... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی 20دنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرنے والی معیشتوں کا عالمی گروپ ہے۔ اِس تنظیم کے ایک ایسے ورکنگ گروپ کا اگلے ماہ 22سے 24مئی تک مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگرمیںبھارت نے اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا تعلق سیاحت سے ہے۔ اجلاس کے پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے قابض انتظامیہ کی مقبوضہ کشمیرمیں تیاریاں عروج پر ہیں مہمانوں کے راستے میں آنے والے بنکرعارضی طورپر منتقل کیے جارہے ہیں ۔ غیر قانونی قابض حکومت کی پوری توجہ دنیاکو یہ تاثر دینے پرہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امن کی صورت حال خراب نہیں بلکہ تسلی بخش اور اچھی ہے نیز بھارت کے ساتھ کشمیری عافیت محسوس کرتے ہیں جس کے تناظر میں علیحدگی پسندی کے رجحان کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ امیت شاہ کی سربراہی میں وزاتِ داخلہ غیر معمولی انتظامات میں غیر معمولی مصروف ہے۔ کمانڈوز اور شوٹرز کے خصوصی دستے سرینگر اور گلمرگ میں تعینات کرنے کا پروگرام بنایا گیاہے کسی بھی قسم کی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے اینٹی ڈرون کیمرے،نگرانی کرنے والے دیگر استعمال ہونے والے جدیدآلات مقبوضہ علاقے میں پہنچانے کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر شرکاء کی رہائش گاہوں میں تزئین و آرائش کا کام بھی ہورہا ہے۔ اجلاس سے قبل گھر گھر تلاشی کا عمل بھی جاری ہے۔ علاقہ مکینوں کوکسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا حصہ بننے کی پاداش میں خطرناک نتائج کاسامنا کرنے کے لیے تیاررہنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جس سے علاقے میں خوف ودہشت کی فضا ہے۔ اِس کیفیت برقرا ر رکھنے کے لیے بھارتی انتظامیہ نے سرینگر کے تاریخی عیدگاہ میدان میں نمازِ عید کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ ماضی میں کیونکہ عید کی نماز کے بعد ہمیشہ احتجاجی مظاہر ے ہوتے رہے ہیں ۔لہٰذا عید گاہ میں زبردست بھیڑ کی بناپراب بھی ایسا ہونے کا خطرہ ہے جس سے حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ فورسز نے آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کے چلنے پھرنے پر پابندیاں لگانے کے ساتھ روزمرہ کے معمولات کے لیے بھی ا وقات نافذ کیے ہیں پھربھی احتجاج کے خدشے کی پاداش میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ملک کی دوردراز جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے یہ حالات بنانا بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آئینہ دار اور غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے کی سرتوڑ کوششوں کا حصہ ہیں۔
ماضی میں بھی بھارت کی سرتوڑ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کے متعلق صورتحال کو خاص بنا کر پیش کرنے کی پاکستانی کوششوں کو غلط اور بے بنیادثابت کرتے ہوئے دنیا کو یقین دلایا جائے کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کشمیری بھارت سے الحاق کر چکے اور انتخابی عمل کا حصہ بن کر خطے کو سیاحت کا مرکز بنانے کی کوششوں میں بھی ساتھ ہیں لیکن حالات سے بھارتی کوششوں کی ہمیشہ نفی ہوتی رہی کیونکہ حریت قیادت اور پاکستان عالمی سطح پر جاندار کردار کے ذریعے بھارتی جھوٹ کاپردہ چاک کرتے رہے۔ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے ہمیشہ کشمیریوں کی غیر متزلزل حمایت کی، اب صورتحال بدلتی جارہی ہے۔ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں جس کے متعلق بھارتی سفارتکار صاف کہتے ہیں کہ پاکستان سے مستقبل قریب میں بھی سفارتی تعلقات بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ زیرغورنہیں اور نہ ہی کوئی تیسرا ملک اِس حوالے سے کردار ادا کررہا ہے۔ ظاہرہے موجودہ صورتحال اُس کے لیے فائدہ مند ہے اور مذموم جارحانہ عزائم کوپروان چڑھانے میں مدد گار ہیں، جن کی بناپر وہ سرعت سے ایسے اقدامات میں مصروف ہے جن سے مقبوضہ کشمیر دوممالک کے درمیان متنازع مسئلہ کے بجائے علاقے کو بھارت کا اٹوٹ انگ تصورکیا جائے۔ کم ترین سفارتی تعلقات کی بناپر پاکستان کے لیے اب دوطرفہ بات چیت کے امکانات محدودہو چکے ہیں۔ اسی لیے کشمیر کے حوالے سے بات چیت کا عمل تقریباََختم ہے۔ ایسی ہی ہوشیاری بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے متعلق دکھائی ہے اور پاکستان کے حصے کا پانی روک کر بنجر و بے آباد کرنے میں مصروف ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کے حوالے سے پاکستان ایسی پالیسی بنائے جس سے کشمیرکے متعلق ذمہ داریوں سے لاتعلقی کا تاثر ختم نیز کشمیریوں کو سفارتی ،اخلاقی اور اصولی مدد کا پیغام ملے۔
پاکستان نے متنازع علاقے میں جی20 اجلاس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اجلاس عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ اِس لیے ایسے کسی عمل سے باز رہا جائے مگر لیہ اور سری نگر اجلاسوں کوپریشان کن کہنا ہی ذمہ داری نہیں کیونکہ بھارت اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے عالمی گروپ کی رکنیت کا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیرِ تسلط جموں و کشمیر کی نمائندہ قیادت کل جماعتی حریت کانفرنس کی تمام اکائیوں کے نمائندوں نے بھی جی20ممالک کی توجہ بھارتی فوجیوں کی طرف سے گھر گھر تلاشی اور محاصرے کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سفاکانہ کارروائیاں سری نگر گروپ کے اجلاس میں شرکت سے انکار کے لیے کافی ہیں اور جی 20اجلاس کی آڑ میں بھارت درحقیقت 5اگست 2019کے اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے مگر یہ ممالک مت بھولیں کہ کشمیر میں قابض ملک انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا مرتکب ہے۔ ایک مقبوضہ علاقے میں گروپ کے اجلاس سے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ جی20 کے متعلق بھی سوال جنم لیں گے جب مقامی حریت قیادت واشگاف الفاظ میں سراپا احتجاج ہے تو پاکستان کو بھی بطور فریق اعتراض کرنے میں کوئی ابہام کی ضرورت نہیں ۔
آبی جارحیت ہو یا اب دنیا کی ترقی کرتی ہوئی بیس بڑی معیشتوں کے گروپ کا اجلاس ،کشمیر کے حوالے سے بھارت سوچ سمجھ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اب جبکہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا نہ صرف خطرہ درپیش ہے بلکہ بدترین اندرونی سیاسی عدمِ استحکام سے بھی دوچار ہے حکومت کی توجہ دیوالیہ ہونے سے بچنے جبکہ سیاسی قیادت کی نظریں زیادہ سے زیادہ سیاسی مفادات حاصل کرنے پر ہیں۔ یہ عوامل بیرونی معامالات سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہے ہیں جس سے فائدہ اُٹھا کر بھارت اپنے غیر قانونی قبضے کو مستحکم تر کرنے میں مصروف ہے لیکن پاکستان کی بطوراہم فریق یہ کوتاہی کشمیریوں کے الحاق کی منزل کو دور کر سکتی ہے۔ بھلے ملک کی سیاسی قیادت دیگر امور پر بات چیت کرنے سے گریزاں ہے، ضرورت اِس امرکی ہے کہ کم ازکم مقبوضہ کشمیر کے متعلق ہی ایک پیج پر ہونے کا تاثردینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ نہ صرف اقوامِ متحدہ کی توجہ اُس کی منظور کردہ قرار دادوں کی طرف مبذول کرائے بلکہ دنیا بھر میں قائم سفارتخانوں کو بھی بھارتی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے متحرک کرے۔ سری نگر میں جی 20اجلاس کے مقاصد بڑے واضح ہیں۔ بھارت اب متنازع علاقے کا تاثر زائل اورصورتحال کودنیاکے سامنے نارمل بناکر پیش کرنے کی کوشش میں ہے، جس کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی نہ برتے تاکہ پاکستان سے الحاق کے خواہشمند کشمیریوں کی اکثریت کو مثبت پیغام جائے۔ اِس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کشمیریوں سے بھارتی فوج کی دشمنی اور اُن کے مکان اور کاروبار تباہ کرنے کی کارروائیوں کو بے نقاب کررہی ہے۔ بھارت اور نیپال کے لیے تنظیم کے رابطہ کار چیری برڈ نے حال ہی میں تنظیم کی ویب سائٹ پر اپنے مضمون میں مودی کی بلڈوز رسیاست،مقبوضہ جموں کشمیر کے معدنی وسائل کی لوٹ مار ،صحافیوں کی گرفتاری سمیت بھارت میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کامفصّل احاطہ کیا ہے پاکستان بھی اگر مقدمہ شواہد اور دلائل سے دنیا کے سامنے پیش کرے تو بھارت کو مذموم مقاصد سے کسی حد تک باز رکھنا ممکن ہے۔
٭٭٭