرنے کا عزم کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک قوم بن جائیں۔ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا آج پوری دنیا میں اس کی تکمیل ہورہی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کو ہتھیار بنایا اور عالمی طاغوت کے خلاف نوجوانوں کو سینہ سپر کردیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی شاعری سے نوجوانوں کو آشناکیا جائے۔اقبال کی نگاہیں دور رس تھیں۔ آج کے حالات میں بھی ہمیں افکار اقبال پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔