... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم مودی نے ٹیلی ویژن کے دور میں ریڈیو کو زندہ کردیا۔ انہوں نے آٹھ سال چار ماہ قبل ’من کی بات‘ کا آغاز کیا اور بلاتوقف اسے جاری رکھتے ہوئے اپنے ماہانہ پروگرام کی 100ویں قسط نشر فرما دی۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ مودی جی کم ازکم بولنے کا کام مستقل مزاجی سے کرتے اور کبھی کسی کی نہیں سنتے شاید اپنی بھی نہیں۔ اس بار یہ اعتراف کیاگیا کہ من کی بات کے ذریعہ انہیں ملک کے عام لوگوں سے جڑنے کا اور اس کے ذریعہ ان کو اپنے غیرروایتی کاموں سے عوام کو روشناس کرنے کا موقع ملا۔ حسبِ عادت اپنے میاں مٹھو بنتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس پروگرام میں اٹھایا جانے والا ہر موضوع ایک تحریک بن گیااور مثال کے طور پر ’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘ وغیرہ کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا جب عالمی سطح پر اعزاز یافتہ پہلوان خواتین دارالخلافہ دہلی کے اندر دوسری مرتبہ احتجاج کررہی ہیں ۔ وزیر اعظم جن بیٹیوں کو بچانے اور پڑھانے کا دعویٰ کررہے ہیں وہ سڑک پر اتر کر جنسی استحصال کا سنگین الزام لگانے پر مجبور ہیں۔اس سنگین صورتحال میں وزیر اعظم تو دور خواتین اور بچوں کے فلاح و بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی نے بھی ہنوز ان کی خبر گیری کرنے کی زحمت نہیں کی ہے ۔
ملک کی وہ نامور بیٹیاں ریسلنگ ایسو سی ایشین کے صدر برج بھوشن سنگھ کے خلاف سنگین الزام لگا رہی ہیں لیکن بی جے پی بیٹیوں کے بجائے اپنے رکن پارلیمان کو بچانے میں مصروف ِ عمل ہے ۔ سپریم کورٹ کے دباو کی وجہ سے ایف آئی آر تو داخل کرلی گئی لیکن دہلی پولیس نے برج بھوشن سے رابطہ تک نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اسے طلب کرے گی تو مکمل تعاون کرے گا مگر امیت شاہ کے تحت کام کرنے والے انتظامیہ کی کیا مجال کہ کمل چھاپ رکن پارلیمان کی جانب آنکھ اٹھا کردیکھے ؟پولیس کی اپنی مجبوری ہے مگرحکومت کی عوام کے سامنے جوابدہی کا تقاضہ ہے کہ وہ کارروائی کرے ۔ اس حوالے سے سرکاری گلیارے میں پر اسرار سناٹا چھایا ہوا ہے ۔تادمِ تحریر برج بھوشن کو اس کے عہدے سے ہٹایا نہیں گیا۔ ویسے ان لاتوں کے بھوت کی عقل جلد ٹھکانے نہیں آتی۔ پہلے کارروائی ہوجاتی تو ایف آئی آر کی نوبت نہ آتی ۔ آگے چل کر جب گرفتاری ہوگی تو رسوا ہوکر ہٹانا پڑے گا مگر اس وقت تک پہلوانوں کو پریشانی نیزملک و قوم کو بدنامی سہنی پڑے گی ۔ پارٹی و سرکار کی جب مٹی پلید ہوجائے گی تو دماغ ٹھکانے آئے گا۔
ایون پارلیمان کی رکنیت یا ایسو سی ایشن کے عہدے سے ہٹانا تو دور اگر اس موقع پر ہندو خواتین کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والوں نے اگر برج بھوشن پارٹی سے نکال باہر کرنے کا علامتی اقدام بھی کردیا ہوتا تب بھی عزت بچ جاتی لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا۔فی الحال لوگ باگ دوربین لے کر نام نہاد ‘لوجہاد’ کے خلاف دھرم یدھ چھیڑنے والے ‘ہندو جن آکروش ’ کوتلاش کررہے ہیں لیکن کوئی ہندو توا وادی سیاسی رہنما دور دور تک نظر نہیں آتا۔ خواتین کا جنسی استحصال ہندوتوا وادیوں کی معروف شناخت ہے ۔ اس الزام میں اٹل ، اڈوانی اورمودی سمیت کئی بی جے پی رہنماوں کے گرو آسا رام باپو جیل میں چکی پیس رہا ہے ۔ اترپردیش کے اندر بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے خلاف عصمت دری اور قتل کا الزام ثابت ہوچکا ہے اور اب تو بیرونِ ملک آسڑیلیا میں بھی یہ لوگ اپنے مذہب و تہذیب کا نام روشن کررہے ہیں ۔
آسٹریلیا میں سڈنی کی ایک عدالت نے 24 اپریل کو جب اپنے پہلوانوں نے دہلی میں احتجاج شروع کیا تو ‘اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی’ آرگنائزیشن کے آسٹریلیائی اکائی کے ایک بانی بالیش دھنکھڑ کو منشیات پلاکر پانچ کوریائی خواتین کے ساتھ ریپ کرنے اوراس کی فلمبندی کرنے کا قصوروار پایا۔آسٹریلیائی جیوری اس کے جرائم کی درندگی سے کانپ گئی اور ‘بالیش دھنکھڑ’ کو سڈنی کی حالیہ تاریخ کے سب سے سفاک عصمت دری کرنے والے کے خطاب سے نواز دیا ۔ دھنکھڑ کو جنوری اور اکتوبر 2018 کے درمیان 39 الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ اس نے ’اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی‘ نام کی تنظیم کی بنیاد رکھ کر 2014 میں سڈنی کے اندروزیر اعظم نریندر مودی کے استقبالیہ پروگرام کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ہندوتوا کے علمبردار قومی اور عالمی سطح پر کس طرح ملک کی قدرو منزلت میں چار چاند لگارہے ہیں۔
ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ کو حاصل حکومت وپارٹی کی کی سر پرستی و حوصلہ افزائی کا یہ ثمر ہے کہ وہ ببانگ ِ دہل کہتا ہے ‘ احتجاج کرنے والے پہلوانوں سے اس کی لڑائی ذاتی ہے ’۔ اس پر جنسی ہراسانی کا جو الزام لگایا جارہا ہے اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ اڈانی کی مالی فراوانی کا تو مودی سے تعلق ہے مگر جنسی ہراسانی کے سنگین الزام کا برج بھوشن سے کوئی تعلق نہیں؟ یہ کیسی ذاتی لڑائی ہے جس کا مقابلہ وہ پارٹی کی مدد کے بغیر خود کرنا چاہتاہے ؟ برج بھوشن کی احمقانہ منطق یہ ہے کہ اس پر مذکورہ الزامات رکن پارلیمان کے طور پر نہیں بلکہ ریسلنگ فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے لگائے گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے فیڈریشن کا صدر پارلیمانی رکنیت کے سبب نہیں ملی؟ اور اگر ایسا ہے تو وہ کیوں کہتاہے کہ اگر پارٹی کہے گی تو فوری طور پرپارلیمانی رکنیت سے استعفیٰ دے دے گا۔ یہاں پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر پارٹی اس سے استعفیٰ دینے کے لیے کیوں نہیں کہتی؟ کیا وہ اپنے ہی باہو بلی رکن سے ڈرتی ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برج بھوشن سنگھ نے یوگی کے مافیا سے متعلق بلند بانگ دعووں پر بلڈوزر چلا دیا ہے ۔
برج بھوشن نے اپنے بیان میں یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ ملک کو تمغے دلانے میں نہ صرف پہلوانوں کا بلکہ ریسلنگ ایسوسی ایشن کا بھی اہم کردار ہوتا ہے ۔ یہ بیان دراصل دروناچاریہ ایوارڈ یافتہ مہاویر پھوگاٹ کے اس الزام کی تائید ہے کہ فیڈریشن یعنی اس کا صدر پہلوانوں کی خوراک میں مداخلت کرنے کے علاوہ ان کو ملنے والی اسپانسر شپ کی آدھی رقم بھی لے لیتاہے ، ظاہر ہے جو کامیابی میں اپنے رول کا دعویٰ کرتا ہو وہ اس کی قیمت کیونکر وصول نہ کرے ؟ برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آراور سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد دہلی پولیس نے ڈبلیو ایف آئی کے صدر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی 7 خاتون پہلوانوں کو سیکورٹی دی ہے ۔ یہ تحفظ اس شخص کے عتاب سے محفوظ رکھنے کے لیے دیا جارہا ہے جس نے 2021 کے اندر اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا ‘یہ سب (پہلوان) طاقتور لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے آپ کو کسی طاقتورکی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا یہاں مجھ سے زیادہ طاقتور کوئی ہے ؟’ قومی چیمپئن شپ کے میچ میں پہلوان برج بھوشن کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیتے تھے ۔ 2021 میں رانچی کے اندر اس نے اسٹیج پر ہی ایک پہلوان کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔سپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ایک سابق کوچ نے ایسی بدتمیزی کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ برج بھوشن وہ غنڈہ ہے جس کی ریسلنگ کو ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر پہلوانوں کو نظم و ضبط یا قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوگا۔
برج بھوشن جیسے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی پولیس رات دس بجے کے بعد مظاہرین کے پنڈال کی بجلی کاٹ دیتی ہے ۔ اس کے باوجود جانباز مظاہرین کا اس کی گرفتاری تک اپنا احتجاج جاری رکھنے کا عزم قابلِ تحسین ہے ۔خاتون پہلوانوں کے اس احتجاج میں شامل عالمی شہرت یافتہ وینیش پھوگٹ کہتی ہیں؛‘میں ہمیشہ دیکھتی ہوں کہ وہ (وزیر اعظم )‘من کی بات’ نامی پروگرام کرتے ہیں ، کیا وہ کبھی بیٹھ کر ایک لمحے کے لیے بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم ملک کی بیٹیاں سڑک پر بیٹھی ہیں ۔ ہم ریسلنگ چھوڑنے کی راہ پر ہیں۔ ہم نے اتنے بڑے مجرم کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے ، پھر بھی اگر وہ ہمارے ’من کی بات‘ نہیں سن پا رہے ہیں تو ہم خدا سے دعا کریں گے کہ ان کو ہم کس درد میں ہیں یہ سنائی دے ’۔ یہ وہی وینیش پھوگاٹ ہے جنھوں نے ایک بار ٹوئٹر پر لکھا تھا‘محترم وزیر اعظم نریندر مودی صاحب سے آج بہت شاندار ملاقات ہوئی۔ کھیل کے لیے ان کے اندر بے انتہا جوش اور محبت ہے ۔ کھلاڑیوں کے لیے آپ کی فکرمندی سے میں متاثر ہوئی ۔ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ بات چیت کرنے کے اپنا وعدہ پورا کرنے اور اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکالنے کے لیے بہت بہت شکریہ سر’ لیکن آج یہ حال ہے کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت مانگ رہی ہیں لیکن کوئی رابطہ نہیں ہوپارہا ہے ۔ اس لیے مجبوراً میڈیا کے ذریعہ وزیر اعظم سے ملاقات کی گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ان کے سامنے اپنی بات رکھی جائے لیکن اس گونگی بہری سرکار کے پاس وقت نہیں ہے ۔ جہاں ملک کے نامور کھلاڑیوں کی دادرسی نہیں کی جاتی ہو وہاں عام آدمی کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایسے میں اگر اقتدار کے نشے میں دھت وزیر اعظم عوام کے ‘ من کی بات’ سننے کا روادار نہ تو بھلا اس کے من کی بات کوئی کیوں سنے ؟ اس حتجاج پر مکمل خاموشی نے یہ سوال بھی پیدا کردیا ہے کہ نام نہاد ’لوجہاد‘کے خلاف دھرم یدھ چھیڑنے والے بجرنگی آخر کہاں مرگئے ؟
٭٭