... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلقیس بانو کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بینچ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ آج جو کچھ ان کے ساتھ ہوا کل اس کا شکار کوئی اور بھی ہوسکتا ہے ؟ عدالت عظمیٰ نے تو اپنے آپ کو اس کشتی میں سوار کرکے کہا’میں یا آپ ، کوئی اور بھی ہوسکتا ہے ‘۔اس تبصرے کے دودن بعد ہی سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے وہ اندیشہ درست ثابت ہوگیا۔ جنتر منتر پر احتجاج کر نے والے انعام یافتہ پہلوانوں پر نصف شب میں پولیس نے حملہ کردیا اور اس میں بہت سارے مظاہرین زخمی ہوگئے ۔ ونیش پھوگاٹ کے بھائی دشینت کا سر پھٹ گیا۔ احتجاج کرنے والے پہلوانوں کو کہنا پڑا کہ کیا یہ دن دیکھنے کے لیے تمغے لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ تمام تمغے حکومت ہند کولوٹا دیں گے ۔بدھ کی رات بارش کی وجہ سے پلنگ اور سڑکیں گیلی ہوگئیں توپہلوان نے بسترمنگوائے ۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر سومناتھ بھارتی لے کر پہنچے تو پولیس نے نہ صرف روکا بلکہ لاٹھی چارج کے بعد کئی لوگوں کو حراست میں لے لیا۔خواتین پہلوانوں کے مطابق حملہ آور پولیس والے نشے میں تھے ۔ انہوں نے مارا پیٹا اور گالیاں بھی دیں۔ امیت شاہ کی پولیس نے یہ وحشیانہ سلوک تمغہ یافتہ پہلوانوں کے ساتھ کررہی ہے ۔ یہ اگر عام خواتین ہوتیں تو انہیں غائب کرکے جلا دیا جاتا یا تندور میں ڈال دیا جاتا۔
خاتون پہلوانوں کی جانب سے لگائے جانے والے سنگین الزامات کے باوجود اس حکومت کا اپنے رکن پارلیمان برج بھوش کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مسلمانوں پر لو جہاد کا نعرہ لگا کر ہندو خواتین کے تحفظ کا ڈھونگ کرنے والی پاکھنڈی مذہبی و سیاسی رہنماوں کو احتجاج کرنے والی پہلوان بیٹیاں دکھائی نہیں دیتیں جن کا استحصال کیا جاتا تھا۔ مسلمان اگر ان کے پروپیگنڈے کے مطابق ہندو لڑکیوں کوہاتھ لگانے سے قبل ان سے نکاح کرتے تھے مگر وہ اس کے بغیر انہیں رات کے وقت اپنے پاس بلاتا تھا۔ اس درندے کے خلاف بادلِ نا خواستہ ایف آئی آر تو داخل ہوگئی مگر ہنوز بی جے پی نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کو ایوان پارلیمان تو دور پارٹی سے بھی نہیں نکالا گیا۔ یہ لوگ نہ صرف خواتین پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کی سر پرستی کررہے ہیں بلکہ بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والوں کے بھی بہی خواہ ہیں۔ ویسے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مشیت کا شکنجہ ان کی گردن کے ارد گرد تنگ ہوتا جارہا ہے ۔ سپریم کورٹ فائل مانگ رہا ہے اور پولیس برج بھوشن پر ایف آئی آر درج کررہی ہے ۔
بلقیس بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ نے جب یہ کہا کہ بھائی جن گیارہ مجرمین کو آپ لوگوں نے رہا کیا ان کی فائل عدالت میں جمع کروا دیں تو گجرات و مرکزی دونوں سرکاروں کی سٹیّ پٹیّ گم ہوگئی۔اب تو یہ حال ہے ‘نَہ پائے رَفتَن ، نَہ جائے ماندَن’ یوں سمجھ لیں کہ ‘ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے ‘ والی حالت ہوگئی ۔ ایسے میں وہ سردار جی والی ویڈیو یاد آتی ہے ‘کہیں تو کہیں کیا؟ اور بولیں تو بولیں کیا؟’ بلقیس بانو کیس میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون کے تحت یہ اقدام کیا ہے ۔ یہ دعویٰ اگر واقعی درست ہے تو اسی سپریم کورٹ کو فائل دکھانے میں پس و پیش کیوں؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں بھی ڈگری جیسا گھپلا ہے ۔ اس لیے نہ ڈگری اور نہ فائل ، کچھ بھی نہیں دکھائیں گے ۔ وہ دن دور نہیں جب یہ لوگ عوام سے منہ چھپاتے پھریں گے ۔ لوگ ان کو تلاش کرکے جب دروازے پر دستک دیں گے تو اندر سے آواز آئے گی ‘چہرا نہیں دکھائیں گے ‘۔ موجودہ حکمرانوں کا منہ دن بہ دن کالا ہوتا جارہا ہے اور کان بتدریج بہرے ہوتے جار ہے ہیں۔ ورنہ جنتر منتر پر بیٹھے پہلوانوں کی آواز صدا بصحرا نہیں ہوتی ۔
دو مئی کو عدالت عظمیٰ بلقیس بانو معاملے میں پھر سے سماعت کرنے کی تاریخ دی تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ پہلے ریاستی حکومت نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے مرکزی حکومت کی توثیق کا سہارا لیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ جس طرح احمد آباد کے اندر ہائی کورٹ کو وہ لوگ مودی کے نام سے متاثر کردیتے ہیں اسی طرح سپریم کورٹ میں بیٹھے جج حضرات مرکزی حکومت کانام سن کر ڈر جائیں گے لیکن اس کے جواب میں عدالت نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے ریاست کے فیصلے کے ساتھ رضا مندی ظاہر کردی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاستی حکومت کو اپنا دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہاں پر دو مسائل ہیں اول تو مرکزی حکومت نے صرف رضامندی ظاہر نہیں کی بلکہ وہیں پر ان جرائم پیشہ لوگوں کو رہا کرکے ریاستی انتخاب میں اس کا فائدہ اٹھانے کا گھناونا منصوبہ ترتیب دیا۔ صوبائی حکومت کے پاس تو سرے سے دماغ موجود ہی نہیں ہے اس لیے ایک کٹھ پتلی سرکار سے دماغ کے استعمال کی توقع کرنا ہی غلط ہے ۔ ممکن ہے عدالت کو بھی اس بات کا احساس ہو مگر اپنے وقار و اقدار کا خیال اظہار میں مانع ہو گیا ہو ۔
پچھلی مرتبہ یعنی 18 اپریل کو سپریم کورٹ میں گجرات حکومت نے رہائی سے متعلق فائل دکھانے کے حکم کی مخالفت کی تھی ۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ ریاستی حکومت نے یہ رہائی صرف اور صرف سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر کی تھی ۔ اگر ایسا ہے تو فائل دکھانے میں ہچکچاہٹ بے معنی ٰ ہے مگر اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اور گجرات حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کے لئے یکم مئی تک کا وقت دے کر دھرم سنکٹ میں ڈال دیا کہ آیا وہ رہائی سے متعلق دستاویزات طلب کرنے کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے یا نہیں؟ اب دونوں حکومتیں یہ فیصلہ نہیں کرپارہی ہیں کہ یہ نامعقول درخواست کرکے مزید رسوائی مول لی جائے یا اس ارادے سے پلہ جھاڑ لیا جائے ؟ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا پر مشتمل بینچ سے اس معاملے میں مظلوموں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ وہ پوچھ رہے ہیں کیا جرم کی سنگینی پر ریاست غور نہیں کر سکتی تھی؟ ان جج حضرات کا یہ تبصرہ نہایت اہم ہے کہ ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس کیس کا موازنہ سیکشن 302 (قتل) کے تحت عام کیس سے کیسے کیا جاسکتاہے ؟
سپریم کے ججوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایسے جرائم عام طور پر معاشرے اور برادری کے خلاف کیے جاتے ہیں، غیر مساوی افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت بھی یکساں سلوک میں یقین رکھتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ مظلوم کے مقابلے ظالم کا ساتھ دینا چاہتی ہے جبکہ عدالت اس سے مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی توقع کرتی ہے ۔ اس کے برعکس موجودہ حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ تاقیامت اقتدار پر قابض رہیں گے اس لیے جو مرضی ہے کرتے رہیں کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکے گا۔ اسی لیے حکومت کو عدالت نے یاد دلایا کہ طاقت کا استعمال عوام کی بھلائی کے لئے ہونا چاہئے ۔ کورٹ کو کہنا پڑا ‘آپ جو بھی ہوں، خواہ آپ کتنے ہی اونچے کیوں نہ ہوں، خواہ ریاست کے پاس صوابدید ہو؟ یہ عوام کی بھلائی کے لئے ہونا چاہئے ۔ یہ(رہائی کا فیصلہ) ایک برداری اور سماج کے خلاف جرم ہے ”۔ اقتدار کے جنون میں گرفتار موجودہ حکومت اپنی سیاسی مفادات کی خاطر ہر قسم کے جرم کا ارتکاب نہ صرف جائز بلکہ مستحب سمجھتی ہے ۔ اس کی ایک مثال پلوامہ کا معاملہ ہے ۔ اس کی گونج فی الحال ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے ۔
سابق گورنر جموں کشمیر ستیہ پال ملک کے مطابق پلوامہ میں سرکار کی لاپروائی سے چالیس سی آر پی ایف کے جوان ہلاک ہوگئے مگر حکومت نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھاکر قومی انتخاب جیت لیا۔ اس قتل عام کے بعد چار سال کی طویل مدت گزر گئی لیکن نہ تو تفتیش ہوئی اور نہ کسی کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرا کر سزا دی گئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد جس سرجیکل اسٹرائیک کا بے شمار چرچا ہوا ہے اور اس میں جو بادلوں کے سبب راڈر سسٹم کی ناکامی کا احمقانہ دعویٰ کیا گیا وہ بھی تحقیق کا موضوع ہے ۔ سارے ملک کو ‘گھر میں گھس کر مارا’ کا نعرہ دے کر بیوقوف بنا نے میں تو کامیا بی ملی مگر یہی بات اقوام عالم کی نگاہ میں ایک مذاق بن گئی ۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اپنے نامہ نگار بالا کوٹ بھیج کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا مگر گودی میڈیا مودی جی کی گود میں اچھلتا کودتا اورکلکاریاں مارتارہا۔ بلقیس بانو کے معاملے میں عدالت نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ، اگر وہ معافی دینے کی ٹھوس وجوہات بتا نے میں ناکام ہو جائے عدالت کو اپنے نتائج اخذ کرنے کی آزادی ہو گی۔ اس موقف میں ایک دھمکی پوشیدہ ہے ۔ شاید ہی اس سے حکومت کا دماغ ٹھکانے آئے ؟ ہنومان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک سیتا کی بے حرمتی کا انتقام لینے کے لیے پوری لنکا جلا تھی مگر کل یگ کے بجرنگی بھگت کبھی بلقیس بانو کی آبروریزی کرتے ہیں اور کبھی خاتون پہلوانوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ یہ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے ۔
٭٭٭