وجود

... loading ...

وجود

ڈگری نہیں دکھائیں گے!

جمعرات 27 اپریل 2023 ڈگری نہیں دکھائیں گے!

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2004 کا قومی انتخاب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں لڑا گیا اور بی جے پی شکست فاش سے دوچار ہوگئی۔ اس نتیجے نے اٹل جی کے سیاسی سفر کو ختم کرکے لال کرشن اڈوانی کو خوش کردیا۔ انہوں نے سوچا اب ان کے اور وزیر اعظم کی کرسی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ وہ بڑی آسانی سے ایک غیر سیاسی شخصیت کے حامل منموہن سنگھ کو ہر ا کر وزیر اعظم بن جائیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 2009 میں مودی سمیت ساری بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی مگر کانگریس نے پہلے سے زیادہ بہتر فرق کے ساتھ کامیابی درج کروا ئی۔ اس طرح بی جے پی زبردست مایوسی کا شکار ہوگئی ۔ 2014کے لیے اس نے اڈوانی کے متبادل کی تلاش شروع کی اور اس طرح نریندر مودی کی قسمت کھُل گئی۔ انہیں بلاواسطہ امیدوار بنایا گیا اور بی جے پی غیر متوقع طور پر انتخاب جیت گئی۔ اس طرح نریندر مودی کو وزیر اعظم کا عہدہ نصیب ہوگیا۔
قومی انتخاب میں کامیابی نے وزیر اعظم کے دماغ کو آسمان پر پہنچا دیا اور اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے ۔ اگلے سال دہلی کے صوبائی انتخابات آئے ۔ کل یگ کے چانکیہ نے اس میں کامیابی کی خاطر ساری طاقت جھونک دی کیونکہ وہ اس وقت نئے نئے پارٹی صدر بنے تھے اور انہیں اپنا جلوہ دکھانا تھا لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ بی جے پی تیس سے تین پر آگئی۔ یہ زبردست ناکامی امیت شاہ سمیت مودی جی کو آسمان سے پاتال میں لے گئی۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو سبق سکھانے کے لیے ڈگری کے کھیل کا آغاز ہوا۔ عام آدمی پارٹی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر پر حلف نامہ میں فرضی ڈگری داخل کرنے کا الزام لگا اورانہیں گرفتار کرلیا گیا ۔اس خبر کی تشہیر کے لیے ان کو فیض آباد میں آر ایم ایل اودھ یونیورسٹی اور کے ایس سیکٹ پی جی کالج کے کیمپس لے جایا گیا کیونکہ انہوں نے اس کالج سے بی ایس سی ڈگری حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔وہاں اساتذہ اورادارے کے عہدیداروں سے ملاقات کرواکر بیانات قلمبند کیے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ وہ اپنے کلاس روم، فزکس لیباریٹری اور واش روم کی نشاندہی میں ناکام رہے ۔ اگلے دن ان کو بشونت سنگھ انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹیڈی کالج واقع مونگیر اور بھاگلپور میں تلکاماجھی یونیورسٹی لے جایا گیا ۔ یہ خبر ٹیلی ویژن پر خوب چلی اور عام آدمی پارٹی کی زبردست بدنامی ہوئی جس کی وہ مستحق تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ڈگری کے جعلی ثابت ہوجانے پر جیتندر تو مر کی طرح تفتیش سے گزرنا پڑے گا؟ مگرجب سمرتی ایرانی جیسی معمولی وزیر اس رسوائی سے بچ گئیں تو مودی کو کیا ڈر؟ اس بابت پرشانت بھوشن سوال کرتے ہیں سپریم کورٹ نے تمام امیدواروں کو اپنی ڈگریاں ظاہر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کیا وزیراعظم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا؟تومر کا معاملہ جب منظر عام پر آیا تو اس کی کوکھ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری کے تنازع نے جنم لیا۔ عام آدمی پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی ڈگری دکھانے کا چیلنج کردیا ۔ یعنی نہ بی جے پی تومر پر ہاتھ ڈالتی اور نہ یہ پنڈورا بکس کھلتا ۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک پرانے انٹرویو میں اینکر راجیو شکلا کے ساتھ کیمرے کے سامنے اعتراف کرچکے ہیں کہ انھوں نے ہائی ا سکول تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 17 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ کنڑ زبان کے جریدے ترنگ کو سنہ 1992 میں انھوں نے خود کو میکینیکل انجینئر بتایا ہے اور انتخابی حلف نامہ میں ‘انٹائر پولیٹیکل سائنس ‘میں ڈگری کا انکشاف کردیا۔ ان متضاد بیانات نے وزیر اعظم کی صداقت کو مشکوک بنادیا اور لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر سچ کیا ہے ؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2014 کے قومی انتخابات میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے حلف نامہ کے اندرپہلے تو یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا کہ وہ شادی شدہ ہیں ۔ اس سے پہلے وہ یہ کالم خالی چھوڑ دیاکرتے تھے ۔ اس کے علاوہ فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت سال 1978 میں دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور سال 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کا بھی انکشاف کردیا۔ جیتندر تومر کی وجہ سے ہاتھ آنے والی رسوائی کا انتقام لینے کے لیے عام آدمی پارٹی نے نریندر مودی کی ڈگری کے حوالے سے وزیر اعظم کے دفتر، الیکشن کمیشن، دہلی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی میں آر ٹی آئی دائر کروادی ۔ اس کے بعد ایک دلچسپ پنگ پانگ کا کھیل شروع ہو گیا۔ وزیراعظم کے دفتر نے الیکشن کمیشن سے پوچھنے کی تلقین کرکے اپنا پلہ جھاڑ لیا ۔ الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ دیکھنے کا مشورہ دے کر جان چھڑائی ۔ گجرات یونیورسٹی کا جواب تھا کہ 2005 کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اس معلومات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہی جواب پی ایم او اور الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیا کہ جس سے نہ رہتا بانس اور نہ بجتی بانسری ؟ کیا دہلی کے اندر الیکشن کمیشن اور خود وزیر اعظم کے دفتر میں وہ جرأت نہیں تھی جس کا مظاہرہ گجرات یونیورسٹی نے ببانگ دہل کردیا ۔ اس اختلاف نے بھی شکوک و شبہات کو بڑھایا۔
عام آدمی پارٹی کے حملوں سے پریشان ہوکرمرکزی حکومت کے ایماء پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے کیجریوال سے ان کی الیکشن آئی ڈی کے بارے میں جانکاری طلب کرلی ۔ یہ بی جے پی کی دوسری غلطی تھی کیونکہ اس کے ردعمل میں اپریل 2016 کے اندر اروند کیجریوال نے چیف سی آئی سی شریدھر آچاریلو کو ایک خط لکھ کر نریندر مودی سے متعلق معلومات کو عام کرنے کی درخواست کردی ۔سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے اسے آر ٹی آئی کے زمرے میں ڈال کر گجرات اور دہلی یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق معلومات دینے کا حکم دے دیا۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی جب بری طرح گھر گئی تو دونوں کے ایک ایک نمائندے امیت شاہ اور ارون جیٹلی نے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکر تیسری بہت بڑی غلطی کردی ۔ ان لوگوں نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کو عام کرکے اروند کیجریوال پر ملک کی بدنامی کاالزام لگاکر معافی کا مطالبہ کردیا ۔ یہ کام نہایت گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا گیا تھا ۔اس لیے کئی خامیاں رہ گئیں اور ڈگری کافرضی ہونا واضح ہوگیا۔وزیر اعظم کی ڈگری کو پیش کرنے میں جو بے احتیاطی کی گئی اس سے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی شبیہ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔
بی جے پی والوں نے وزیر اعظم کے لیے انٹائر پولیٹکل سائنس نام کا ایک مضمون ایجاد کرڈالا ۔ اس میں داخلہ لینے والے اور امتحان دے کر ڈگر ی لینے والے وزیر اعظم تنہا طالبعلم تھے۔ اس لیے کسی نے انہیں کالج آتے جاتے نہیں دیکھا ۔ اس مضمون کی بابت 2014 سے قبل گجرات یونیورسٹی سمیت کسی کو علم نہیں تھا۔ مودی جی کو اس ڈگری سے وائس چانسلر کے ایس شاستری نے 30 مارچ 1983 کو نوازا جبکہ وہ بیچارے 1981ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے تھے ۔ سنجے سنگھ کے مطابق یونیورسٹی کی ہجے میں ایک جگہ انگریزی حرف ‘بی ‘ اور دوسرے مقام پر ‘وی ‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے سبب جعلی ڈگری بنانے والوں کی تعلیمی لیاقت بھی مشکوک ہوجاتی ہے ۔ ان غلطیوں کو دیکھ کر پاؤلو کوئیلو کا ناول الکیمیا یاد آجاتا ہے جس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ خیر کے کام میں فطرت کے سارے عناصر تعاون کرتے ہیں یہاں ایسا لگتا ہے کہ شرکے کام میں وہ سارے عناصر مخالفت پر تُل گئے تھے ۔
گجرات یونیورسٹی کی ڈگری پر تو عدالت ِ عالیہ کا فیصلہ آگیا مگر دہلی کی ڈگری کا معاملہ ہنوز زیر سماعت ہے اور وہ ڈگری بھی مختلف نقائص سے اٹی پڑی ہے ۔ وزیر اعظم کی دہلی یونیورسٹی والی ڈگری میں کئی خامیاں ہیں مثلاً1978 کے اندر یہ ڈگری انہیں ٹائپ کرکے دی گئی جبکہ اس کے دس سال بعد 1988 تک دہلی یونیورسٹی میں دیگر طلباء کی ڈگری پر نام ہاتھ سے لکھے جاتے تھے ۔ کون جانے کس انتریامی نے عملہ کو بتا دیا کہ یہ آدمی آگے چل کر وزیر اعظم بننے والا ہے اس لیے ان کی ڈگری کا خاص خیال رکھا جائے ۔ مودی جی کا نام لکھنے کے اس فونٹ کا استعمال کیا گیا جو 1992 میں ایجاد ہونے والا تھا یعنی اپنی پیدائش سے بارہ سال قبل اس فونٹ کو مودی جی کی ڈگری میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ اس پر تاریخ ثبت کرنے کے لیے اتوار یعنی چھٹی کے دن کا انتخاب کیا گیا تاکہ کوئی اور خلل اندازی نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی آئین کی کوئی شق یا عوامی نمائندگی ایکٹ کسی دفعہ میں رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی کے انتخاب کو تعلیمی اہلیت سے مشروط نہیں کیا گیا یعنی ہندوستان میں پارلیمانی یا اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان ارکان کا اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری درج کرنا ایک سنگین جرم ہے ۔ اس کی سزا جلد یا بدیر وزیر اعظم کو مل کر رہے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر