... loading ...
ریاض احمدچودھری
اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ اسلامی قانون شریعت قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ مسلمان اللہ کے احکام سے عبادات کرتا ہے اور اپنی زندگی بھی اللہ اور رسول ۖکی رہنمائی سے گزارتا ہے۔جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ،ظالم ، فاسق ہیں (قرآن،المائیدہ 44,45,47)
نامور دانشور اور محقق ہمارے دوست اختر جاوید ملک کہتے ہیں کہ اللہ کا قانون شریعت طاقتور اور کمزور سب کے لیے برابر انصاف ہے۔ یہ طاقتور کرپٹ لٹیروں، حکمران اشرافیہ کو قبول نہیں مگر کمزور، غریب کے فائدہ میں ہے۔ اس لیے سیکولر،لبرل، ملحد نما مغربی پروردہ حکمران ٹولہ جو ستر سال سے حکومت پر قابض ہے شریعت کے نفاز میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کبھی ڈکٹیٹرشپ کبھی جمہوریت کی آڑ میں شغل حرام جاری ہے۔ سیاسی فائدہ کے لیے اسلام کا نام عوام سے دھوکا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے کبھی کعبے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے کھولا تو کبھی نواز شریف نے اور کبھی عمران خان ننگے پیر مدینے کی سڑکوں پر چلے مگر سلطان صلاح الدین ایوبی حکومتی معاملات اور صلیبیوں کے مقابلے میں اتنا مشغول رہے کہ کبھی کعبہ نہ دیکھ سکے۔ ایوبی نے حاجیوں پر حملہ کرنے والے صلیبیوں کو ختم کرنے کا وقت تو نکال لیا لیکن اپنی خواہش کے باوجود کبھی جنگ اور کبھی فتنوں کی وجہ سے حاجی نہ بن سکے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ کیونکہ مسلم حکمرانوں کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا دفاع اپنی انفرادی عبادات سے پہلے آتا ہے۔اسی لیے حکمران کو پرکھنے کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ وہ تہجد کتنی پڑھتاہے یا کعبے کے دروازے اس کیلئے کتنی بار کھولے گئے بلکہ معیار تو یہ ہے کہ حکمران کو جہاں اقتدار ملا ہے وہاں اللہ کا دین غالب ہے یا نہیں؟ مظلوم کو تحفظ حاصل ہے یا نہیں؟
اب اگر کوئی حاکم لوگوں کے معاملات کو بگاڑ دے، دین نافذ نہ کرے، سودی قرضے لے، ٹیکس سے غریب کو بھوکا ماردے، کفار کے حملوں سے مسلمانوں کو تحفظ نہ دے، کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، مسجد اقصٰی پر یہودی قبضے اور معصوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت دیکھتے ہوئے آنکھیں پھیر لے، اور حج پر حج اور عمرے پر عمرے کرے، حاجیوں کو زم زم پلاتا رہے، رات بھر تہجد وہ بھی مسجد نبویۖ میں پڑھتا رہے۔ تو بھی اس نے خیر نہیں کیا، اس نے اجر نہیں کمایا۔ اور وہ اچھا حکمران نہیں بلکہ بظاہر نیک شخص اور نااہل حکمران کہلائے گا۔کچھ ایسا ہی حال آج پاکستان کے اور عربوں اور باقی مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ترجمہ:کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جہاد کیا / جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔
صدیوں سے مسلمانوں کا یہی قانون رہا مگر پچھلی چند صدیوں میں مسلمان زوال پزیر ہوے اور مغرب کے زیر اثر مغربی قوانین کا نفاذ ہواـ شریعت صرف عبادات تک محدود ہو گئیـ آزادی کے بعد بھی یہی سلسلہ چل رہا ہے کیونکہ مسلمان اکثریت کے ممالک میں سیکولر ، لبرل مغربی پٹھو حکمران جو صرف نام کے مسلمان ہیں حکومت پر قابض ہیں۔ لولی لنگڑی جمہوریت کی بگڑی شکل میں عوام کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ وہ (عوام)حکمران ہیں جو ایک دھوکہ ہے۔ مغربی قوانین پر اسلام کا لیبل لگا کر اسلامی کہ دیا جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا، آئین کو اسلامی بنا دیتا ہے ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ سورةالمائدہ کی آیت نمبر 45 میں ایسے لوگوں کو ظالم کہا گیا اور آیت نمبر 47 میں ایسے لوگوں کو فاسق کہا گیا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ آیات صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ کیونکہ کسی خاص شخص کے متعلق کسی آیت کے نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آیت بس اسی سے مخصوص ہو کر رہ گئی۔ اس کا حکم اب کسی دوسرے شخص پر نافذ نہیں ہوگا۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اسے یہود کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اس کا مفہوم عام رکھا جائے۔ چنانچہ علماء اہل سنت نے من لم یحکم بما انزل اللہ مستھینا بہ منکر الہ۔ یعنی جو شخص اللہ کے حکم کی توہین اور تحقیر کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ کافر ہوگا۔ کیونکہ احکام شرعیہ کی توہین اور تحقیر کی صرف وہی جرات کر سکتا ہے جس کا دل ایمان ویقین کے نور سے خالی ہو۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اور ہماری امت کو ہر فتنے کے شر سے محفوظ فرمائے اور شرک ،بدعات اورخرافات سے ہماری امت کو پاک کر دے اور ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو شریعت کے احکام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو حق کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر چلنے کی آسانی پیداکردے۔ (آمین)
٭٭٭