... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،کچھ نجی مصروفیات کے باعث کافی لمبا گیپ آگیا جس کی وجہ سے آپ احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، ہفتے میں جو تین حاضریاں ہم لگاتے تھے، وہ نہ لگاپائے، اس دوران ایڈیٹر صاحب سے مکمل رابطہ تو تھا اور وہ بار بار لکھنے پر اصرار بھی کرتے رہے لیکن ایک کے بعد دوسرا ، کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ سر پر آن کھڑا ہوتا کہ لکھنے کی فرصت نہیں مل سکی، اب زندگی میں کچھ ٹھہراؤ آیا ہے تو لکھنے کی جانب طبیعت مائل ہوئی ہے، کوشش ہوگی کہ اب کوئی غیر حاضری نہ ہوسکے۔یہ تو کچھ اپنی باتیں، چلیں اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔
کہنے والے کہتے ہیں اور ہم نے بھی محسوس کیا کہ، اس بار رمضان المبارک تاریخ کے مہنگے ترین تھے، جس میں فروٹ کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، عید شاپنگ کے حوالے سے تاجربرادری کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں اتنا ”مندا” سیزن کبھی نہیں رہا۔ پاکستان میں راشن کی دُکانوں کے باہر حالیہ مناظر کو دیکھنے والے بعض افراد یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں ”مڈل کلاس’ ‘سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔بین الاقوامی طور پر ورلڈ بینک کے مطابق مڈل کلاس میں اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ایک دن کے دس ڈالر کماتا ہے یعنی ایک مہینے کے تین سو ڈالر اس کی آمدن ہے۔ جو کہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔کسی بھی ملک کی معیشت میں ہر قسم کی مانگ یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی دونوں طرف کی مانگ مڈل کلاس ہی سے آتی ہے۔’اگر مڈل کلاس سکڑے گی تو یہ ڈیمانڈ بھی کم ہو جائے گی یعنی خرچ کرنے والے کم ہوں گے تو کاروبار کے مواقع بھی کم ہوں گے، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور نتیجتاً خرچ کرنے کے لیے پیسہ کم بنے گا۔
معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے لندن سے خاص طور پر اسحاق ڈار صاحب کو لایا گیا، انہیں ہر طرح کا ماحول بناکردیاگیا، فری ہینڈ ملا، لیکن نتیجہ؟ ڈار صاحب کو لوگ اب ڈالر صاحب کے نام سے پکارنے لگے ہیں، ڈالر قابو میں ہی نہیں آرہا، ڈار صاحب سے پہلے جو نون لیگی وزیرخزانہ تھے، مفتاح اسماعیل وہ خود گاہے بگاہے ڈار صاحب کو کچوکے لگاتے رہتے ہیں، اور ان کی اہلیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ڈار صاحب کی ذہانت کا ہم شاید پہلے بھی آپ کو اپنے کسی کالم میں بتاچکے ہیں۔ ۔کسی نے ان سے پوچھا۔۔قوال جب گاتے ہیں تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر کیوں رکھ لیتے ہیں۔۔جس پر ڈار صاحب نے انہیں سمجھایا کہ۔۔تاکہ وہ اپنی آوازخود نہ سن سکیں۔۔بچپن کے ایک دوست نے پوچھا۔۔یار ڈار۔۔جب نہر میں نہائیں تو منہ کس طرف کریں۔۔انہوں نے ترنت جواب دیا۔۔اپنے کپڑوں کی طرف۔۔ہمارے ایک دوست حقے کے بہت شوقین تھے۔۔ایک دن دیکھاتقریبا بیس فٹ لمبے پائپ سے حقہ گڑگڑارہے ہیں۔۔پوچھا۔۔یار حقے کا اتنا لمبا پائپ۔۔کہنے لگے۔۔ڈاکٹر نے مجھے تمباکوسے دوررہنے کا کہا ہے۔۔جس طرح ہمارے دوست کو ڈاکٹر نے تمباکوسے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے،اسی طرح ہم اپنے دوستوں کو ہر حکومت سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیوں کہ پولیس والوں کی طرح ان کی دوستی اور دشمنی دونوں ہی اچھی نہیں ہوتی۔۔اگر آپ کو بھی کوئی وزیر یا مشیر دوست ہے تو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس سے دور رہیں۔
عید سے پہلے حکومت نے پٹرول پھر دس روپے مہنگا کردیا، حالانکہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول مسلسل سستا ہورہا ہے۔باباجی کو جب ہم نے بتایا کہ پٹرول مہنگاہوگیا تو وہ مسکرا کر فرمانے لگے، بیٹاجی ہمیں کیا، ہم تو پہلے بھی سوروپے کا ڈلواتے تھے اب سو روپے کا ہی ڈلوانا ہے۔۔ باباجی سے ہم نے پوچھا کہ ۔۔ریل کا کرایہ اتنا بڑھ گیا ہے،ہمارے کچھ دوستوں کو کراچی سے لاہور جانا تھا جب کینٹ اور سٹی اسٹیشن گئے تو پتہ چلا کہ اگلے ایک ماہ تک کسی گاڑی میں بکنگ نہیں ہے، باباجی نے ہماری بات تسلی سے سنی اور بہت ہی ”حکیمانہ” جواب دیا۔۔کہنے لگے، لوگ یہی سوچتے ہیں کہ اگلے سال کرایہ اور بڑھ جائے گا اس لئے اسی سال جتنا سفرکرنا ہے کرلو۔۔اب اسے آپ انگریزی کا ”سفر” سمجھیں یا اردو کا۔۔مثل مشہور ہے کہ جو جتنا زیادہ پیسے والا ہوتا ہے ، اتنا ہی کنجوس ہوجاتا ہے۔کسی کنجوس امیر کے در پر کسی فقیر نے آواز لگائی۔۔ ۔ بابا بھلا کرے یہاں دو،وہاں لو۔۔۔کنجوس نے اپنے ملازم کو آواز دی، فیروز، منشی جی سے کہو کہ خدمت گار مبارک کو بلائے او ر مبارک ملازمہ کے ذریعے دروازے پر کھڑے فقیر سے کہہ دے کہ۔ کوئی اور گھر دیکھو۔۔۔فقیر اس عجیب و غریب جواب رسانی سے جھنجھلا اٹھا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔۔۔اے رب العزّت اپنے پیارے رسول(ص) کے واسطے سے جبرئیل(ع) سے کہیے کہ وہ میکائیل کے ذریعہ اسرافیل کو طلب کریں اور اسرافیل کو حکم دیا جائے کہ وہ عزرائیل سے کہیں کہ وہ اس ملعون اور کنجوس رئیس کی روح فوراً قبض کر لیں۔۔
ایک خاتون سیاسی رہنما نے ایک بار ایک پارٹی میں کپ میں چمچہ ہلاتے ہوئے چائے کی چسکی لی اور بُرا سا منہ بناتے ہوئے کپ نیچے رکھا اور دوبارہ چمچ ہلانے لگی۔ پھر کپ اٹھا کر چسکی لی۔۔ پھر وہی بُرا سا منہ بنا کر کپ نیچے رکھا اور پھر چمچ ہلانا شروع کر دیا۔ پھر وہی۔۔۔ پھر وہی۔۔۔ چھ سات مرتبہ دہرا چکنے کے بعد چمچ ٹرے میں پھینک کر پارٹی میں موجود لوگوں سے کہنے لگی۔۔لو بھئی ایک بات تو طے ہو گئی۔۔حاضرین نے چونک پوچھا ۔۔وہ کیا؟۔۔خاتون سیاسی رہنما نے بڑے یقین اور اعتماد سے کہا ۔۔یہی کہ اگر چائے میں چینی نہ ہو تو چاہے لاکھ بار چمچہ ہلائیں، چائے میٹھی نہیں ہو سکتی۔۔ایک بار ایک چوہا آٹے کے ڈرم میں گرگیا، اب تو اس کی موجیں لگ گئیں، آٹا کھاکھا کر موٹا ہوگیا، نکلنے لگا تو پھنس گیا اور چیخنے لگا۔ ساتھی چوہوں نے نکالنے کی کوشش کی لیکن باہر نہ نکال سکے ۔۔بزرگ چوہا سب دیکھ رہا تھا، بولا اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے جب تک پیٹ سے نہیں نکلے گا یہ باہر نہیں آئے گا۔۔اسکول وزٹ پر ایک ننھے بچے نے وزیر خوراک سے سوال کیا۔۔۔ انکل، آٹے، چینی، چاول کا رنگ کیا ہوتا ہے؟وزیرنے فوری جواب دیا۔۔ بیٹا، آٹے چینی، چاول کا رنگ وائٹ (سفید) ہوتا ہے۔۔بچے نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ تو پھر پورے پاکستان میں آٹا، چینی، چاول بلیک کیوں ہوتا ہے؟۔۔وزیرتعلیم جب اسکول وزٹ پر آیا تو ایک بچے نے شکایت لگادی۔۔جناب 14مہینے ہوگئے ہیں اسکول میں ٹیچر نہیں آیا۔۔وزیرتعلیم نے حیرت سے پوچھا۔۔تو اسکول کیسے چل رہا ہے؟ بچے نے فوری جواب دیا۔۔ جیسے ملک چل رہا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ کو ٹھیک سے نظر نہیں آتا تو کسی پر اندھا اعتماد کر کے دیکھ لیں وہ آپ کی ایسی آنکھیں کھولے گا کہ آپ کو دور دور تک ہر چیز صاف نظر آئے گی۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔