... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں ۔معروف عالمی جریدے ٹائم نے لگا تاردوسری مرتبہ ان کے اثرات کو نظر انداز کردیا ہے ۔ ویسے پچھلے دس سالوں میں پانچ مرتبہ مودی جی کوٹائم کے بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ یعنی کرکٹ کی زبان مودی جی کا اسٹرائیک ریٹ پچاس فیصد ہے ۔ وطن عزیز میں کرکٹ کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے ۔ انڈین کرکٹ لیگ کا مخفف آئی سی ایل ہونا چاہیے تھا لیکن غلطی سے اسے آئی پی ایل یعنی انڈین پریمیرلیگ کے نام سے پکارا جاتا ہے حالانکہ آئی پی ایل کو تو انڈین پولیٹیکل لیگ کا مخفف ہونا چاہیے ۔ ویسے آئی پی ایل کی چالبازیاں تو اصلی سیاست سے بھی بدترہیں ۔ مثلاً وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘گجرات کا قصائی ‘ کہنے والے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو تو جی 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستا ن آنے کی دعوت دی گئی لیکن عالمی سطح پر پہلے نمبر کے بلے بازبابر اعظم اور ان کے پاکستانی ساتھیوں کو آئی پی ایل میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا۔ ویسے جس ادارے کا سربراہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ ہو اس سے اور کیا توقع کی جائے ؟
انڈین پولیٹیکل لیگ کے زیر اہتمام سیاسی ٹورنامنٹ کا فائنل میچ تو خیر آئندہ سال ہوگا لیکن اس کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے ۔ پچھلے دنوں شمال مشرق کے ننھے منے صوبوں میں کچھ وارم اپ میچ ہوئے جس میں کھلاڑیوں نے اپنے اپنے ہاتھ پیر سیدھے کیے ۔ اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ سرزمین ِ کرناٹک میں ہونے جارہا ہے ۔ ویسے تو یہ بی جے پی کا ہوم گروانڈ ہے اس لیے اسے بے ایمانی کے بے شمار مواقع ہیں لیکن سیاسی افق پر مایوسی و بدعنوانی کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کالے دھن کی کھاد سفید کمل کو کھلانے میں کامیاب ہو سکے گی یا کانگریس کا ہاتھ چل جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ کرکٹ کی مانند سیاست کے میدان میں بھی آخری گیند تک کچھ بھی کہنا مشکل ہے ۔ کرکٹ فی زمانہ عوام کی تفریح کا بہت بڑا سامان بنا ہوا ہے، اسی لیے آئی پی ایل کھیل کے دوران کروڈوں کی اشتہار بازی ہوتی اور کھلاڑیوں کی قیمت بھی کروڈوں میں لگائی جاتی ہے لیکن ارکان اسمبلی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ مہاراشٹر کے ہر باغی رکن اسمبلی کو چالیس کروڈ روپیہ ملنے کی خبر ہے ۔ انتخاب کی تشہیر میں خرچ ہونے والی رقم کے سامنے آئی پی ایل کا میچ ہیچ ہے ۔ خیرکرکٹ کے اس جملۂ معترضہ سے ٹائم میگزین کی جانب لوٹتے ہیں۔
ٹائم میگزین کے بااثر ترین شخصیا ت کی فہرست میں شامل ہونے کا لازمی مطلب تعریف و توصیف نہیں ہے کیونکہ یہ جریدہ مثبت اثرات ڈالنے والوں کے ساتھ ساتھ منفی انداز میں متاثر کرنے والوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ مودی کو پانچ شمولیت میں سے صرف ایک بار سراہا گیا تھا۔2014میں پہلی بار حلف برداری سے قبل انہیں بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے فرید زکریا نے لکھا تھا گوکہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے روشن امکانات ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے قوت فیصلہ کی تعریف کرکے عوام کی بڑی توقعات کا ذکر کرنے کے بعد گجرات فساد کی یاد دلا کر کہا گیا تھا ایک پھوٹ ڈالنے والا سیاستداں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں قیادت کرنے کے لیے پرتول رہا ہے ۔ تعریف و تنقید کے اس حسین امتزاج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ برابری پر چھوٹا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے اس وقت وزیر اعظم کے اصلی چہرے پر’اچھے دن ‘کی دبیز نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ فرید زکریا سمیت اچھے اچھے ان کے دامِ فریب میں گرفتار ہوگئے تھے ۔
2015میں بھی ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کا غلغلہ جاری تھا۔ اس لیے سرکار سازی کے فوراً بعد مودی جی پھر سے بااثر شخصیت کی فہرست میں نظر آئے ۔ امریکی صدر براک اوبامہ سے ا ن کاتعارف لکھوایا گیا ۔ انہوں نے مودی جی کے غربت بھرے ماضی کا حوالہ دے کر لکھا کہ وہ مفلس عوام اور خواتین کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ توقع بھی جتائی گئی کہ وہ ملک کو آگے لے جائیں گے ۔2016 خالی گیا مگر 2017کے بعد جب مودی جی بے نقاب ہوگئے تو ٹائم نے انہیں پھر سے شامل کرکے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پچھلے تین سالوں میں معاشی ، تہذیبی یا عالمی سفارتکاری کے میدان میں وہ کچھ نہیں کرپائے ۔ ان کی حامی تنظیموں نے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر بہت حملے کیے ۔ اترپردیش کا انتخاب جیتنے کے لیے یہ حکمت عملی بی جے پی کی ضرورت تھی ۔ اس کے بعد دو سال مودی جی غائب رہے مگر 2020 میں پھر سے وہ اس فہرست کی زینت بنے ۔ اس وقت کشمیر کی دفع 370ختم کی جاچکی تھی اور ملک بھر میں سی اے اے این آر سی کے خلاف زبردست تحریک چل رہی تھی اس لیے ان پر ملک کو بانٹنے کا الزام لگا کر تنقید کی گئی۔
2021 میں مودی جی کو پھر سے بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کرکے کورونا کی بابت ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ لوگ تو یہ توقع کررہے تھے مودی جی ملک کو سوشلزم سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب لے کر جائیں گے مگر وہ تو الٹا سیکولرازم سے فرقہ پرستی کی جانب لے گئے ۔ اس طرح گویا لگاتار تین مرتبہ ان کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ کرکٹ کی زبان میں کہا جائے تو پانچ مقابلوں میں سے ایک میچ برابری پر چھوٹا۔ایک میں وہ جیتے مگر تین بار ان کو ٹائم شیلڈ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے بعید نہیں کہ مودی جی نے اپنے نام کی عدم موجودگی پر اطمینان کا سانس لیا ہو کیونکہ اپنے کالے کرتوت سے سب سے زیادہ واقفیت خود اپنی ذات کو ہوتی ہے ۔ جہاں تک بھگتوں کا سوال ہے اقتدار کے نشے میں مست مداحوں کو ساون میں صرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے ۔ وہ لوگ اس بات کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں کہ ان کے مقبول ترین رہنما کو اس نامعقول جریدے نے کیسے نظر انداز کردیا؟ یعنی شامل کیا جائے تو اسے بدنام کرنے کی سازش کہا جائے اورنہ کیا جائے تو افسوس کیا جائے گا۔
ٹائم میگزین کی اس تازہ فہرست سے بیچارے مودی بھگتوں کو دوسرا جھٹکا اداکارشاہ رخ خان کی سب سے زیادہ بااثرافراد میں جگہ پانے سے لگا حالانکہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ نہ تو وہ لوگ بے شرم رنگ کی مخالفت کرتے اور نہ پٹھان سپر ہٹ ہوتی ۔ ٹائم 2023 کے پول میں شاہ رخ خان کو 1.2 ملین ووٹ ملے ۔ یہ ریڈرز پول میں سب سے زیادہ ووٹ کی تعداد ہے ۔ قارئین کی اس غیر معمولی پزیرائی کے سبب وہ سرفہرست رہے ۔ اس پر برہم ہوکر امیت شاہ نے نہ جانے کتنے مفت خوروں کو اپنی ٹرول آرمی سے نکال باہر کیا گیا ہوگا؟
اس لیے کہ دنیا کی امیر ترین سیاسی پارٹی کی وسیع ترین میڈیا فوج اگر ایک اداکار سے زیادہ ووٹ اپنے وزیر اعظم کو دے کر کامیاب نہیں کر سکتی تو اس کا فائدہ ہی کیا ہے ؟ شاہ جی کو سمجھنا چاہیے کہ روپیہ کے ساتھ جذبۂ عمل بھی کام کرتا ہے ۔ فی الحال دھن دولت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی لیکن جوش اور ولولہ کم ہوگیا ہے ۔ اس جذبے کا فقدان اگر خود وزیر اعظم میں ہوجائے تو بیچاری ٹرول آرمی میں یہ کیونکر بڑھ سکتا ہے ؟
ملک بھر میں محض جی 20کی ہورڈنگ پر’بڑی ذمہ داری ، بڑے عزائم ‘لکھ کر ساتھ میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ بنادینے سے بات نہیں بنتی ۔ ٹائم میگزین والے ان سے متاثر نہیں ہوتے ۔ کاش کہ گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی کی مانند ٹائم کو بھی خرید لیا ہوتا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن تھا تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ نومبر 2017ء میں اس امریکی جریدے کے ناشر نے ایک امریکی اشاعتی ادارے میریڈتھ کارپوریشن کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر میں ٹائم میگزین بیچ دیا تھا ۔ ویسے اس وقت گوتم اڈانی کے پاس اس قدر رقم نہیں تھی لیکن اگر مودی جی کہیں سے اس انتظام فرما دیتے تو اس کے رہنماوں کی فہرست میں ایک سے لے کر ٩ تک مودی جی کانام اور دسویں پر امیت شاہ ، یوگی ادیتیہ ناتھ یا اڈانی براجمان ہوتے بشرطیکہ ٹائم جریدہ گودی میڈیا کی مانند اپنے ضمیر کا بھی سودا کردیتا۔ 1923ء کے بعد یہ سانحہ پہلی بار رونما ہوگیا ہوتا اور ایک صدی کے بعد اس کے سولہ لاکھ قارئین اپنا سر پیٹ لیتے ۔ ٹائم جریدے والوں نے اپنے قارئین کو رسوا ہونے سے تو بچا لیا مگر وزیر اعظم نریندر مودی کو غمگین کردیا ۔ انہیں جب گزرے زمانے میں ٹائم میگزین کے اندر اپنے لیے لکھے جانے والے توصیفی کلمات یاد آتے ہوں گے تو یہ شعر بھی ان کی زبان پر آجاتا ہوگا
جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
٭٭٭