وجود

... loading ...

وجود

حکومت ناکام ، تاجر برادری میں بڑھتی مایوسی

جمعه 05 مئی 2023 حکومت ناکام ، تاجر برادری میں بڑھتی  مایوسی

حکومت نے مہنگائی میں کمر توڑ اضافے اور درآمدات کا گلا گھونٹ کر تجارتی خسارے کو 40 فیصد تک کم کردیا ہے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اپریل تجارتی خسارے میں 15.6 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے، اپریل میں درآمدات میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی اور درآمدات تین ارب ڈالر کی سطح سے بھی نیچے آگئی، جو کہ پاکستان کی ضروریات کا نصف بنتی ہے۔دوسری طرف برآمدات میں 11.7 فیصد کی کمی کے ساتھ 23.1 ارب ڈالر رہی، برآمدات کا سالانہ ہدف 38 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا،، لیکن دس ماہ کے دوران صرف 61 فیصد ہی حاصل کیا جاسکا ہے۔برآمدات کی یہ سطح حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے میں مددگار نہیں ہے۔نظر ثانی شدہ جائزے کے مطابق برآمدات 28 ارب ڈالر سے کم رہنے کا امکان ہے، اگلے مالی سال کے دوران بھی برآمدات میں کسی خاص اضافے کی توقع نہیں ہے اور اگلے مالی سال کے لیے 30 ارب ڈالر کی برآمدات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔دوسری طرف درآمدات میں کمی سے پاکستان میں سپلائی کے مسائل بھی پیدا ہوئے، ضروری خام مال کی عدم فراہمی کی وجہ سے بہت سی فیکٹریاں بند ہوگئیں اور اکثر نے اپنی پروڈکشن میں کمی کردی۔
کاروباری اداروں کے مالکان سے کئے گئے ایک سروے کے بعد اس کے نتائج کی روشنی میں تیار کئے گئے گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس 2023 کی پہلی سہ ماہی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ تاجر برادری موجودہ اور مستقبل کے حالات کے بارے میں سنگین حد تک پریشان ہے اور کاروباری حالات وامکانات کے بارے میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے سیاسی عدم استحکام نے مختلف اقتصادی بحرانوں کو جنم دیا اور کاروباری عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔
بزنس کانفیڈنس انڈیکس ایک اہم بیرومیٹر ہے جو کسی بھی ملک میں کاروباری برادری کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اسے پوری دنیا میں پالیسی ساز ادارے استعمال کرتے ہیں۔یہ سروے 2023 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان بھر کے تقریباً 520 کاروباری اداروں کے ساتھ کیا گیا۔گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور گیلپ پاکستان بزنس کانفیڈنس انڈیکس پاکستان کے چیف آرکیٹیکٹ بلال اعجاز گیلانی کے مطابق پاکستان میں کاروباری اداروں کومتعددمشکلات کا سامنا ہے، تاریخی مہنگائی نے صارفین کی قوتِ خرید کو کم کردیاہے، سیاسی نظام میں استحکام کا مکمل فقدان اور بڑھتے ہو ڈیفالٹ کے خطرات نہ صرف کاروباری برادری بلکہ ان کے صارفین کیلیے بھی مجموعی طور پر مایوسی کا باعث ہیں۔ گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس رپورٹ 2023 کی پہلی سہ ماہی کے کلیدی نتائج کے مطابق 66 فیصد کاروباری اداروں کو خراب یا بدتر حالات کا سامنا ہے، بہت زیادہ خراب کاروباری حالات کا سامنا کرنے والوں اداروں کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سہ ماہی میں گیلپ پاکستان بزنس سیچویشن نیٹ اسکور میں معمولی کمی دیکھی گئی۔سروے کے مطابق سندھ اورخیبرپختونخوا کے تقریباً 70فیصد اور پنجاب کے 64 فیصد کاروباری اداروں کو خراب حالات کا سامنا ہے۔نیٹ فیوچر بزنس کانفیڈنس اسکور پچھلی سہ ماہی کے منفی11فیصد کے مقابلے میں مزید نیچے گرکر منفی22فیصد ہوگیا ہے۔ملک کی سمت کے بارے میں کاروباری برادری کے منفی تاثرات گذشتہ سہ ماہی سے مطابقت رکھتے ہیں۔سروے کے مطابق 58فیصد کاروباری اداروں نے پچھلے سہ ماہی کے دوران اپنی اوسط پیداوار ی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ان میں سے 45فیصد نے اپنی قیمتوں میں 20سے 50فیصد تک اضافہ کیا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق اتحادی حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں 419 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا ہے جس کے بعد مجموعی گردشی قرضہ بڑھ کر 2.67 ٹریلین روپے ہوگیا ہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت کے پاس منصوبہ بندی جیسی کوئی چیز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں بار بار کے ہوش ربا اضافوں کے باجود حکومت گردشی قرضوں میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔جس کے نتیجے میں گزشتہ سال جون میں پاور پروڈیوسرز کاجو قرضہ 1.35 ٹریلین روپے تھا اب اس سے بڑھ کر 1.8 ٹریلین روپے ہوگیا تھا اور اب رواں مالی سال فروری کے اختتام تک اس میں 456 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے جو کہ گزشتہ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے۔ گردشی قرضوں میں 232 ارب روپے کا اضافہ محض لائن لاسز اور پاور ڈسٹریبوشن کمپنیز کی نا اہلی کی وجہ سے ہوا ہے، جو کہ مجموعی اضافے کا 55 فیصد ہے۔پاور ڈسٹریبوشن کمپنیز کیے نقصانات کی وجہ سے 59 ارب روپے اور بلوں کے واجبات کی عدم وصولی کی وجہ سے گردشی قرضوں میں 173 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔وزارت خزانہ نے قرض کو کم کرنے کیلئے گزشتے ہفتے 103 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی۔ رواں مالی سال حکومت نے پاور سیکٹر کے لیے 570 ارب روپے کی سبسڈی رکھی تھی، جو آئی ایم ایف سے تازہ مفاہمت کے بعد بڑھا کر 905 ارب روپے کردی گئی ہے۔نظر ثانی شدہ سرکولر ڈیبٹ پلان سے پتہ چلتا ہے کہ بجلی قیمتوں اور سبسڈیز میں اضافے کے باجود رواں مالی سال کے اختتام تک گردشی قرضہ2.37 ارب روپے رہے گا۔ایک طرف حکومت پر غیر ملکی اور ملکی قرضوں میں اضافہ ہورہا اور دوسری جانب اس قرض کو اتارنے کیلئے برآمدات میں اضافے کیلئے ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیا ہے اس کے برعکس صنعتوں کو جو برآمدات میں نمایاں کردار کرتی ہیں کو گیس اور بجلی کی عدم فراہمی اور ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے پاکستان میں تیار ہونے والی اشیا کو قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بیرونی منڈیوں کیلئے ناقابل قبول بنانا شروع کردیاہے جس کااندازہ گزشتہ 9 ماہ کی مجموعی برآمدات کے اعداد و شمار پر نظر ڈال کر کیاجاسکتا، کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی کا مثبت اثر اس ملک کی برآمدات پر پڑتا ہے اور متعلقہ ملک کی مصنوعات کے سستے ہونے کے باعث عالمی منڈی میں اس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن پاکستانی برآمدات ان فوائد سے اس لیے محروم ہیں۔ آج کل ٹیکسٹائل شعبے کو ریفنڈ جیسا مسئلہ درپیش ہے۔ جس کے سبب ان کے پاس کیش کی زبردست کمی بھی ہے اور اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر شرح سود کو 21 فیصد تک لے جایا گیا ہے۔شرح سود میں اضافے کی وجہ سے خود اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق قریبی مدت میں مہنگائی مزید بڑھے گی، مارچ 2023 میں مہنگائی بڑھ کر 35.4 فیصد تک جا پہنچی تھی جو اب 36 فیصد سے بھی آگے بڑھ چکی ہے،مہنگائی میں اضافے سے ایک طرف عام شہری پریشان ہیں دوسری طرف اس کی وجہ سے ملک کی سیاحت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیونکہ سیاح عام طور پر ان ہی ملکوں کی سیر کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ضروریات زندگی کی اشیا نسبتاًکم قیمت پر دستیاب ہوں۔ مہنگائی کی وجہ سے اب یہاں تک نوبت آگئی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی پی) نے بھی پاکستان کو جنوبی
ایشیا میں سب سے مہنگا ملک قرار دے دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان سری لنکا اور افغانستان کو بھی پیچھے چھوڑ گیاہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا 24.4 فیصد کے ساتھ دوسرا مہنگا ملک ہے اور افغانستان 13.8 فیصد کے ساتھ تیسرا ملک ہے۔بینک کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح27.5 فیصد ہے،جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہے اور اب اس میں مزید اضافے کے لیے تمام باتیں آہستہ آہستہ پوری کی جا رہی ہیں اب ایک ڈالر 290 روپے سے بھی زائد کا ہو چکا ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن مستقبل قریب میں ڈالر کی قیمتوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں، ا ب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت انتخابات میں جانے سے پہلے عوام کو عبوری یعنی عارضی طور پر سہی کچھ ریلیف بہم پہنچانے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور ڈالر کو کنٹرول کرنے کیلئے مطلوبہ رقم کہاں سے حاصل کی جائے گی۔


متعلقہ خبریں


حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں وجود - پیر 25 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک وجود - پیر 25 نومبر 2024

تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور وجود - پیر 25 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند وجود - پیر 25 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر وجود - پیر 25 نومبر 2024

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ افغانستان ک...

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر