وجود

... loading ...

وجود

خالصتان تحریک، بھارت میں ہندو سکھ فسادات کا خطرہ

اتوار 30 اپریل 2023 خالصتان تحریک، بھارت میں ہندو سکھ فسادات کا خطرہ

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کی تحریک زور پکڑ گئی جس کے بعد ہندو سکھ فسادات کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔مودی کے ہندوستان میں انتہا پسند نظریات سے سکھ بھی تنگ آگئے ہیں۔ ہندو نواز اقدامات کی بدولت بھارتی سکھوں میں بے چینی بڑھنے لگی ہے۔ رواں سال خالصتان کے حامیوں کی طرف سے 23ممالک میں 35سے زائد مظاہرے ہو چکے ہیں جن میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے سکھ مظاہرین کی طرف سے شدید احتجاج کئے گئے تھے۔19مارچ 2023کو آسٹریلیا کے شہر برسبین میں ریفرنڈم کے دوران 60ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس دوران سکھوں نے انڈین ہائی کمیشن لندن پر خالصتان کا پرچم بھی لہرایا ۔27مارچ 2023کو امریکی عدالت نے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلی اور گورنر کو سکھوں کے خلاف بڑھتے ریاستی مظالم پر طلبی کے سمن بھی جاری کئے تھے جبکہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت میں اقلتیوں کے ساتھ سیکڑوں انسانیت سوز واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ جس پر ناصرف بھارت بلکہ پوری دنیا کا میڈیا آواز بلند کرچکا ہے۔بھارت میں جہاں دیگر اقلیتی قوموں کے ساتھ بالعموم بدترین رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہیں بالخصوص مسلمانوں کو بدترین ظلم تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ بھارت میں موجود سکھ برادری کے ساتھ بھی شروع کردیا گیا ہے، جس کے بعد اب بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔
خالصتان کے حامی امرت پال سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ بھارت کی مرکزی حکومت نے پنجاب میں پولیس کی سیکیورٹی بڑھانے سمیت پیرا ملٹری فورس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف امرت پال سنگھ نے کہا کہ خالصتان کا مطالبہ سکھوں کا بنیادی حق اورمذہبی عقیدہ ہے۔ اگرہندتوا ریاست کی بات جرم نہیں تو پھر مسلمانوں کی طرف سے جہاد اورسکھوں کی طرف سے خالصتان کے مطالبے کو جرم کیوں بنا دیا گیا ہے۔ وارث پنجاب دا کے سربراہ امرت پال سنگھ کی مقبولیت بھارتی پنجاب میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ نوجوان امرت پال سنگھ بھارتی پنجاب میں نوجوانوں کو نشے کی لعنت سے بچانے اوربیروزگاری کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں اورسمجھتے ہیں سکھوں کے مسائل کا واحد حل صرف خالصتان کا قیام ہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے وزیراعلی بھگوت مان نے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ سے رابطہ کیا ہے اوران سے پنجاب کے لیے اضافی فنڈزاور پیراملٹری فورس کی 40 سے 50 کمپنیاں مانگ لی ہیں۔ بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب میں ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ بھارتی فوج اورامرت پال سنگھ کے حامیوں میں تصادم کروایا جائے اورجب حالات خراب ہوں تو پھر پنجاب میں عام آدمی کی سرکارختم کرکے یہاں گورنرراج لاگو کر دیا جائے۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے چند دنوں میں امرت پال سنگھ پر قاتلانہ حملہ بھی کروایا جا سکتا ہے۔
ادھرامرت پال سنگھ کی گرفتاری پر خالصتان حامی سکھ تنظیموں کی طرف سے احتجاج اورمذمتی بیانات سامنے آئے ہیں۔ سکھ فیڈریشن یوکے کا کہنا ہے امرت پال سنگھ کی گرفتاری قانون اورانسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ امرت پال سنگھ اور انکے ساتھیوں کو بغیرکسی وجہ اورکسی قانوی بنیاد کے گرفتارکیا گیا ہے۔فیڈریشن نے کہا کہ ایک بارپر 1980 کی دہائی کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ جب پولیس کے سکھوں کے قتل عام کی کھلی اجازت دی گئی تھی۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے وہ اس عمل پرخاموش نہیں رہیں گی اورریاستی سرپرستی میں سکھوں کی نسل کشی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
مودی حکومت آج کل روزانہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی پنجاب کی جیل سے خالصتان کا جو رہنما فرار ہو کر چند گھنٹوں کے بعدگرفتار بھی ہوگیا وہ ڈرامہ تھا۔ حکومت نے خود ہی اسے جیل سے نکالا اور فراری کا ڈرامہ رچایا اور پھر اسے گرفتار کرکے واپس جیل ڈال دیا۔1984 میں بھارت میں آپریشن بلیو اسٹارکے تحت سکھوں کے قتل عام کے بعدخالصتان کی تحریک کو کچل دیا گیا تھا جس کے بعد بہت سے سکھوں نے دوسرے ملکوں میں اپنی زندگیوں کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد اپنی تنظیموں کو آہستہ روی سے دوبارہ تحریک دینا شروع کردی تھی۔
خالصتان تحریک کے بانی اور ورلڈ مسلم سکھ فیڈریشن کے چیئرمین سردار منموہن سنگھ خالصہ کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اگلی دفعہ بھی بھارت کیوزیراعظم بن جائیں۔ ان کی مزید بیوقوفیوں سے بھارت میں ہی پا کستا ن اور خالصتان بن جائے گا۔ عالمی برادری نے بھارت کی پرتشدد کارروائیوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر