... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے آئین موجود ہے اِس کی گزشتہ روزپارلیمنٹ میں گولڈن جوبلی تقریب ہوئی جس میں حکمران اتحاد کے علاوہ دیگر اِداروں کی سرکردہ شخصیات شریک ہوئیں لیکن جاری سیاسی بحران میں کمی کاکوئی امکان نظر نہیں آرہا کیونکہ بات آئین، ضابطے اور اخلاق سے آگے اُس انتہا پر جا پہنچی ہے جس سے اِداروں میں تصادم کی راہ ہموارہوتی جارہی ہے لیکن کوئی فریق موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، الزامات کی ایسی بوچھاڑ ہے جس نے ساراسیاسی منظر نامہ ہی زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ آئین کی پاسداری کے نام پر ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کو سپریم منوانے کے لیے حکومتی رویہ بے لچک ہے جبکہ صدر اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی اپنے آئینی کردارکے حوالے سے الگ ڈٹے ہوئے ہیں ۔دوصوبائی اسمبلیوں میں الیکشن کرانے کی بات جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنائو کا باعث تھی اب اِداروں کی بالادستی کی جنگ میں بدلنے لگی ہے اِس جنگ کی زہرناکے بارے میں ممکن ہے عام آدمی کی معلومات کم ہوں مگر فہمیدہ حلقے اسباب و مضمرات بارے بخوبی جانتے ہیں پھربھی خاموش ہیں ۔ حالات اِس نہج تک چلے گئے ہیں کہ اِداروں کی بالادستی کے متمنی ملک اور عوام کو درپیش مسائل بھلا بیٹھے ہیں۔ اِداروں کی توقیر بھی دائو پر لگ چکی پھربھی کچھ سمجھنے یا نرمی کرنے پرکوئی تیار نہیں یہ رویہ ملکی و عوامی مسائل بھلانے کی وجہ سے ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فہمیدہ حلقے اِس بے مقصد محاذآرائی کا کوئی ایسا حل نکالنے کے لیے تعمیری کردار ادا کوشش کریں جس سے نہ صرف آئین کی پاسداری کاتاثر بنے بلکہ یہ حل سب کے لیے قابلِ قبول بھی ہو۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی عمل پر نظرثانی کرنے کا معاملہ اِداروں کے تصادم تک وسیع ہو نا ملک کے مفاد میں نہیں جب تمام فریق اپنے عمل کو آئین کے مطابق کہتے ہیں توسپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں بیٹھے اصحاب کو سمجھنا چاہیے کہ دونوں اطراف وہ کون لوگ ہیں جو ملک کو محاذآرائی کی دلدل میں دھکیلنے کے متمنی ہیں جن کے اپنے مذموم مقاصد ہو سکتے ہیں۔ یہ مقاصدحکومتی صفوں میں اپنی اہمیت و حیثیت بڑھانا ہوسکتے ہیں ۔اِس وقت سپریم کورٹ کے اندر سے بھی کچھ فیصلوں کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔ ایسی آوازیں انہونی نہیں کیونکہ ماضی میں بھی یہ بدروایت موجود رہی اور چیف جسٹس کی سبکدوشی کا باعث بنیں۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ اپنا کام کرے اور پارلیمنٹ اپنے فرائض کی طرف توجہ دے نیز سیاسی قوتیں عدالتوں میں جانے کی بجائے بات چیت سے تصفیہ طلب امور طے کریں توملک میں جاری غیر ضروری محاذآرائی کا خوش اسلوبی سے خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ حکومت بے لچک رویے پرنظرثانی کرے جس کے کوئی آثار نہیں حالانکہ حکومت جب پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتی ہے تو اُسے ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ نامکمل ہے کیونکہ اپوزیشن قومی اسمبلی سے باہر ہے وہ دوبارہ اسمبلی کا حصہ بننے پرآمادہ ہے لیکن حکومت کی ایما پر اسپیکر رکاوٹ ہیں جس سے یہ تاثر گہراہورہا ہے کہ حکومت کچھ ایسی قانون سازی کرنا چاہتی ہے جس سے آئندہ الیکشن جیت سکے حالانکہ حزبِ مخالف کے بغیر ہونے والی قانون سازی آئینی، اخلاقی یا اصولی ہرحوالے سے غلط ہے پھر بھی اصل اپوزیشن کی بجائے راجہ ریاض کو ترجیح دینا سمجھ سے بالاتر ہے صدر نے عدالتی اختیارات میں کمی کے منظور ہونے والے قوانین کو آئین سے متصادم کہہ کر نامنظور کردیا ہے لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عدالتی اصلاحات کا بل اور ایک ہی روز انتخابات کی قراردار منظور کرناایسا حکومتی جواب ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ کسی بھی انتہا تک جانے کو تیارہے حالانکہ ملکی رٹ نہ ہونے کے برابر اور دہشت گردی جیسا زہردوبارہ پھیلنے لگاہے لیکن جنھوں نے تریاق کرناہے وہ اپنی لڑائیوں مصروف ہیں سیاسی ،کاروباری اور ریاستی انتظامیہ کے طاقتور حصے ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں یہ طرزِ عمل ملکی مفاد کے منافی ہے۔
ملک کی معاشی حالت خراب ہے اِس کے باوجود شرح سود میں اضافہ اقتصادیات کا اپنے ہاتھوں گلا گھونٹے کے مترادف ہے مہنگائی کی شرح 35.9ہوچکی جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا کا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے یہ نہیں کہ ملک کے پاس وسائل نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ناقص معاشی نظام ،بدعنوانی،نرم ترین مالیاتی نظم و ضبط اور غیر ملکی قرضوں نے ملکی معاشیات بارے ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں جن کی بناپر ملک اِس حال کو پہنچا ہے لیکن حکمرانوں کی ساری توجہ صرف انتخاب سے فرار پر مرکوز اور وہ ملک کے بجائے خود کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں ۔اگر حکمران اپنے غیر ضروری اخراجات سمیت بے مقصد درآمدات پر قابوپاکربرآمدات بڑھانے کے ساتھ ٹیکس ریونیو جیسے مسائل حل کرلیں تو نہ صرف مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ بجٹ خسارہ ختم کرنے کا خواب تعبیر پا سکتاہے کیونکہ صنعتی سرگرمیوں سے روزگار کے مواقع بڑھتے اور پیداواری عمل فروغ پاتا ہے۔ ملک میں شرح سود اکیس فیصد ہو گئی ہے جس کی بنا پر اقتصادی سرگرمیوں کا جاری رہنا ممکن ہی نہیں رہا۔
ملکی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں توچارصوبوں میں سے دوکی اسمبلیاں موجود ہی نہیں اور نگران حکومتیں نظم و نسق چلارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلہ کے باوجوداِن اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے حکومت مطلوبہ رقوم دینے پر آمادہ نہیں، بلکہ آئین کے نام پر پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ یہ تصادم بڑھانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ملک میں بیک وقت انتخابات کی قرارداد پاس کرانے میں اُس کا استدلال ہے کہ باقی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں تو عام انتخابات پر اُٹھنے والے اخراجات میں بچت ہوسکتی ہے ۔حالانکہ ایک سے زائد بار قبل از وقت انتخابات کی روایت موجود ہے جس وقت چاہیں وہ عام انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں لیکن انتخابات کی طرف جانے کے بجائے حکومتی حلقوں میں سیاسی و قانونی مسائل کی یکطرفہ تشریح کوفوقیت حاصل ہے جو ریاست اور سیاسی اشرافیہ پرعوامی اعتماد میں کمی لانے کاموجب اور عوام میں اضطراب کی کیفیت ہے موجودہ سیاسی عدمِ استحکام ملک کوخلفشار و افراتفری کی طرف لے جا سکتا ہے۔
آصف زرداری کی تقریر عدلیہ کے خلاف چارج شیٹ ہے جسے سپریم کورٹ کے ایک سینئر ترین جج ہونٹوں پر مسکان سجائے( باوجود اِس کے کہ وہ خود ملک کی سب سے بڑی عدالت کا حصہ ہیں )بڑے انہماک سے سنتے رہے جیسے عدلیہ کی کوئی عزت یاحیثیت ہی نہ ہو ممکن ہے وہ اپنے اِدارے کے سربراہ کے موقف کے بجائے حکومتی موقف کا ساتھ دیکر پسندیدگی چاہتے ہوںمگر کسی مہذب ملک میں ایسا تماشا
ہوتا تو نہ صرف ذمہ داران کے خلاف اب تک تادیبی کاروائی شروع ہوچکی ہوتی بلکہ ایسے کسی جج کو دوبارہ کرسی پر بیٹھنے سے بھی روک دیا جاتا اب جج صاحب معصومانہ لہجے میں فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا قومی اسمبلی میں سیاسی تقاریر ہونگیں۔یہ بے نیازی ہے یا معصومیت، دونوں ہی حیران کُن ہیں کیونکہ کئی دہائیوں سے قومی اسمبلی الزام تراشی ،ہاتھا پائی اور گالی گلوچ کاایسا مرکزہے جس سے ملک کا بچہ بچہ آشنا ہے مگر ایک اعلیٰ ترین منصب پر فائز جو جلد ہی انصاف کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ بننے والے ہیں۔ اُن کا لاعلم ہونا ناقابلِ فہم ہے۔ بظاہر اجلاس میں شرکت کے جواز کے لیے لاعلمی ظاہر کی جارہی ہے۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اُن کی اہلیہ محترمہ کیسے ارب پتی بنیں اور بیرونِ ملک اثاثے بنانے میں کامیاب ہوئیں ۔اُن سے بھی وہ لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں۔ آئین کے نام پر اِداروں کے تصادم کے دوران اُن کا اپنا وزن حکومتی اتحاد کے پلڑے میں ڈالنا ثابت کرتا ہے کہ وہ حکومتی اتحاد کے اعتمادکو سب سے اہم تصورکرتے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ عدل و انصاف کے اِدارے کی ناصرف ساکھ منہدم ہوگی بلکہ مستقبل میں عدالتوں سے مرضی کے مطابق فیصلے لینے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن یاد رکھیں آج تو جوچاہے لکھوایا جا سکتاہے مگر آئین کے نام پر ہونے والے اداروں کے تصادم میں ملوث چہروں کی کوئی تاریخ دان تحسین نہیں کرے گا ۔اب ذمہ داران کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مستقبل میں نیک نامی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا بدنامی ۔
٭٭٭