... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کی تحریک زور پکڑ گئی جس کے بعد ہندو سکھ فسادات کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔مودی کے ہندوستان میں انتہا پسند نظریات سے سکھ بھی تنگ آگئے ہیں۔ ہندو نواز اقدامات کی بدولت بھارتی سکھوں میں بے چینی بڑھنے لگی ہے۔ رواں سال خالصتان کے حامیوں کی طرف سے 23ممالک میں 35سے زائد مظاہرے ہو چکے ہیں جن میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے سکھ مظاہرین کی طرف سے شدید احتجاج کئے گئے تھے۔19مارچ 2023کو آسٹریلیا کے شہر برسبین میں ریفرنڈم کے دوران 60ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس دوران سکھوں نے انڈین ہائی کمیشن لندن پر خالصتان کا پرچم بھی لہرایا ۔27مارچ 2023کو امریکی عدالت نے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلی اور گورنر کو سکھوں کے خلاف بڑھتے ریاستی مظالم پر طلبی کے سمن بھی جاری کئے تھے جبکہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت میں اقلتیوں کے ساتھ سیکڑوں انسانیت سوز واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ جس پر ناصرف بھارت بلکہ پوری دنیا کا میڈیا آواز بلند کرچکا ہے۔بھارت میں جہاں دیگر اقلیتی قوموں کے ساتھ بالعموم بدترین رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہیں بالخصوص مسلمانوں کو بدترین ظلم تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ بھارت میں موجود سکھ برادری کے ساتھ بھی شروع کردیا گیا ہے، جس کے بعد اب بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔
خالصتان کے حامی امرت پال سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ بھارت کی مرکزی حکومت نے پنجاب میں پولیس کی سیکیورٹی بڑھانے سمیت پیرا ملٹری فورس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف امرت پال سنگھ نے کہا کہ خالصتان کا مطالبہ سکھوں کا بنیادی حق اورمذہبی عقیدہ ہے۔ اگرہندتوا ریاست کی بات جرم نہیں تو پھر مسلمانوں کی طرف سے جہاد اورسکھوں کی طرف سے خالصتان کے مطالبے کو جرم کیوں بنا دیا گیا ہے۔ وارث پنجاب دا کے سربراہ امرت پال سنگھ کی مقبولیت بھارتی پنجاب میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ نوجوان امرت پال سنگھ بھارتی پنجاب میں نوجوانوں کو نشے کی لعنت سے بچانے اوربیروزگاری کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں اورسمجھتے ہیں سکھوں کے مسائل کا واحد حل صرف خالصتان کا قیام ہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے وزیراعلی بھگوت مان نے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ سے رابطہ کیا ہے اوران سے پنجاب کے لیے اضافی فنڈزاور پیراملٹری فورس کی 40 سے 50 کمپنیاں مانگ لی ہیں۔ بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب میں ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ بھارتی فوج اورامرت پال سنگھ کے حامیوں میں تصادم کروایا جائے اورجب حالات خراب ہوں تو پھر پنجاب میں عام آدمی کی سرکارختم کرکے یہاں گورنرراج لاگو کر دیا جائے۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے چند دنوں میں امرت پال سنگھ پر قاتلانہ حملہ بھی کروایا جا سکتا ہے۔
ادھرامرت پال سنگھ کی گرفتاری پر خالصتان حامی سکھ تنظیموں کی طرف سے احتجاج اورمذمتی بیانات سامنے آئے ہیں۔ سکھ فیڈریشن یوکے کا کہنا ہے امرت پال سنگھ کی گرفتاری قانون اورانسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ امرت پال سنگھ اور انکے ساتھیوں کو بغیرکسی وجہ اورکسی قانوی بنیاد کے گرفتارکیا گیا ہے۔فیڈریشن نے کہا کہ ایک بارپر 1980 کی دہائی کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ جب پولیس کے سکھوں کے قتل عام کی کھلی اجازت دی گئی تھی۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے وہ اس عمل پرخاموش نہیں رہیں گی اورریاستی سرپرستی میں سکھوں کی نسل کشی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
مودی حکومت آج کل روزانہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی پنجاب کی جیل سے خالصتان کا جو رہنما فرار ہو کر چند گھنٹوں کے بعدگرفتار بھی ہوگیا وہ ڈرامہ تھا۔ حکومت نے خود ہی اسے جیل سے نکالا اور فراری کا ڈرامہ رچایا اور پھر اسے گرفتار کرکے واپس جیل ڈال دیا۔1984 میں بھارت میں آپریشن بلیو اسٹارکے تحت سکھوں کے قتل عام کے بعدخالصتان کی تحریک کو کچل دیا گیا تھا جس کے بعد بہت سے سکھوں نے دوسرے ملکوں میں اپنی زندگیوں کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد اپنی تنظیموں کو آہستہ روی سے دوبارہ تحریک دینا شروع کردی تھی۔
خالصتان تحریک کے بانی اور ورلڈ مسلم سکھ فیڈریشن کے چیئرمین سردار منموہن سنگھ خالصہ کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اگلی دفعہ بھی بھارت کیوزیراعظم بن جائیں۔ ان کی مزید بیوقوفیوں سے بھارت میں ہی پا کستا ن اور خالصتان بن جائے گا۔ عالمی برادری نے بھارت کی پرتشدد کارروائیوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔
٭٭٭