وجود

... loading ...

وجود

رام کا نام روشن کرنے والے بھگت

هفته 29 اپریل 2023 رام کا نام روشن کرنے والے بھگت

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے عید الفطر کے موقع پر شہریوں کو مبارکباد پیش کرتے ٹویٹ کیا:عید الفطر کی مبارکباد۔ ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور ہمدردی کا جذبہ مزید فروغ پائے ۔ میں سب کی شاندار صحت اور خوشحالی کے لیے بھی دعا گو ہوں۔ عید مبارک!‘‘۔ اسی طرح کا سیدھا سادہ پیغام وزیر اعلیٰ یوگی بھی دے سکتے تھے لیکن انہوں نے مبارکباد دینے کے بجائے کہا کہ عید کی نماز پڑھی جارہی ہے مگر آمدو رفت بند نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے ۔ یہ بات اگر درست ہوتی تو ہندو تہواروں کے وقت بھی آمدو رفت متاثر نہیں ہوتی لیکن ایسا تو نہیں ہوتا۔ دوسری دعویٰ یہ کیا کہ کوئی دنگا فساد نہیں ہے ۔ ملک کے سارے فسادی تو ان کی بھارتیہ دنگا پارٹی میں جمع ہیں۔ وہ لوگ تہوار منانے کے بجائے رام نومی یاہنومان جینتی کے وقت راستوں میں جلوس نکال کر دنگا فساد کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح اگر وہ بھی عزت و قار کے ساتھ اپناتہوار منائیں اور مساجد کے آگے تلوار لہرا کر اشتعال انگیز نعرے نہ لگائیں تو اس موقع پر بھی امن و امان قائم رہے گا لیکن دوسروں کو برا بھلا کہے بغیر ان کی سیاست ہی نہیں چمکتی ۔
گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نے نریندر مودی نے فرقہ وارانہ فساد اور جعلی انکاونٹرس کو اپنی سیاست چمکانے کاذریعہ بنایا۔ گجرات فساد کے بعد سہراب الدین سے لے کر عشرت جہاں تک کئی ماورائے قتل کرواکر وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بن گئے ۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اسی راہ پر گامزن ہوکر وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ مودی کی جنم بھومی گجرات اور کرم بھومی اترپردیش میں انصاف اور قانون کی نہایت بے حیائی کے ساتھ دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اس طرح کی قتل و غارتگری سے نہ صرف قانون کو پامال کیا جاتا ہے بلکہ بھٹنڈا کے اندر فوجیوں کے قتل اور جموں کے پونچھ میں حملے کا شکار ہوکر مارے جانے والے فوجیوں کی واردات کو ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔ فرقہ پرستی کے نشے میں دھت کرکے جن لوگوں کے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے وہ لوگ عتیق احمد کی اہلیہ شائستہ احمد کی ہراسانی پر خوشی مناتے ہیں۔ ان بزدلوں کو ایک ایسی بیوہ خاتون کا درد بھی محسوس نہیں ہوتا جس کے شوہر کا قتل انتظامیہ کی لاپروائی سے ہوا ۔ اس کے باوجود جب یوگی اپنے حساس انتظامیہ کی تعریف کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے ۔
عتیق احمد اور اشرف کے قاتل لولیش تیواری (22)، موہت عرف سنی پرانے (23) اور ارون کمار موریہ (18) نے خود کو مقامی صحافی ظاہر کرکے اور بھیڑ کے ساتھ گھل مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔سچ تو یہ ہے کہ ان بدمعاشوں نے تو صرف ایک بار عتیق احمد کو آدھے منٹ میں قتل کردیا مگر بے غیرت میڈیا پورا ہفتہ اس کہانی کو چیونگم کی مانند چبا چبا کر عوام کے ذہنوں کو مسموم کررہا ہے ۔ اس لیے گودی میڈیا کے نام نہاد صحافیوں جرم ان قاتلوں سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ ان تینوں کے خلاف تو تعزیرات ہند کے تحت قتل اور قتل کی کوشش سے متعلق دفعات اور آرمس ایکٹ اور فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن گودی میڈیا کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دریں اثنا اتر پردیش حکومت نے عتیق احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا ہے ۔ اس کمیشن کی سربراہی ہائی کورٹ کے سابق جج اروند کمار ترپاٹھی کریں گے ۔ سابق جج برجیش کمار سونی اور اتر پردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس سبیش کمار سنگھ اس کے ارکان ہوں گے لیکن ان لوگوں سے عدل و انصاف کی توقع کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے ۔
میڈیا کا طوطا تو خیر وہی بولتا ہے جو اس کا آقا چاہتا ہے لیکن اس دوران سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے عتیق احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔اس عرضی میں ایڈوکیٹ وشال تیواری نے 2017 سے اتر پردیش میں ہونے والے تمام 183 ‘‘انکاؤنٹرس’’ کی تحقیقات ک مطالبہ کیا ۔ تیواری نے ماورائے قتل وارداتوں کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘‘جمہوری معاشرے میں پولیس کو حتمی انصاف فراہم کرنے کا طریقہ یا سزا دینے والی اتھارٹی بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے ۔ویسے تو یہ حملہ کھلے عام ہوا ور بظاہر لولیش تیواری، سنی اور ارون موریہ انڈرورلڈ میں اپنا نام کمانے کے لیے کیا لیکن تفتیشی ایجنسیوں کے سامنے سب سے بڑاچیلنج تینوں حملہ آوروں کے سہولت کاروں کا سراغ لگانا ہے ۔ تین مختلف شہروں کے ان مسکین حملہ آوروں نے 7 لاکھ روپے کی جگانہ پستول کیسے حاصل کرلی یہ اہم سوال ہے ۔اس معاملے میں دکھاوے کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے 5 پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاگیا ہے جن میں شاہ گنج پولیس اسٹیشن کے انچارج اشونی کمار سنگھ بھی میں شامل ہیں۔ان کے علاوہ ایک سب انسپکٹر اور تین کانسٹبل شامل ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ لیپا پوتی کی کارروائی ہے ۔
عدالتِ عظمیٰ کے علاوہ عتیق احمد اور اشرف کے قتل معاملہ میں یوپی پولیس پر اب قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) نے یوپی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ این ایچ آر سی یوپی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اور پریاگ راج کے پولیس کمشنر کو نوٹس بھیج کر 4 ہفتوں میں رپورٹ مانگی ہے ۔ایسا لگتا ہے عالمی میڈیا میں جس طرح حکومت ہند پر زبردست تنقید ہورہی ہے اس کا دباو کم کرنے کی خاطر یہ مرکزی حکومت کی ایک کوشش ہے ۔ این ایچ آر سی نے اپنے نوٹس میں قتل سے متعلق وقت، جگہ اور گرفتار کرنے کی وجہ سے متعلق تمام تفصیلات طلب کی گئی ہیں ۔ حقوق انسانی کے ادارے نے ان کے خلاف درج کی گئی شکایت اور ایف آئی آر کی کاپی منگوائی ہے اور انتظامیہ سے سوال کیا گیا ہے کہ اس نے ملزمین کی گرفتاری کے بارے میں ان کے گھر والوں کو بتایا یا نہیں؟ یوپی کی سفاک حکومت کا اس حساسیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ میڈیا کے ذریعہ جھوٹ سچ نشر کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہے ۔
ایک ایسے قتل کی بابت جو کیمرے کے سامنے کیا گیا اور نشر بھی ہوگیا این ایچ آر سی کے ذریعہ یوپی پولیس سے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے ساتھ اس کی ویڈیوگرافی کا سی ڈی بھی پیش کی جائے ٹائپ شدہ رپورٹ کاطلب کیا جانا بے معنیٰ مشق لگتی ہے ۔ ان سب کو دیکھ کر یہ بدگمانی ہوتی ہے مبادہ یہ مجرموں کو بچانے کے لیے حرکت تو نہیں کی جارہی ہے ؟ آج کل سیاستدانوں کے علاوہ انتظامیہ کے نے بھی لاج شرم کو بالائے طاق رکھ دیاہے ۔ فی الحال چاپلوس افسران جانچ کے دوران مقدمہ کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ ملزم بہ آسانی چھوٹ جاتاہے ۔نروڈا پاٹیا اور گاوں میں تو جملہ ایک سو آٹھ لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ نرودا گاوں کے تمام مجرم سیشن کورٹ سے باعزت بری ہوگئے ۔ نروڈا پاٹیا کی مایا کوندنانی تو چھوٹ گئی تھیں مگربابوبجرنگی بھی اکیس سال کی سزا کے باوجود باقی سڑسٹھ لوگ بھی ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اس سے قبل گجرات کے اندر کلول میں12؍سے زائد افراد کے قتل عام اورایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا الزام میں 39 ملزمین میں سے 26 کو پنچ محل ضلع کی ہلول ایڈیشنل سیشن جج نے ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ ان میں سے 13 ماخوذ فیصلہ سے پہلے موت کا مزہ چکھ چکے تھے ۔
فرقہ وارانہ فسادات ااور اس طرح کی قتل و غارتگری کے معاملے میں جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے کیونکہ اترپردیش کے ملیانا میں36 سال قبل جن 72 مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا گیا تھا اس کے 39 ملزمین کو عدالت نے تین دہائیوں تک مقدمہ چلانے کے بعد رہا کر دیا گیا ۔قتل عام کا یہ واقعہ 22 مئی 1987 کو رمضان کے آخری جمعہ کے دن پیش آیا تھا۔ اس کے دوسرے دن 24 مئی کو ایک مقامی شخص یعقوب علی نے اس واقعے کے سلسلہ میں 93 افراد کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ان میں سے 23 کی گزشتہ سماعتوں کے دوران موت ہو گئی اور 31 کا سراغ ہی نہیں لگایا جا سکا۔اس کیس میں جملہ 900 سماعتوں کے بعد بھی مقتولوں کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لکھویندر سنگھ سود کی عدالت نے پچھلے دنوں 39 ملزمان کو یہ کہتے ہوئے رہا کر دیا کہ استغاثہ اس کیس میں کافی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ مقتولین کے لواحقین اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے لیکن وہ کب تک چلے گا کوئی نہیں جانتا اوراس وقت کوئی ملزم زندہ بچے گا بھی نہیں یہ کہنا مشکل ہے ۔
وطنِ عزیز میں عام لوگوں کے ساتھ انصافی کا سلسلہ نیا نہیں ہے مگر یہ فرق ضرور واقع ہوا ہے کہ پہلے اس طرح کی ناانصافی کا ارتکاب کرنے کے بعد لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر سزا کے خوف شرمندہ دکھائی دیتے تھے کوئی ڈھٹائی سے اس کا اعتراف نہیں کرتا تھا۔ اب صورتحال قدرے بدل چکی ہے مجرمین کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ان کی ہمدرد و بہی خواہ سرکار انہیں انتظامیہ اور عدالت کے ذریعہ بچا لے گی۔ اس لیے وہ ببانگ دہل جرائم کا ارتکاب کرکے فخریہ انداز میں جئے شری رام کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جئے شری رام کا نعرہ دراصل خود مریادہ پرشوتم رام کا نام روشن نہیں کرتا بلکہ انہیں شرمندہ کرنے والا ہے مگرکرسی کی رعونت کا شکار رام بھگتوں کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ خود اپنے مذہب کوبدنام کررہے ہیں۔ آنجہانی دیو آنند کی ‘ہرے راما ہرے کرشنا’ نامی فلم کا یہ نغمہ اقتدار کے نشے میں مست کل یگ کے رام بھگتوں سے فریاد کرتا ہے
دیکھو اے دیوانو تم یہ کام نہ کرو
رام کا نام بدنام نہ کرو، بدنام نہ کرو
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر