وجود

... loading ...

وجود

پلوامہ حملہ ، مودی ڈرامہ

بدھ 19 اپریل 2023 پلوامہ حملہ ، مودی ڈرامہ

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ فروری 2019 ء کے پلوامہ حملے کے بارے میں بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے تازہ ترین انکشافات نے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کی تصدیق کر دی ہے۔ گورنر کے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح بھارتی قیادت عادتاً پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا شور مچا کر اپنے شرمناک بیانیے اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو ملکی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
عالمی برادری تازہ ترین انکشافات کا نوٹس لے اور سیاسی مفادات اور جھوٹ اور فریب پر مبنی پاکستان کے خلاف بھارت کی پروپیگنڈا مہم کو دیکھیں۔ بھارت کو تازہ ترین انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو متاثر کرنے والے اقدامات کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ پاکستان اپنی طرف سے بھارت کے جھوٹے بیانیے کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتا رہے گا اور مختلف اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مضبوطی اور ذمہ داری سے کام کرے گا۔
قابض بھارتی جموں وکشمیرکے گورنرستیہ پال ملک نے دی وائر کو انٹرویو میں پلوامہ حملے سے متعلق چشم کشا انکشافات کرتے ہوئے سارا ملبہ مودی سرکار کے سر ڈال دیا ہے۔ ستیہ پال ملک کا کہناتھاکہ مودی سرکار کو حملے کا علم تھا لیکن مودی نے فوجیوں کو بچانے کے بجائے مروا دیا اور ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ جب میں نے معاملے کو اٹھایا تومودی نے مجھے پلوامہ حملے کے فوراًبعد کوربٹ پارک سے باہر بلا لیا۔مودی نے مجھے پلوامہ حملے پر خاموش رہنے کو کہا اور اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنے کو کہا۔ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے بھی مجھے پلوامہ معاملے پر بات کرنے سے منع کر دیا تھا،مجھے احساس ہو گیا تھا کہ پلوامہ ڈرامے کا مقصد صرف اور صرف بی جے پی کو انتخابات میں فائدہ پہنچانا تھا،مودی سرکار اور بی جے پی جموں و کشمیر میں سیاسی زلزلے کا باعث بن سکتی ہے۔ستیہ پال ملک کا کہنا تھاکہ میں یہ بات کھل کر کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم مودی کو کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں۔نریندرمودی جموں وکشمیر کے بارے میں بے خبر اور جہالت کی انتہا پر ہیں۔وزارتِ داخلہ کی کوتاہی کے سبب فروری 2019 کے دوران پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر تباہ کن حملہ ہوا۔ ستیہ پال ملک اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے دوران قابض بھارتی جموں و کشمیر کے آخری گورنر تھے۔
پلوامہ حملہ پاکستان کے خلاف مودی سرکار کی سوچی سمجھی سازش تھی اور حملہ مودی سرکاری نے خود کرایا۔ مودی سرکار کو پلوامہ حملے کا 8دن پہلے علم تھا اور یہ بات سکیورٹی میٹنگ میں ڈسکس ہوئی تھی ۔ مودی سرکار چاہتی تو حملہ روک سکتی تھی لیکن پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مودی سرکار نے حملہ ہونے دیا۔ اس طرح انتخابا ت میں پاکستان مخالف ووٹ بھی مودی کو ملتے۔ اور تو اور حملے میں مرنے والے نوجوانوں نے درخواست بھی دی تھی کہ ہمیں بذریعہ فضائی راستہ منتقل کیا جائے کیونکہ حالات دیکھتے ہوئے انہیں بھی اسی قسم کے حملے کی سن گن تھی مگر مودی سرکار نے ڈرامہ رچانے کیلئے ان کی درخواست نہیں مانی۔حملے میں مرنے والے تمام نچلی ذاتوں کے لوگ ہیں ۔ یہ سازش سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے کسی کو نہیں مارا ۔ہماری سرکار نے 42 لوگوں کو مارا ہے اور نام پاکستان کا لیا جارہاہے۔
پلوامہ حملہ کے ہلاک شدگان نچلی ذات کے ہندو تھے۔ دلت ذات کے ہندوؤں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے انہیں ہندو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن ان کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے دلت بھارتی انتخابات میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔مودی کے حالیہ دورہ کشمیر کے موقع پر یہ منصوبہ بندی کی گئی کہ کس طرح دلت برادری کا ووٹ حاصل کیا جائے۔ کشمیر میں ہی فیصلہ ہوا کہ دلت فوجیوں کو چارہ بنا کر خود کش حملہ کرایا جائے اور الزام پاکستان پر دھردیا جائے ۔ اس سے ایک تو پاکستان کی بدنامی ہوگی۔ دوسرا دلت برادری کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں گی اور یوں پاکستان مخالف اور ہندو ازم کے کارڈ پر اگلا انتخاب جیتا جائے۔
ہندو انتہا پسند تنظیم مہاراشٹر نوونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے بھی پلوامہ حملے پر سوال اٹھا دئیے ہیں اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کوتفتیش کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول سے تحقیقات کی جائیں تو پلوامہ حملے کی حقیقت سامنے آ جائے گی۔ پلوامہ حملے میں مارے گئے فوجی سیاسی متاثرین ہیں۔ حکومتیں سیاسی مقاصد کیلئے ایسے کام کرتی ہیں لیکن مودی حکومت میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا۔ جب پلوامہ حملے کی خبر آئی تو مودی ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے اور خبر ملنے کے باوجود بھی مصروف ہی رہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر