... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے واضح کیا ہے بھارتی ایجنسیاں حریت پسند کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے کیلئے انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا رہی ہیں لیکن وہ اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور کشمیری عوام اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی شناخت، انفرادیت اور اجتماعیت کے علاوہ تاریخی اہمیت کو مسخ کیا جا رہا ہے جو بھارتی آئین اور جمہوری اصولوں کے عین منافی ہے۔ بی جے پی اقتدار میں آنے کے نتیجے میں ہمیں 5 اگست 2019ء کا بدترین دن دیکھنے کو ملا۔
دوسری جانب مودی کی قیادت میں فسطائی بھارتی حکومت غیر قانونی طور پراپنے زیر قبضہ جموںو کشمیر اور بھارت میں اختلاف رائے کو دبانے کے لئے بغاوت کے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ جب سے بھارت میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے کشمیری حریت پسند رہنمائوں کے خلاف بغاوت کے قانون کے تحت مقدمات میں تیزی آئی ہے۔ جموں میں ایک بھارتی عدالت نے آزاد کشمیر میں مقیم مقبوضہ کشمیر کے 23 نوجوانوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ہیں۔ بھارتی تحقیقات ادارے این آئی اے کی جموں میں قائم خصوصی عدالت نے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والے 23 نوجوانوں نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔قانونی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 2014 اور 2020 کے درمیان بغاوت کے مقدمات کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج اور سیکیورٹی فورسز گزشتہ 30 سال سے آزادی کی تحریک کو دبانے میں لگی ہیں۔ کشمیریوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے وہ تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جن کو عالمی قوانین کے تحت غیرانسانی اور غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تشدد کا نشانہ بننے والے 70 فیصد افراد عام شہری ہیں جنہیں کرنٹ لگا کر، لوہے کے راڈ سے مار کر اور جلانے سمیت مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مقبوضہ وادی میں قابض فوج کے مظالم پر مبنی رپورٹ “ٹارچر: انڈیا سٹیٹ انسٹرومنٹ آف کنٹرول ان انڈیا ایڈمنسٹرڈ جموں اینڈ کشمیر” میں بین الاقوامی میڈیا بھی پھٹ پڑا۔ رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سے جاری اس ظلم وستم میں شہریوں پرمختلف طریقوں سے تشدد کیا جاتا ہے جن میں عریاں حراست میں لینا، آئرن راڈ، لیدر بیلٹ اور ڈنڈوں سے مارنا، زمین پر گھسیٹنا، پانی میں غوطے دینا، کرنٹ لگانا، چھت سے لٹکانا اور جسم کو جلانا شامل ہیں۔رپورٹ میں چار سو بتیس مختلف کیسز کا جائزہ لیا گیا جن میں تین سو ایک افراد خواتین، طلباء ، سیاسی کارکن، ہیومن رائٹس کارکن اور صحافیوں سمیت عام شہری شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران تشدد اور جنسی ہراساں کرنا عام ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 432 قیدیوں پر تشدد کے واقعات پر تحقیق کی گئی، ان میں سے 40 واقعات میں قیدی جسمانی تشدد سے ہلاک ہوئے۔ 190 قیدیوں کو برہنہ کرکے تشدد کیا گیا۔ 326 افراد کو ڈنڈوں، لوہے کی راڈوں، چمڑے کے ہنٹر اور بیلٹ سے مارا پیٹا گیا، ان میں سے 169 کو رولر ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا اور واٹر بورڈنگ کا حربہ 24 قیدیوں پر آزمایا گیا۔ قیدیوں کے سروں کو پانی میں ڈبو کر تشدد کرنے کے 101 واقعات ہوئے، 231 کے جسم کے نازک حصوں پر کرنٹ لگایا گیا، 121 قیدیوں کو سر کے بل چھت سے لٹکایا گیا۔رپورٹ میں الزام ہے کہ گیارہ کشمیریوں کو طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اکیس قیدیوں کو سونے نہیں دیا گیا اور 238 کو ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تشدد کے ان انفرادی واقعات کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے بھی طریقے بنا لیے گئے جن میں پوری پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے وہاں تلاشی کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور خواتین کو ریپ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے۔ خطے میں فوج اور سکیورٹی فورسز کو خصوصی قوانین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ میں ملوث کسی فوجی اور سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ فوج اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ اخوان اور ولج ڈیفنس کمیٹیز کو بھی وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔
ہزاروں کشمیری بچے اپنے ماں باپ کا سایہ کھونے کے بعد یوں بے یارو مددگار پھر رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر پتھر دل اور بڑے سے بڑے سنگدل کا سینہ بھی ایک لمحے کو دہل جاتا ہے۔ مگر بھارتی حکمران ہیں کہ اپنی سفاکی کے نتائج دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جانے یہ ٹولہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ وگرنہ کوئی بھی معاشرہ کتنا بھی زوال پذیر کیوں نہ ہو جائے،وہاں کے سوچنے سمجھنے اور اہل شعور افراد کو یہ احساس ضرور ہوتا کہ ان کے حکمرانوں کے ہاتھوں جو لوگ رزق خاک ہو رہے ہیں وہ بھی انہی کی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے اور ہر دھڑکن میں جانے کیسی کیسی خواہشات پوشیدہ ہیں۔ یہ ناحق ماردیے جانے والے بھی کسی کے بیٹے تھے، کسی کے بھائی تھے اور کسی کی آنکھ کا نور اور دل کا قرار تھے۔ آخر ان بے کسوں کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے؟
٭٭٭