وجود

... loading ...

وجود

دھرم یدھ چھیڑنے والے بجرنگی کہاں مرگئے ؟

اتوار 07 مئی 2023 دھرم یدھ چھیڑنے والے بجرنگی کہاں مرگئے ؟

ڈاکٹر سلیم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم مودی نے ٹیلی ویژن کے دور میں ریڈیو کو زندہ کردیا۔ انہوں نے آٹھ سال چار ماہ قبل ’من کی بات‘ کا آغاز کیا اور بلاتوقف اسے جاری رکھتے ہوئے اپنے ماہانہ پروگرام کی 100ویں قسط نشر فرما دی۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ مودی جی کم ازکم بولنے کا کام مستقل مزاجی سے کرتے اور کبھی کسی کی نہیں سنتے شاید اپنی بھی نہیں۔ اس بار یہ اعتراف کیاگیا کہ من کی بات کے ذریعہ انہیں ملک کے عام لوگوں سے جڑنے کا اور اس کے ذریعہ ان کو اپنے غیرروایتی کاموں سے عوام کو روشناس کرنے کا موقع ملا۔ حسبِ عادت اپنے میاں مٹھو بنتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس پروگرام میں اٹھایا جانے والا ہر موضوع ایک تحریک بن گیااور مثال کے طور پر ’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘ وغیرہ کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا جب عالمی سطح پر اعزاز یافتہ پہلوان خواتین دارالخلافہ دہلی کے اندر دوسری مرتبہ احتجاج کررہی ہیں ۔ وزیر اعظم جن بیٹیوں کو بچانے اور پڑھانے کا دعویٰ کررہے ہیں وہ سڑک پر اتر کر جنسی استحصال کا سنگین الزام لگانے پر مجبور ہیں۔اس سنگین صورتحال میں وزیر اعظم تو دور خواتین اور بچوں کے فلاح و بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی نے بھی ہنوز ان کی خبر گیری کرنے کی زحمت نہیں کی ہے ۔
ملک کی وہ نامور بیٹیاں ریسلنگ ایسو سی ایشین کے صدر برج بھوشن سنگھ کے خلاف سنگین الزام لگا رہی ہیں لیکن بی جے پی بیٹیوں کے بجائے اپنے رکن پارلیمان کو بچانے میں مصروف ِ عمل ہے ۔ سپریم کورٹ کے دباو کی وجہ سے ایف آئی آر تو داخل کرلی گئی لیکن دہلی پولیس نے برج بھوشن سے رابطہ تک نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اسے طلب کرے گی تو مکمل تعاون کرے گا مگر امیت شاہ کے تحت کام کرنے والے انتظامیہ کی کیا مجال کہ کمل چھاپ رکن پارلیمان کی جانب آنکھ اٹھا کردیکھے ؟پولیس کی اپنی مجبوری ہے مگرحکومت کی عوام کے سامنے جوابدہی کا تقاضہ ہے کہ وہ کارروائی کرے ۔ اس حوالے سے سرکاری گلیارے میں پر اسرار سناٹا چھایا ہوا ہے ۔تادمِ تحریر برج بھوشن کو اس کے عہدے سے ہٹایا نہیں گیا۔ ویسے ان لاتوں کے بھوت کی عقل جلد ٹھکانے نہیں آتی۔ پہلے کارروائی ہوجاتی تو ایف آئی آر کی نوبت نہ آتی ۔ آگے چل کر جب گرفتاری ہوگی تو رسوا ہوکر ہٹانا پڑے گا مگر اس وقت تک پہلوانوں کو پریشانی نیزملک و قوم کو بدنامی سہنی پڑے گی ۔ پارٹی و سرکار کی جب مٹی پلید ہوجائے گی تو دماغ ٹھکانے آئے گا۔
ایون پارلیمان کی رکنیت یا ایسو سی ایشن کے عہدے سے ہٹانا تو دور اگر اس موقع پر ہندو خواتین کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والوں نے اگر برج بھوشن پارٹی سے نکال باہر کرنے کا علامتی اقدام بھی کردیا ہوتا تب بھی عزت بچ جاتی لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا۔فی الحال لوگ باگ دوربین لے کر نام نہاد ‘لوجہاد’ کے خلاف دھرم یدھ چھیڑنے والے ‘ہندو جن آکروش ’ کوتلاش کررہے ہیں لیکن کوئی ہندو توا وادی سیاسی رہنما دور دور تک نظر نہیں آتا۔ خواتین کا جنسی استحصال ہندوتوا وادیوں کی معروف شناخت ہے ۔ اس الزام میں اٹل ، اڈوانی اورمودی سمیت کئی بی جے پی رہنماوں کے گرو آسا رام باپو جیل میں چکی پیس رہا ہے ۔ اترپردیش کے اندر بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے خلاف عصمت دری اور قتل کا الزام ثابت ہوچکا ہے اور اب تو بیرونِ ملک آسڑیلیا میں بھی یہ لوگ اپنے مذہب و تہذیب کا نام روشن کررہے ہیں ۔
آسٹریلیا میں سڈنی کی ایک عدالت نے 24 اپریل کو جب اپنے پہلوانوں نے دہلی میں احتجاج شروع کیا تو ‘اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی’ آرگنائزیشن کے آسٹریلیائی اکائی کے ایک بانی بالیش دھنکھڑ کو منشیات پلاکر پانچ کوریائی خواتین کے ساتھ ریپ کرنے اوراس کی فلمبندی کرنے کا قصوروار پایا۔آسٹریلیائی جیوری اس کے جرائم کی درندگی سے کانپ گئی اور ‘بالیش دھنکھڑ’ کو سڈنی کی حالیہ تاریخ کے سب سے سفاک عصمت دری کرنے والے کے خطاب سے نواز دیا ۔ دھنکھڑ کو جنوری اور اکتوبر 2018 کے درمیان 39 الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ اس نے ’اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی‘ نام کی تنظیم کی بنیاد رکھ کر 2014 میں سڈنی کے اندروزیر اعظم نریندر مودی کے استقبالیہ پروگرام کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ہندوتوا کے علمبردار قومی اور عالمی سطح پر کس طرح ملک کی قدرو منزلت میں چار چاند لگارہے ہیں۔
ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ کو حاصل حکومت وپارٹی کی کی سر پرستی و حوصلہ افزائی کا یہ ثمر ہے کہ وہ ببانگ ِ دہل کہتا ہے ‘ احتجاج کرنے والے پہلوانوں سے اس کی لڑائی ذاتی ہے ’۔ اس پر جنسی ہراسانی کا جو الزام لگایا جارہا ہے اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ اڈانی کی مالی فراوانی کا تو مودی سے تعلق ہے مگر جنسی ہراسانی کے سنگین الزام کا برج بھوشن سے کوئی تعلق نہیں؟ یہ کیسی ذاتی لڑائی ہے جس کا مقابلہ وہ پارٹی کی مدد کے بغیر خود کرنا چاہتاہے ؟ برج بھوشن کی احمقانہ منطق یہ ہے کہ اس پر مذکورہ الزامات رکن پارلیمان کے طور پر نہیں بلکہ ریسلنگ فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے لگائے گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے فیڈریشن کا صدر پارلیمانی رکنیت کے سبب نہیں ملی؟ اور اگر ایسا ہے تو وہ کیوں کہتاہے کہ اگر پارٹی کہے گی تو فوری طور پرپارلیمانی رکنیت سے استعفیٰ دے دے گا۔ یہاں پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر پارٹی اس سے استعفیٰ دینے کے لیے کیوں نہیں کہتی؟ کیا وہ اپنے ہی باہو بلی رکن سے ڈرتی ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برج بھوشن سنگھ نے یوگی کے مافیا سے متعلق بلند بانگ دعووں پر بلڈوزر چلا دیا ہے ۔
برج بھوشن نے اپنے بیان میں یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ ملک کو تمغے دلانے میں نہ صرف پہلوانوں کا بلکہ ریسلنگ ایسوسی ایشن کا بھی اہم کردار ہوتا ہے ۔ یہ بیان دراصل دروناچاریہ ایوارڈ یافتہ مہاویر پھوگاٹ کے اس الزام کی تائید ہے کہ فیڈریشن یعنی اس کا صدر پہلوانوں کی خوراک میں مداخلت کرنے کے علاوہ ان کو ملنے والی اسپانسر شپ کی آدھی رقم بھی لے لیتاہے ، ظاہر ہے جو کامیابی میں اپنے رول کا دعویٰ کرتا ہو وہ اس کی قیمت کیونکر وصول نہ کرے ؟ برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آراور سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد دہلی پولیس نے ڈبلیو ایف آئی کے صدر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی 7 خاتون پہلوانوں کو سیکورٹی دی ہے ۔ یہ تحفظ اس شخص کے عتاب سے محفوظ رکھنے کے لیے دیا جارہا ہے جس نے 2021 کے اندر اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا ‘یہ سب (پہلوان) طاقتور لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے آپ کو کسی طاقتورکی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا یہاں مجھ سے زیادہ طاقتور کوئی ہے ؟’ قومی چیمپئن شپ کے میچ میں پہلوان برج بھوشن کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیتے تھے ۔ 2021 میں رانچی کے اندر اس نے اسٹیج پر ہی ایک پہلوان کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔سپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ایک سابق کوچ نے ایسی بدتمیزی کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ برج بھوشن وہ غنڈہ ہے جس کی ریسلنگ کو ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر پہلوانوں کو نظم و ضبط یا قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوگا۔
برج بھوشن جیسے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی پولیس رات دس بجے کے بعد مظاہرین کے پنڈال کی بجلی کاٹ دیتی ہے ۔ اس کے باوجود جانباز مظاہرین کا اس کی گرفتاری تک اپنا احتجاج جاری رکھنے کا عزم قابلِ تحسین ہے ۔خاتون پہلوانوں کے اس احتجاج میں شامل عالمی شہرت یافتہ وینیش پھوگٹ کہتی ہیں؛‘میں ہمیشہ دیکھتی ہوں کہ وہ (وزیر اعظم )‘من کی بات’ نامی پروگرام کرتے ہیں ، کیا وہ کبھی بیٹھ کر ایک لمحے کے لیے بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم ملک کی بیٹیاں سڑک پر بیٹھی ہیں ۔ ہم ریسلنگ چھوڑنے کی راہ پر ہیں۔ ہم نے اتنے بڑے مجرم کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے ، پھر بھی اگر وہ ہمارے ’من کی بات‘ نہیں سن پا رہے ہیں تو ہم خدا سے دعا کریں گے کہ ان کو ہم کس درد میں ہیں یہ سنائی دے ’۔ یہ وہی وینیش پھوگاٹ ہے جنھوں نے ایک بار ٹوئٹر پر لکھا تھا‘محترم وزیر اعظم نریندر مودی صاحب سے آج بہت شاندار ملاقات ہوئی۔ کھیل کے لیے ان کے اندر بے انتہا جوش اور محبت ہے ۔ کھلاڑیوں کے لیے آپ کی فکرمندی سے میں متاثر ہوئی ۔ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ بات چیت کرنے کے اپنا وعدہ پورا کرنے اور اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکالنے کے لیے بہت بہت شکریہ سر’ لیکن آج یہ حال ہے کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت مانگ رہی ہیں لیکن کوئی رابطہ نہیں ہوپارہا ہے ۔ اس لیے مجبوراً میڈیا کے ذریعہ وزیر اعظم سے ملاقات کی گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ان کے سامنے اپنی بات رکھی جائے لیکن اس گونگی بہری سرکار کے پاس وقت نہیں ہے ۔ جہاں ملک کے نامور کھلاڑیوں کی دادرسی نہیں کی جاتی ہو وہاں عام آدمی کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایسے میں اگر اقتدار کے نشے میں دھت وزیر اعظم عوام کے ‘ من کی بات’ سننے کا روادار نہ تو بھلا اس کے من کی بات کوئی کیوں سنے ؟ اس حتجاج پر مکمل خاموشی نے یہ سوال بھی پیدا کردیا ہے کہ نام نہاد ’لوجہاد‘کے خلاف دھرم یدھ چھیڑنے والے بجرنگی آخر کہاں مرگئے ؟
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر