... loading ...
سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوٹھی،کارسمیت دنیا کی ہر آسائش اس کی دسترس میں تھی، اپنی بیشتر خواہشیں پوری کرنے پرقادر ،اسے لفظوںسے کھیلنے،دلچسپ باتیں کر نے کا ہنر بھی آتا تھا،ہومیو پیتھی کی طرح بے ضرر ،لوگ اس کی عزت بھی کرتے تھے ،احباب کا حلقہ بھی وسیع۔ نہ جانے کیا بات تھی ،اس کے باوجودوہ اپنی زندگی سے مطمئن نہ تھا ۔۔میرا بہترین دوست۔۔میرا ہمزاد۔ واجد ڈار (اللہ اسے کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے )میں اکثر اس سے سبب دریافت کرتا وہ ہنس کر ٹال جاتا ایک دن کہنے لگا مسکراتے چہروںکے پیچھے کئی اتنے اداس ہوتے ہیں کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
”ان باتوںکا قائل ہوں۔ میںنے سر ہلاتے ہوئے کہا۔لیکن تم ایسے تو نہیں لگتے؟
واجد ڈار ہنستے ہنستے رک گیا بولا
ہنستاہوں چہرہ تو زمانے کیلئے ہے
میں پوچھ بیٹھا۔ تمہیں کیا روگ لگ گیاہے۔ کسی سے عشق کر بیٹھے ہو۔۔کوئی گھریلو پرابلم ہے یا پھر خدانخواستہ کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے ؟
”نہیں یار!اصل بات اس کے ہونٹوںپر آکر مچلنے لگی۔۔۔دراصل میں سمجھتاہوں اب میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں زندہ رہوں یا مر جائوں کیا فرق پڑتاہے؟
”نہیں واجد!میں نے تڑپ کر کہا شریعت نے گناہ قراردیاہے، ایسی باتیں نہیں کرتے ۔
‘یارتم۔غلط سمجھے۔میں موت کی تمنا نہیں کررہا، بس زندگی سے پیار نہیں رہا۔
”یعنی تم خود کو ایم لیس( Aim Less)سمجھ رہے ہو؟ میں نے استفسارکیا
”اب تم ٹھیک سمجھے !!
”خود کو ایم لیس ( Aim Less) سمجھنا۔ میںنے کہا اپنے آپ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
”ہوگا ۔واجد ڈار نے بے نیازی سے جواب دیا۔ اس مردم بیزاری کا سبب؟
”بتا بھی دوں تو تیرے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے ۔ ذاتی مسائل یا گھریلو معاملات کو اچھالنے کا کیا فائدہ؟ کتنے سال تو جی لیا اب مرنا جینا کیا معانی رکھتاہے آخر ایک دن موت تو مقدر بنے گی۔۔۔ہمارے آس پاس سینکڑوں ایسے افرادیقینا موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ان کی زندگی کااب کوئی مقصد نہیں رہا ۔جتنی تیزی سے مادہ پرستی اخلاقی اقدارکو نگل رہی ہے ایسے لوگوںکی تعداد برابر بڑھ رہی ہے جس معاشرے میں والدین کااحترام بھی کم ہورہاہو۔مطلب کے بغیرکوئی سلام لینے کا روادارنہ ہو۔ جہاںدولت اور ہوس کے معانی برابرہو جائیں۔ حکمرانوںکو اپنا پیٹ اور سیاستدانوںکو صرف مراعات عزیزہو جائیں۔ جہاں مذہب کو بھی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ جہاں گھٹ گھٹ کر، سسک سسک کر جیناغریبوں کا مقدر بن جائے۔ آپ ہی سوچئے ،اس ماحول میں محرومیوںکے مارے ( Aim Less) ایم لیس نہیں ہوں گے تو کیا کریں گے؟ ایسے جاپانی ہاراکاری کر لیتے تھے۔ اب بھی ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ، اس کے برعکس دین ِ فطرت اسلام نے انسانوںکو ایک دوسرے محبت کا درس دیاہے مسلمانوں کو زندگی سے پیار کرنا سکھایاہے ، ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قراردیاہے ، اللہ تبارک تعالیٰ نے انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو ایک کے بدلے دس گنا دنیا میں دینے کا وعدہ کیا ہے ،لیکن غوروفکر کرنے کی جب عادت ہی نہیں رہی تو مایوس ہونا ایک لازمی بات ہے۔پاکستان کو اس وقت جتنے مسائل درپیش ہیں، جتنے چیلنجزکا سامناہے۔ملک میں جس قدر غربت ہے یا اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ۔یاپھر سماج جتنا انحطاط پزیرہورہاہے جنوبی ایشیاء سمیت نہ جانے تیسری دنیا کے کتنے ممالک ہیں جن کی نصف آبادی اپنی زندگیوںسے بیزار، بیزارہے۔ بیشترریٹائرڈ ملازمین اور بوڑھوںکی حالت انتہائی قابل ِ رحم ہے۔ یہ لوگ زندگی کی خوشیوںسے محروم جیسے تیسے زندگی کے دن پورے کررہے ہیں ۔آپ ان سے بات کرلیں محسوس ہوگا، ان میں بڑی تعدادایم لیس ( Aim Less) نکلے گی۔۔خواتین کی حالت سب سے بری ہے شہروںمیں بھی اور دیہات و پسماندہ علاقوں میں بھی۔کوئی تفاوت نہیں زندگی ان کیلئے بوجھ سی بن گئی ہے۔ مغربی دنیا ۔ میں حیرت انگیز اعدادو شمار ہیں، یہاں بھی بے بس ،لاچار اور مسائل کے مارے نوجوان ، بچے ، بوڑھے اور خواتین موجود ہیں ۔لیکن تعداد کم ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ا سٹیٹ ان کیلئے بہت کچھ کرتی ہے جن لوگوںکو ہم کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ممالک کو فلاحی ریاست کے طورپر ڈیولپ کرلیاہے۔ ان کے نزدیک جانوروں کے حقوق بھی ہیں۔ وہاں تو 80اسی سال کے” بابے ”۔ دنیا کی سیاحت کرتے پھرتے ہیں ۔کوئی بوڑھا کسی پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کیلئے کوشاں ہے، کوئی دریائوں اورسمندر میں کشتی رانی کرتا نظر آتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے بڑھاپے میں بھی دلچسپی کا سامان ڈھونڈ لیا ہے ۔ہم مسلمان ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے امید ِ فردا پرہیں، ہم تو ایسے ستم ظریف ہیں جنہیں بوڑھوںکو پنشن دینے کا بھی طریقہ ہے نہ سلیقہ ۔۔کئی مرتبہ پنشن کے حصول کیلئے بنک جانے والے بوڑھے ریٹائرڈ ملازمین رش کے باعث دھکے لگنے سے بے ہوش ہو جاتے ہیں، انکی وفات کی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں۔ ہماری حکومتوںسے اتنا بھی نہیں ہوتا چلچلاتی دھوپ، بارش سے بچائو کا کوئی انتظام ہی کردیں، ٹھنڈے پانی کا ہی اہتمام کردیں۔ جہاں اتنی بے بسی، بے کسی اوربے حسی ہو ،اب یہاں لوگ زندگی کو بوجھ نہیں سمجھیں گے یاخود کو ایم لیس سمجھیں تو کیا سمجھیں۔ یہاں تو بوڑھے کو” فالتو” چیز سمجھ لیا جاتاہے، اپنے بارے میں شاید اس کی اپنی رائے بھی یہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا ،حکمران بھی خاموش ہیں، انہیں صرف اپنے اقتدارکی فکر ہوتی ہے، اس کے باوجود ” اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ” کے مصداق یہ سب ماحول بدلنا ہمارا بھی فرض بنتاہے۔تھوڑی سی کوشش، توجہ اور محنت سے ایک خوشگوار اور تابناک مستقبل کیلئے آغاز ِسفر کیا جا سکتاہے۔ اپنے آپ کو ” فالتو” چیز سمجھنے والے ایم لیس ( Aim Less)۔ازسرنو اپنی زندگی کی ترجیحات کا تعین کریں چھوٹے چھوٹے سماجی کاموںسے سرگرمیاں شروع کی جا سکتی ہیں، اپنے ہم خیال افراد سے میل جول بڑھائیے، محلے کی مسجد کی ترقی ، اور علاقہ کی فلاح و بہبود کیلئے تجاویز میں سے قابل ِ عمل پر عمل کیلئے لابنگ کی جا سکتی ہے جب آپ زندگی کو اس اندازسے دیکھیں گے کہ ہم نے معاشرہ کی خدمت کرنی ہے ،یقین جانئے! راستے اور وسائل خود بخود پیدا ہوتے چلے جائیں گے ۔ ایک مصروف،فعال اور متحرک زندگی کسی اعلیٰ وارفع مقصد کیلئے وقف ہو تو زندگی کا اندازہی بدل جاتاہے۔ ایم لیس ( Aim Less) کے سینے میں محبت ، اخوت بھرا دل دھڑکنے لگتاہے ، جو لو گ دوسروں سے مختلف ہیںان کے دل میں آگے بڑھنے کی دھن موجزن رہتی ہے جن کے سینوںمیں عزم جوان ہو وہی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں، ایسا آپ بھی کر سکتے ہیں، ایسے آپ بھی بن سکتے ہیں۔ اس کیلئے صندل کی طرح سلگنا پڑتاہے۔ اضطراب زندگی کی علامت اور سکون دنیا داری ہے جبکہ ایم لیس ( Aim Less) درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں ،ادھر نہ ادھر۔ سو چتاہوں مایوسی کی انتہا ہے کہ انسان ایم لیس ( Aim Less) ہوجائے کتنی عجیب بات ہے کہ وہ اپنے خالق سے ناامید ہو جائے ،اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو بھرپور کردار دے کر دنیا میں اپنا رول پلے کرنے کیلئے بھیجاہے ۔اس نے اپنے آپ کو” فالتو” چیز سمجھ لیاہے ۔ زندگی سے پیار کریں، اس سے لطف اندوز ہوں کسی کے کام آئیں انسانیت کی خدمت کریں فطرت ا س کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کیلئے مضطرب رہتے ہیں۔
٭٭٭