... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،اپنے اختتام کی طرف گامزن مالی سال 2022ـ23ء کے دوران پاکستانیوں کی سالانہ فی کس آمدنی میں 198ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1ہزار 568ڈالر رہی۔ گزشتہ سال پاکستانیوں کی فی کس سالانہ آمدنی 1ہزار766ڈالر تھی۔ اس لحاظ سے رواں سال فی کس آمدنی میں 11.38فیصد کی کمی ہوئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملکی معیشت کے مجموعی حجم میں 33.4ارب ڈالر کی کمی ریکارڈ ہوئی۔ سال 2022ـ23ء میں معیشت کا حجم 375ارب ڈالر سے کم ہو کر 341.6ارب ڈالر پر آ گیا۔یہ تو ایک خبر، آپ سب نے نوٹ کیا ہوگا کہ گھرکا راشن لانے کے لئے پہلے جو بجٹ مختص ہوتا تھا وہ اب کافی بڑھ چکا ہوگا، اسی طرح دیگر اخراجات بھی ازخود بڑھ گئے ہوں گے، لیکن تنخواہیں وہی کی وہی۔ جب تک آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگا، اس وقت تک آپ کو مہنگائی محسوس ہوتی رہے گی۔اب دوسری خبر سن لیں، حکومت اس قوم پر عجیب پابندی لگانے کی تیاری کررہی ہے۔حکومت نے بجٹ 2023ـ24ء میں ریٹیل آؤٹ لیٹس اور فوڈ ریٹیل آؤٹ لیٹس/ریسٹورنٹس پر ایک خاص حد(مثال کے طور پر 5ہزار اور 10ہزار روپے) سے زیادہ نقد لین دین اور کیش ٹرانزیکشنز پر پابندی عائد کرنے کی تجویز پر غور شروع کر دیا۔ تجویز منظور ہونے کی صورت میں یہ پابندی یکم جولائی 2023سے ہی لاگو ہو جائے گی۔رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام اس تجویز پر غور و خوض کر رہے ہیں کہ آیا یہ قابل عمل ہے یا نہیں اور آیا اس پابندی کے لاگو ہونے سے کارڈز اور دیگر ذرائع سے ادائیگی کو فروغ ملے گا؟رپورٹ کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ یہ تجویز نقد لین دین کرنے والے خرید و فروخت کنندگان کو ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز اور دیگر الیکٹرانک ذرائع سے ادائیگی کرنے پر مجبور کر دے گی، جس سے ٹیکس چوری میں کمی واقع ہو گی۔تاہم اگر یہ پابندی لاگو ہوتی ہے تو تمام ریستورانوں اور دیگر متعلقہ جگہوں پر پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) مشینیں نصب کرنی پڑیں گی، جو کارڈز اور دیگر ذرائع سے ادائیگی میں استعمال ہوتی ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف ٹیکس چوری اور رقوم کی غیرقانونی منتقلی کی روک تھام ہو گی بلکہ بینکنگ سروسز کو بھی فروغ ملے گا۔
حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود عوام کی فلاح کے لئے کوئی ایک کام نہیں کرسکی، الٹا عوام کے کپڑے اتارنے پر تلی ہوئی ہے۔ان کے وزیروں سے اگر سوال کیا جائے۔ حضور، آٹا بہت مہنگا ہو گیا ہے ؟ آگے سے جواب ملتا ہے۔ عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے۔۔ان کو یاد دلایا جائے حضور ڈالر کی ٹرپل سینچری ہوگئی ہے۔انڈیا میں ایک ڈالر تراسی روپے کااور افغانستان میں ستاسی روپے کا ہے لیکن پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں تین سو نو روپے کا ہوگیا ہے تو جواب ملتا ہے۔عمران خان ملک دشمن ہے ۔۔جب حکومت کو یاد دلایا جائے کہ حضور جب عالمی منڈی میں تیل مہنگا تھا تب عمران خان کی حکومت میں ڈیڑھ سو روپے لیٹر مل رہا تھا، اب عمران خان کی حکومت کے دوران عالمی منڈی میں تیل کے جو ریٹس تھے اس کے آدھے ہوچکے ہیں لیکن پاکستان میں تیل دوسوستر کا مل رہا ہے تو جواب دیا جاتا ہے۔PTIدہشت گرد جماعت ہے۔۔ جب حکومتی کرتادھرتاؤں کو بتایاجاتا ہے کہ مہنگائی پچاس فیصد سے تجاوز کرگئی ہے،غریب عوام کا گزارہ بہت مشکل ہوگیا ہے تو آگے سے کہتے ہیں۔زمان پاک میں دہشت گرد چھپے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔حضور الیکشن کب ہوں گے ؟ تو یہ کہتے ہیں، عدالت پہلے فل کورٹ بینچ بنائے۔۔جب انہیں کہاجاتا ہے کہ، حضور بجلی سستی کردیں، آدھی تنخواہ تو بجلی کے بلوں میں چلی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے۔ہم پی ٹی آئی کو ختم کرکے دم لیں گے۔جب حکومت کوکہاجاتا ہے کہ حضور نوجوان طبقہ ملکی حالات کی وجہ سے شدید مایوسی کا شکار ہے ۔۔جواب ملتا ہے۔۔ پی ٹی آئی پر پابندی زیرغور ہے۔ جب وزیروں سے پوچھا جاتا ہے کہ حضور والا، جان بچانے والی ادویات تک انتہائی مہنگی کیوں کردیں؟ جواب ملتا ہے۔ عمران خان کو بھاگنے نہیں دیں گے ۔جب انہیں کہاجاتا ہے کہ حضور، آئین اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملک بنانا ریپبلک بنتا جا رہا ہے ۔تو یہ لوگ فرماتے ہیں۔عمران خان کو ہر صورت گرفتار کریں گے۔
ایک طرف حکومت کا حال آپ نے دیکھا، خود عوام کس حال میں اور کیا کررہے ہیں،ذرا اس پر بھی دھیان دیجیے۔دو پروفیسر آپس میں بات کررہے تھے۔ دونوں کا خیال تھا کہ ان کے بیٹے دنیا کے احمق اور گاؤدی ترین انسان ہیں۔ جب دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے رہے تو وہ اپنے بیٹوں کو عملی طور پر آزمانے پر آگئے۔ طے یہ پایا کہ دونوں اپنے بیٹوں کو بلا کر کچھ نہایت ہی احمقانہ کام کرنے کو کہیں گے، اگر انہوں نے کرلیا تو فیصلہ ہوجائے گا کہ کون واقعی احمق ہے اور کون نہیں؟ایک نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ دوڑ کے جاؤ اور دیکھو کہ میں اپنے دفتر میں ہوں یا نہیں؟ اگر میں وہیں پر ہوں تو مجھے کہنا کہ گھر آئیں، کھانا تیار ہے۔ لڑکے نے باپ کا حکم سنا اور یہ جا وہ جا۔ وہاں سے دوڑتا باہر نکل گیا۔ باپ نے کہا دیکھا، ذرا بھی نہیں سوچا اور نکل گیا۔ دوسرے نے کہا، ابھی ٹھہرو! مجھے اپنے سپوت کو بلانے دو۔ اس کی عقلمندی کا مظاہرہ بھی دیکھ لینا پھر فیصلہ ہوگا ۔اس نے اپنے بیٹے کو آواز دے کر بلایا۔ اور اس کو روپے روپے کے دو سکے دیے اور کہا کہ ایک روپے سے کار خریدنا اور دوسرے سے ٹی وی۔ لڑکے نے باپ کی بات سنی، روپے پکڑے اور چلا گیا۔ اس کو بھیج کر دوسرے پروفیسر نے پہلے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اب تمہارا کیا خیال ہے؟ کون زیادہ احمق ہے؟پہلے نے کہا۔ سچ کہتے ہو۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کے ہیں ۔اور ادھر باہر گلی میں۔پہلا لڑکا دوسرے کو بتارہا تھا کہ اس کا باپ بھی کتنا نکما ہے، ابھی تک پچھلی صدی میں جی رہا ہے، مجھے دفتر میں اپنا پتہ کرنے بھیجا ہے۔ یہ کام تو وہ فون کر کے بھی کرسکتا تھا۔دوسرا لڑکا کہنے لگا۔ میرے باپ کو بھی دیکھو۔ مجھے دو روپے دیکر کار اور ٹی وی خریدنے بھیجا ہے، یہ تو انہوں نے بتایا ہی نہیں کہ کس روپے سے کار خریدنی ہے اور کس سے ٹی وی۔بڑے پروفیسر بنے پھرتے ہیں۔ کلاس میں کیا پڑھاتے ہوں گے؟ تبھی تو ملک کا یہ حال ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک دوسرے کے رزق پر نظر نہ رکھو کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے بہتر کوئی تقسیم کرنے والا نہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭