... loading ...
آواز / ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتفاق سے گزشتہ سال کاایک اخبار نظرسے گزرا محسوس ہوا کہ کچھ نہیں بدلا سب کچھ وہی ہے۔ ایک جیسی خبریں ایک جیسے حالات اور عام پاکستانیوں کی وہی محرومیاں جیسے یہ اخبار آج ہی کا ہو ۔یہ آج بھی نیا لگتاہے نیا اس لئے کہ غریبوںکی حالت اور حالات آج بھی نہیں بدلے ۔اس اخبارمیں چھپی تین خبریں درحقیقت تین کہانیاں ہیں۔ ہمارے معاشرے کی یہ کہی ان کہی کہانیاں میرے اندر کے دکھ ہیں جب بھی کبھی تنہائی میں یہ خبریں یادآجائیں تویو ںمحسوس ہوتا ہے جیسے میری روح کو کوبرا ناگ ڈس رہاہے۔ میری نظریں ان تین خبروںپرجمی ہوئی ہیں جنہیں پڑھ کر دل اداس اور آنکھوںمیں نمی تیر تیرجاتی ہے ۔ یہ خبریں حالات کے جبرکا شکار ہونے والوںکا نوحہ بھی ہیں، غم کے ماروںکا ماتم بھی۔ اورحالات کی سنگینی کااعلان بھی۔یہ موجودہ سسٹم کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی۔
یہ خبریں بتاتی ہیں کہ آج عام آدمی پرکیا بیت رہی ہے ان کی عکاس بھی ہیں اور ہماری اجتماعی بے حسی پر ماتم کرتی یہ خبریں کسی مہذب معاشرے میں رونماہوتیں تو شرم کے مارے حکمران اپنے ضمیر کی آوازپر مستعفی ہونے پر مجبورہوجاتے لیکن اسلام کے نام پر بننے والی مملکت ِ خدادادمیں نہ جانے ایسے کتنے واقعات ظہورپزیرہوتے ہیں اور کسی کے سر پرجوںتک نہیں رینگتی ۔پہلی خبر اتنی بھیانک ہے پڑھنے کے بعد کئی گھنٹے نیندہی نہ آئی ۔لگتا تھا کلیجہ پھٹ جائے گا یا زمین شق ہوجائے ،جہاں اس قدراستحصالی نظام میں ہم جی رہے ہیں اسے یقینا جینانہیںکہاجاسکتا کڑھنا،سسکنا،تڑپنا شایدبہترالفاظ ہو۔ یہ خبریں یہ کہانیاں بھارت،بنگلہ دیش،پاکستان یا افریقی ممالک پر ہی موقوف نہیں ۔ غورکریں تو احساس ہوگا کہ یہ دنیا کے ہر غریب،پسماندہ اور ترقی پزیرملکوںمیں رہنے والے ان لوگوںکااصل چہرہ ہے جو جینے کے نام پر سسک رہے ہیں، زندگی کے نام پر دن رات سلگتے رہتے ہیں ۔حالات نے ان لوگوںسے خوشیاں چھین لی ہیں ۔ایسے ہمارے دل و دماغ اور احساس کو جھنجوڑ کرتورکھ دیتے ہیں لیکن اکثریت کچھ نہیں کرسکتی۔ اشرافیہ کی روایتی ۔بے حسی کا کیا کیجیے ہم جیسے لوگ صرف جل اور کڑھ ہی سکتے ہیں ۔سال پرانی دلخراش خبریہ تھی کہ میرپور خاص میں بچے کی میت لے جاتے ہوئے موٹرسائیکل کو حادثے کے باعث بچے کے والد اور چچا جاں بحق ہوگئے۔ ہسپتال سے بچے کی میت لے جانے کے لئے ایمبولینس دینے سے انکار پرلواحقین نے موٹرسائیکل پر میت لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ فاصلہ زیادہ ہونے کے سبب راستے میں میت اکڑ گئی تو توازن برقرار نہ رہ سکا اور حادثہ ہوگیا جس پر مرحوم کے والد اور چچا جاں بحق ہوگئے ۔معلوم یہ ہوا کہ سول ہسپتال میں بچے کے انتقال پر میت لے جانے کے لئے والدین نے ایمبولنس مانگی تھی ، مگر سول ہسپتال انتظامیہ نے ایمبولنس کی فراہمی سے انکار کرتے ہوئے ان سے پیسے طلب کیے۔ بچے کے نانا کا کہنا ہے ایمبولینس کے ڈرائیور نے 25 سو روپے مانگے، ہماری جیب میں صرف 300 روپے تھے، بہت منتیں کیں لیکن ایمبولینس کا ڈرائیور نہیں مانا، جس پر میت کو موٹر سائیکل پر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں انکوائریاں ہوتی رہتی ہیں یہ انکوائریوں کی حیثیت کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ جیسی ہے آپ ذراتصورکی آنکھ سے دیکھیں جس گھرمیں ایک کی جگہ تین تین لاشیں پہنچی ہوںگی۔ اس خاندان پر کیا قیامت بیتی ہوگی ۔وہی جانتاہے دوسری خبر جڑانوالہ کی ہے جہاں رکشے کا کرایہ نہ ہونے پر زچہ کی حالت غیر ہوگئی۔ گھر میں ہی بچے کو جنم دے دیا ۔چکو موڑ کی رہائشی خاتون زوجہ شفقت کے پاس زچگی کا عمل قریب آیا تو رکشے ڈرائیور کو دینے کیلئے بیس روپے بھی نہ نکلے جس پر خاتون نے اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر کی دہلیز پر ہی بچے کو جنم دے ڈالا۔ وہ تو بھلا ہواہل علاقہ کا جنہوںنے زچہ و بچہ کی حالت غیر ہونے پر اسے سول ہسپتال پہنچایا جہاں پر ڈاکٹرز نے سرتوڑ کوششوں کے بعد دونوں کی جان بچ گئی ۔ حکمرانوںکو ایسی خبریں سن کریا پڑھ کر شرم بھی محسوس نہیں ہوئی ۔آج غریبوںکی یہ حالت ہے کہ ان کے پاس بچوںکی ولادت اور علاج معالجہ کے لیے بیس روپے بھی نہیں ہیں۔ اور حکمرانوں نے اپنے لیے دولت کے انبار اکٹھے کرلیے ہیں۔ ان کی ہوس ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ تیسری خبر میں کہا گیا ہے کہ صلا ح الدین کی موت پولیس تشدد سے ہوئی، فرانزک رپورٹ میں تصدیق کردی گئی۔ یعنی اے ٹی ایم کارڈ چور صلاح الدین کو پولیس نے روایتی تفتیش سے مارڈالا۔ مرحوم پر تشدد کے باعث جسم کے مختلف حصوں میں خون کے لوتھڑے جمع ہوجانے ، پھیپھڑوں پر لگنے والی ضربات کے باعث سانس کی بندش ہلاکت کا باعث بنی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں موت کی تشدد سے جسم میں خون کے جمع ہوجانے والے لوتھڑے اور پھیپھڑوں پر لگنے والی ضربات ، سانس کی بندش کے باعث ہوئی ہے۔ صلاح الدین پر کئے جانے والے مبینہ پولیس تشدد پر ایس ایچ او سمیت 3 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ تینوں واقعات دل دہلادینے والے ہیں ۔ میرپورخاص میں ہسپتال کے عملہ ایمبولینس ڈرائیور اور شیخ زاید ہسپتال کے ایم ایس کو جس نے صلاح الدین کی رپورٹ میں یہ لکھا کہ وہ طبعی موت مرا ہے ان سب کو انسانی حقوق کی تذلیل کا عالمی ریوارڈدیاجائے۔ یہ ان کا حق بنتاہے پاکستان میں بااختیارلوگوںکا عوام پر اتناظلم،اتنی بے حسی اور اس قدر بے شرمی اتنی ڈھٹائی اور عام آدمی کی اتنی بے بسی۔ اتنی غربت کہ وہ لقمے لقمے کو ترس ترس جائیں پھر بھی ان کیلئے کوئی مسیحا نہ ہو،دورکہیں بہت دور تلک کوئی روشنی کی کرن نہ کوئی ٹمٹماتاجگنو۔ ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہمارے بے حس معاشرے میں بکھرے پڑے ہیں۔
مظلوموںکی کہی ان کہی کہانیاں اب کون سنتا ہے پیپلزپارٹی ہویا مسلم لیگ ن یا پھرتحریک ِ انصاف سب جماعتوںکے ارکان ِ اسمبلی اور کارکن اپنے اپنے چوروں کے وفاع میں لگے رہتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔ حالات کے جبرکا شکار ہونے والوںکا نوحہ دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے۔ اے اللہ آج پھر غریبوںکو کسی عمرؓ کی تلاش ہے تاکہ کوئی ان کے دکھ سننے والا بھی ہو کوئی ہاڑے ،کوئی دکھڑے سننے والا بھی ہو۔ کوئی غریبوںکے آنسو پوچھنے والا بھی ہو، ہم پررحم فرما ،ہمیں اپنے ان حکمرانوں سے کوئی امیدنہیں ہماری دعائیں قبول فرما ۔کوئی عمرؓ ثانی عطاکر اس کے بغیرظلمت کی یہ کالی رات ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ورنہ لوگ اس سسٹم ،ایسی جمہوریت اور استحصالی نظام کے خلاف ا ٹھ کھڑے ہوئے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ دریا جھوم اٹھے تو سب کچھ بہا کر لے جائیں گے۔ کچھ باقی نہیں بچے گا اشرافیہ کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے۔
٭٭٭