... loading ...
ایم سرورصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیرالمومنین حضرت علی ؓ سے کسی نے سوال کیا جناب پانی کا ذائقہ کیسا ہوتاہے؟ امیرالمومنینؓ نے بلا تامل فرمایا زندگی جیسا۔ جب سے دانش بھرا یہ جواب پڑھاہے حیرت میں گم ہوں ۔امیرالمومنین حضرت علی ؓ نے صدیوں پہلے زندگی کے بارے میں کیسی تلخ حقیقت آشکار کر دی تھی۔ جنوبی ایشیاء ،افریقی ممالک اور تیسری دنیا کے بیشترممالک میں عام آدمی کو جوپانی پینے کیلئے میسرہے عام شکایات ہیں وہ کڑوا، گندہ،آلودہ ہوتاہے۔ المختصروہ پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا شاید اسی لئے زیادہ لوگوں کا لہجہ کڑوا،کپڑے گندے اور ذہن آلودہ رہتے ہیں یعنی پانی کے ذائقے والی زندگی ۔ کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا پانی زندگی کی علامت ہے اورقدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ۔ سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا اس کے باوجود لوگوں کی قسمت کا کیا کیجئے اقوام ِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور نہ جانے کون کون سے اداروں کی حکمت ِ عملیاں،ایفی شنسیاں اور پھر حکومتوں کے اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی دنیاکی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں ، یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں۔
یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس کو جس سانچے میں ڈالو ڈھل جاتاہے،جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے ،پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔ دنیا کے زیادہ تر انسانوںکو پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے بہت تردد کرناپڑتاہے اربوں کھربوں روپے ہرسال صاف پانی کے نام پر ہڑپ کرلئے جاتے ہیں ۔محض بنگلہ دیش، نیپال،برما ،بھارت، خلیجی ممالک ،افریقہ پرہی موقوف نہیں ،دنیا میں ہر جگہ ایسے ہی ہوتاہے فرق یہ ہے کہ نو آبادیاتی ریاستوںاور ممالک میں اشرافیہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ایک اور بات پاکستان میں تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آبادکے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے بعض مقامات پر خواتین اور بچے کئی کئی میل دور پیدل چل کر اپنے گھروں میں پینے کیلئے پانی لاتے ہیں ۔خشک سالی سے ہر سال سینکڑوں افراد اور لاکھوں جانوربلک بلک اور تڑپ تڑپ کر بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ یہی حال بھارت کے دور دراز کے علاقوں،بنگلہ دیش کی زیادہ آبادی ،افریقی ممالک کے وسیع و عریض جنگلوں،صحرائوں اور آبادیوں کی حالت انتہائی ابترہے ،خلیج ،عرب ممالک اور اس سے جڑے ملکوں میں پینے کا پانی انتہائی کمیاب ہے ۔ امیر عرب ممالک میں تو پینے کاپانی امپورٹ کیا جاتاہے، باقی رہے مسائل کے مارے غریب ملکوں کے باشندے انہیں جو پانی مل جائے۔ انہی سے اپنی پیاس بجھاکر خداکا شکرادا کرتے ہیں ،قحط ،خشک سالی اور بنجرہوتی زمینوںکی حالت ِ زار دیکھ کر میڈیا اور عالمی سطح پر وقتی ہلچل پیدا ہوتی ہے ۔ دو چار فوٹو سیشن اور معاملہ ختم۔ تاریخ و جغرافیہ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیامیں سینکڑوں ہزاروں ایسے دور دراز کے علاقے بھی
ہیں جہاں جانور اور انسان ایک ہی چھپڑ(جوہڑ)سے پانی پینے پر مجبور ہیں لیکن مستقل بنیادوںپر ان کی حکومتوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ زیادہ ترحکمرانوں کی سوچ شہروںکی ترقی تک محدود ہے۔ شاید ان کا مطمحٔ نظربلا امیتازیکساں وسائل سب کیلئے نہیں ہے۔پانی جیسی بنیادی سہولت کی دستیابی ہر شہری کا پہلا حق ہے لیکن اس پر بھی سیاست ہوتی ہے۔ کبھی اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اور کبھی اپنی جے جے کار کیلئے۔اسی طرح فصلوں کیلئے نہری پانی کے حصول کیلئے محکمہ انہار کے اہلکاروں سے ساز باز، موگھے توڑ کر پانی چوری کرنا کسی کو اس کے حصہ کے پانی سے محروم کردینا عام سی بات ہے ۔
دنیا میں جس تیزی سے پانی کی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے کوئی بعید نہیں دو ممالک کے درمیان مستقبل کی جنگیں پانی کے حصول کیلئے لڑی جائیں۔ پاکستان پانی کی کمی والے ٹاپ ففٹی ممالک میں تیزی سے اُبھررہاہے لیکن کسی کو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں جس ملک کا آدھے سے زیادہ رقبہ پانی سے محروم،بنجر اور ویران ہو وہاں کے حکمرانوںکی تو نیندیں حرام ہو جانی چاہئیں مگر خواب خرگوش مزے کی نیندسے محروم ہونے کو گناہ سمجھ لیا گیاہے ۔ایک وقت آئے گا جب بے رحم تاریخ اپنافیصلہ تحریر کرے گی تو حکمران ، عوام، سیاستدان وڈیرے، جاگیر دار سب کے سب قومی مجرم گردانے جائیں گے۔ کتنا ظلم روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے جس سے پانی سے محروم،بنجر اور ویران زمینیں سونا اگل سکتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں خوشحالی لا سکتی ہیں جس سے بھوک اور غربت ختم کی جا سکتی ہے۔ یہی پانی جمع کر ڈیم بنائے جائیں تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ مستقل بنیادوںپرہو سکتاہے لیکن ہر قیمت پر قوم پرستی کے نام پر سیاست سیاست کا کھیل جاری رکھناہے تو لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کا حق کس نے دیاہے ؟ بھارت نے دریائوںپر درجنوں بندبناکر پانی دخیرہ کرنے کی جو کوشش کی ہے۔ اس پر پاکستان کو بہت سے تحفظات ہیں ۔ دنیا میں پانی کی شدید کمی ہونے کے باعث مبصرین باربار خبردار کرر ہے ہیں کہ پانی کا ضیاع بہت بڑاجرم ہے مستقبل کی جنگیں پانی کے لئے ہوںگی لیکن اس کا کسی کو کوئی ادراک نہیں ۔ اسی طرح خصوصاً غریب ممالک میں پینے کا پانی بھی ایک مسئلہ بناہواہے آلودہ،یرقان زدہ، گندہ پانی جس سے پیٹ، جگر اورمعدے کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔محکمہ صحت، پبلک ہیلتھ اور حکومتی اداروں کی کارکردگی لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
خوفناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آباد،ایوبیہ کے مضافاتی علاقے،چولستان،گوادر اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے۔ لاہور،کراچی،حیدرآباد ،فیصل آباد اورپشاورکی جن آبادیوںمیں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے وہاں واٹر ٹینکروںسے TMA لوگوںکو فراہم کرتارہتاہے ۔ پینے کے پانی کا بنیادی مسئلہ ہے جسے حکومت کو ترجیحی بنیادوںپر حل کروانا چاہیے اور اللہ کی اس بیش قدر نعمت مخلوق ِ خدا پر آسان کرنے سے حکومت کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔ بھارت کے دور دراز کے علاقوں،بنگلہ دیش کی زیادہ ترآبادی ،افریقی ممالک کے وسیع و عریض جنگلوں،صحرائوں اور آبادیوں میں بھی پینے کے صاف پانی کے لیے ان کی حکومتوںکو ہنگامی بنیادوںپرکام کرناہوگا کیونکہ یہ انسان کے بنیادی حقوق کی ڈیمانڈ ہے ۔ ویسے اپنی اپنی قسمت کی بات ہے کوئی پانی کی ایک ایک بوندکو ترستاہے تو کوئی رنگ برنگے رنگوںکی پچکاریاں مار تے ہوئے رنگولی مناتاہے ۔ایک خبریہ بھی ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش پر ہی موقوف نہیں، تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں صاف پانی کے نام پر درجنوں کمپنیاں اور ان کے ہوس پرست مالکان عام پانی پیک کرکے منرل واٹر کے نام پر ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں۔ اس کا بھی کوئی اپائے ہونا چاہیے ۔ میاں ثاقب نثارسابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کو ریگولائز کرنے کیلئے کچھ اقدامات کرنا تھے لیکن ان کے جاتے ہی نہ جانے پھرکیا گیا معلوم نہیں ؟ یہ کتنابڑا سنگین معاملہ تھا اس کا کیا منطقی انجام ہوا کچھ معلوم نہیں ملٹی نیشنل کمپنیوںنے معمولی واٹر بل کے عوض پاکستانیوں سے کھربوں روپے ڈکارلیے کسی حکومت نے ان کو کچھ نہیں کہا ۔بلاشبہ ہمارے قومی ادارے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایک خادم ِ اعلیٰ کی پنجاب حکومت میں’’صاف پانی پراجیکٹ ‘‘ میں کمپنی بناکر ماہانہ لاکھوں تنخواہ پر اربوں روپے نذرانہ دے کر جس طرح منظور ِ نظر لوگوں نواز دیاگیا ،وہ شرمناک ہے عوامی خدمت کادعویٰ کرنے والوںکو غریب عوام پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔ عوام کے ساتھ ٹیکنیکل فراڈکو جمہوریت قراردیدیا جاتاہے ۔ شیریں ،صاف شفاف پانی ہرانسان کی دسترس میں آجائے تو وثوق سے کہا جاسکتاہے زندگی کا ذائقہ بھی بدل جائے گا جس سے آدھی بیماریوںکا خاتمہ یقینی بات ہے۔ صاف شفاف پانی جو زندگی ہے۔ زندگی کی علامت ہے اوربھرپور زندگی جینے کا حق ہر انسان کو ہے۔ یہ عجیب نہیں لگتاکہ دنیا میں کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی لوگوںکو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں جوا سٹیٹ زندگی کی بنیادی سہولت فراہم نہیں کرسکتی ،اس کے حکمرانوںکو تنہائی میں سوچنا چاہیے ۔وہ کیا کررہے ہیں؟ ان کی کارکردگی کیسی ہے؟ اورعوام ان کے بارے میں کیاسوچتی ہے؟ اوروہ یوم ِ مکافات اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔
٭٭٭