... loading ...
راؤ محمد شاہداقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کھیت میں آئے دن کونجوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ آتے اور نئی کاشت شدہ فصل کو اُجاڑ کر چلے جاتے۔تنگ آکر کسان نے وہاں جال لگایا اور کونجوں کا پورا جُھنڈ اُس جال میں پھنس گیا۔ اتفاق سے ایک بگلہ بھی قابو آگیا۔جب کسان اس بگلہ کو ذبح کرنے لگا تو وہ بولا کہ ’’میں اس کھیت میں اپنے ایک دوست کونج کی وجہ سے پہلی مرتبہ آیا تھا۔میری غذاآپ کے کھیت کا دانہ نہیں بلکہ مچھلی ہے اور پھر میں اس قدر عبادت گزار ہوں کہ دنیا مجھے بگلہ بھگت کے نام سے یاد کرتی ہے اس لیے برائے مہربانی مجھے چھوڑ دیجیے،آپ کا نقصان کونجوں نے کیا ہے اُن کے ساتھ آپ نے جوسلوک فرمانا ہے شوق سے فرمائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ‘‘۔کسان نے کہا’’جو کچھ تم کہہ رہے ہوشاید وہ بالکل درست ہی ہولیکن اس وقت تم ’’بدمعاشوں ‘‘ کے ساتھ پکڑے گئے ہواور اب تمہیں برے دوستوں کی دوستی کی سزا تو بہرحال بھگتنا ہی پڑے گی‘‘۔
قدیم دانش کی اس کہانی کو اگر ہمارے نوجوان آج کے حالات پر منتطبق کریں تو وہ بخوبی جان اور سمجھ سکتے ہیں ہمارے بہت سارے ناکام نوجوانوں کے پیچھے ان کے برے دوستوں کا ہاتھ کارفرما ہوتا اور بالکل اُسی طرح یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ کامیاب نوجوانوں کی کامیابی کے پیچھے اُن کے بہت سے مخلص اور اچھے دوستوں کا انتہائی نمایاں کردار پیش پیش ہوتا ہے۔کوئی بھی بچہ جب لڑکپن سے نوجوانی کی دہلیز پر اپنا پہلا قدم رکھتا ہے تو اس کے ذہن رسا میں پہلا خیال اپنی مجلس اور محافل کو آراستہ کرنے کے لیے دوست بنانے کا ہی آتا ہے جس کے لیئے وہ وقت کے ساتھ ساتھ نت نئے’’جہانِ تعلقات ‘‘دریافت کرتا چلاجاتا ہے۔لیکن ’’نئے دوست ‘‘دریافت کرنے کے اس اہم ترین سفر میں اسے کن کن باتوں کو ملحوظ خاطر یا پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ان کا علم یا شعور نہ ہونے کی وجہ ہم اکثر اوقات مشاہدہ کرتے ہیں کہ انتہائی اعلیٰ روایات کے حامل خاندان سے تعلق رکھنے والے بہترین عادت و اطوار کے حامل نوجوان بھی بدترین دوستوں کے چنگل میں بری طرح پھنس جاتے ہیں۔جس کا خمیازہ نہ صرف ان نوجوانوں کو ہی بھگتنا نہیں پڑتا ہے بلکہ ان نوجوانوں کے گھر والے بھی سالہا سال اُن کے برے دوستوں کے انتخاب کی قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔زیرِ نظر مضمون میں ہم آ پ کو چند وہ بنیادی نکات بیان کرنے کی کوشش کریںگے کہ اگر ان کا آپ خیال رکھیں تو آپ اپنے اردگر بہت سے اچھے اور مخلص دوستوں کا مضبوط ہالہ اور حصار بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے، جس کو توڑ کر دنیا کی کوئی مصیبت،پریشانی یا آفت آپ تک نہیں پہنچ سکے گی۔ یہاں ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے دوستوں کی بلاوجہ چھان پھٹک شروع کردیںاور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے بری عادتوں کے شکار دوستوں سے اچانک ہی کوئی بگاڑ پیدا کر لیں۔ آپ اپنے حلقہ احباب کو جتنا چاہے وسیع بنائیں مگر مضبوط،قابل اعتماد اور اٹوٹ تعلقات صرف اور صرف ان ہی دوستوں سے رکھیں جو آپ کو ہمارے بتائے ہوئے معیار سے قریب ترین یا مطابق نظر آئیں،ہم تو آپ سے صرف اتنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ اچھے دوست سب سے پہلی نشانی اور علامت اُس کا طرز گفتگو ہوتا ہے ۔کیونکہ بات چیت کسی بھی انسان کا ایک ایسا وصف ہے جس سے آپ بخوبی اُس کے کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔آپ اپنے دوست میں ہمیشہ اس وصف کا ضرور جائزہ لیں کہ کہیں وہ عامیانہ قسم کی گفتگو تو نہیں کرتا،بات بے بات گالم گلوچ یا دوسروں کو نازیبا القابات سے تو نہیں نوازتا ۔اپنے پرانے دوستوں پر پھبتیاں تو نہیں کستا اگر وہ ایسا کرتا ہے۔ چاہے یہ سب کچھ آپ کے ساتھ نہ بھی کرتا ہو مگر اس بات کا ہمیشہ ضرور احتمال رہے گا کہ وہ آپ کو بھی کبھی نہ کبھی کسی نازیبا لقب یا گالی سے ضرور مخاطب کر سکتا ہے ۔اگر کبھی ایسا ہوا تو نہ صرف آپ کی دل آزاری ہوگی بلکہ آپ کی اپنے دوست کے ساتھ لڑائی بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ قابلِ اعتماد دوست کا انتخاب کرنے سے پہلے اُس کی گفتگو کا ضرور جائزہ لیں۔
نیز ایک نگاہ اپنی دوست کی عادت و اطوار پر ضرور ڈالیں کہ کیا آپ کے دوست بد عادات کا تو شکار نہیں ہیں؟ جیسے مین پڑی ،گٹکا،سپاری ،سگریٹ نوشی اور پان پراگ وغیرہ کھانا یا اس جیسی دیگر قبیح عادات جنہیں ہمارے معاشرے میں کسی بھی صورت اچھا نہیں سمجھا جاتا اور جو نوجوانوں کی صحت کے لیے زہر قاتل کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔اگر آپ کے دوست اس قسم کی عاداتِ بد کا شکار ہیں جبکہ آپ کو ابھی تک ان میں سے کسی بھی بری عادت کی کوئی لت نہیں لگی ہے تو ہمارا مشورہ ہے آپ اس قسم کے دوستوں سے جتنا جلد ہو سکے گلو خلاصی حاصل کرلیں کیونکہ دیر یا بدیر یہ آپ کو بھی ان قبیح عادات کی لت میں ضرور مبتلا کردیں گے۔جس سے نہ صرف آپ کی صحت کا ضیاع ہوگا بلکہ آپ کو اپنے خاندان ،اعزو اقارب میں شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔جبکہ اپنے عزیز از جان دوست کی خاندانی وجاہت کو ضرور ملحوظ خاظر رکھئے ۔یہاں خاندانی وجاہت سے ہماری مراد ذات برادری یا مذہب اور غیر مذہب یا امیر ،غریب کی کوئی شناخت قائم کرنا نہیں ہے ۔آپ کے دوست کا تعلق چاہے کسی برادری یا مذہب سے ہو مگر آپ اس بات کوضرور محلِ نظر رکھیں کہ اُس کے گھر والے کس قسم کے مزاج اور رویوں کے حامل ہیں کیا وہ کوئی ایسا کام تو نہیں کرتے جسے ہمارے معاشرے میں ممنوع سمجھا جاتا ہو یا آپ کے دوست کا تعلق ایسے خاندان سے تو نہیں جو لوگوں پر ظلم و ستم کرنا اپنا اولین حق سمجھتا ہواور اپنے سے نچلے طبقات کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہو۔اس کے بجائے آپ اپنے لیے ایسے قابل اعتماد دوستوں کا انتخاب کریں جن کے والدین ،بھائی بہن اہلِ علم یا علم دوست نہ بھی ہوں مگر کم از کم گفتگو تو اچھے پیرائے اور تمام حفظ مراتب کو ملحوظ خاطر رکھ کر کرتے ہوں،تاکہ آپ کو اپنے دوست کے گھر والوں کی نظروں میںبھی عزت و تحسین حاصل ہو سکے۔
سب سے اہم اور ضروری بات کہ کسی کو اپنا نیا دوست بنانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ اُس کا حلقہ احباب کیسا ہے اگر تو اس کے حلقہ احباب کی اکثریت خوش اخلاق اور نیک اطور افراد پر مشتمل ہے تو اُس کی دوستی آپ کے لیے سونے پہ سہاگہ ثابت ہوگی۔لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو پھر اپنے اس ’’دوست ‘‘کو ’’قابلِ اعتماد‘‘ دوست کا درجہ دینے سے پہلے ہزار بار ضرور سوچ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں آپ بھڑوں کے چھتہ کو چھیڑ بیٹھیںکیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’اگر آپ کے دوست کے دوست اچھے ہوں تو آپ ایک دوست نہیں بلکہ بے شمار دوست بنا رہے ہیں لیکن اگر آپ کے دوست کے دوست ناعاقبت اندیش ہیں تو پھر آپ ایک دوست کے ساتھ بے شمار دشمن مفت میں حاصل کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭