... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرقہ وارانہ فسادات ہندوستان کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔سیاسی قیادت ان خوفناک فسادات کا سدباب کرنے کی بجائے ان میں اپنا سیاسی فائدہ تلا ش کرتی رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فسادات اس ملک میں ایک منافع بخش سیاسی صنعت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ حالیہ رام نومی کے موقع پر ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے جان ومال کے ساتھ کھلواڑ اس کا تازہ ثبوت ہے ۔ ہر فساد میں جانی ومالی نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔ تحقیقات ہوتی ہے اور عدالتی کارروائی کا سوانگ بھی رچایا جاتا ہے ۔ لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوتی۔ اس کا تازہ ثبوت میرٹھ کے ملیانہ قصبے میں مسلمانوں کے قتل عام پر عدالتی فیصلہ ہے ۔ ملیانہ میں 23/مئی 1987کو جن 72مسلمانوں کو سفاکی اور بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا تھا، ان کے سارے ملزمان ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے باعزت بری کردیے گئے ہیں۔ 37برسوں تک چلی عدالتی کارروائی کا نتیجہ صفر برآمد ہوا ہے ۔ عدالت کا تازہ فرمان یقینا متاثرین کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے جس کی ٹیس وہ تازندگی محسوس کریں گے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1987میں جس وقت یہ قتل عام ہوا تھا تو ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ جن اپوزیشن لیڈروں نے وہاں جاکر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی تھی، ان میں بی جے پی لیڈر لال لرشن اڈوانی بھی شامل تھے ۔ آنجہانی وزیراعظم وی پی سنگھ بھی ملیانہ گئے تھے ۔ ان کے ساتھ ملیانہ جانے والے صحافیوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ملیانہ میں ہم نے مظلوموں کی دلخراش داستانیں خود ان ہی کی زبانی سنی تھیں۔ وہاں ایک گہرا کنواں تھا جس میں پی اسے سی کی مدد سے درجنوں لوگوں کو مارمار کر ڈال دیا گیا تھا۔ آج جب ملیانہ قتل عام کے ۰۴ ملزمان کو ایڈیشنل ضلع جج لکھوندر سود کی عدالت نے بری کیا ہے تو اس میں نہ تو موت کے اس کنویں کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا جو اس قتل عام کے گواہ بنے تھے ۔ ۶۳سال کے تھکا دینے والے اس بے سود عدالتی عمل کے بعد تمام ملزمان کی رہائی کو اگر کوئی عنوان دیا جاسکتا ہے تو وہ علی سردار جعفر ی کا یہ شعر ہے
تیغ منصف ہو جہاں’ دارورسن ہوں شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں توگجرات سے میرٹھ تک اس قسم کی خبروں کا ایک سلسلہ ہے ۔ یہ سب فسادات کے دوران ہونے والی سنگین وراداتوں کی دلخراس کہانیاں ہیں جن کے کردار ایک جیسے ہیں۔ ان کو سزا دلانے والوں کی شکلوں اورعمل میں حیرت انگیز مشابہت ہے ۔ فسادات میں وحشیانہ طورپر قتل ہونے والوں کے چہرے لوگوں کی یادداشت میں محفوظ نہیں رہتے مگر ہم جیسے اخبار نویس جنھوں نے ان فسادات کو قریب سے دیکھا ہے ، وہ انھیں کبھی بھلا نہیں سکتے ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں اورخنجر چلتے ہوئے دیکھنایا پھر مورچری میں لاشوں کے انبار وں کی چشم دید رپورٹنگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ۷۸۹۱ میں میرٹھ کے ان فسادات کے دوران معروف انگریزی صحافی دوست سمتا گپتا اور میں پی اے سی کو گولی سے بال بچے تھے ۔میرٹھ کی ایک گلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پی اے سی کے ظالم جوانوں نے ہمارے اوپر بندوقیں تان دی تھیں۔ وہ اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کرنا چاہتے تھے اور ہمیں انھیں بے نقاب کرنے کی ضد تھی۔ اگر بروقت مجسٹریٹ کی گاڑی وہاں نہیں پہنچتی تو کوئی انہونی بھی ہوسکتی تھی۔ سمتا اورمیں آج بھی اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔
یکم فروری1986کو بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ملک میں جو زبردست اشتعال پھیلا تھا، میرٹھ اور ملیانہ اس کی زدمیں آنے والے دوسب سے بدنصیب علاقے تھے ۔ میرٹھ کے ہاشم پورہ علاقہ سے پی اے سی کے جوانوں نے چالیس مسلم نوجوانوں کا اغواء کرکے گولیوں سے بھون کران کی لاشین ہنڈن ندی میں بہادی تھیں۔ اس وقت وبھوتی نارائن رائے جیسا فرض شناس پولیس آفیسر اگر غازی آباد کا ایس ایس پی نہ ہوتا تو ہاشم پورہ کا قتل عام بھی منظرعام پر نہیں آتا۔ان کی کوششوں سے ہی برسوں بعد ہاشم پورہ کے قاتلوں کو سزا ملی۔انھوں نے ہاشم پورہ قتل عام کو حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات قرار دیا تھا۔ پولیس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعدوبھوتی نارائن رائے نے اس واقعہ پر ایک پوری کتاب ‘ہاشم پورہ 22/مئی’ لکھی جو اردو، ہندی انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہوچکی ہے ۔ملیانہ کا معاملہ بھی سیشن کورٹ میں اٹکا ہوا تھا۔ وبھوتی نارائن رائے اور سینئر ہندی صحافی قربانی علی نے دومتاثرین کو ساتھ لے کر /۹۱اپریل ۱۲۰۲ کوالہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ملیانہ قتل عام کی جانچ ایس آئی ٹی سے کرانے کی اپیل کی تھی۔اسی کے بعد عدالتی کارروائی میں تیزی آئی تھی۔وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملیانہ میں ہندوؤں کے ایک مشتعل ہجوم اور پی اے سی کے جوانوں نے درجنوں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کردیا۔ہاشم پورہ اور ملیانہ میں فرق یہ تھا کہ ملیانہ کے متاثرین ہاشم پورہ کی طرح پولیس کی حراست میں نہیں تھے۔ ملیانہ کے حصہ میں ہاشم پورہ سے زیادہ بدنامی آئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملیانہ قتل عام کی جانچ کے لیے اس وقت کے وزیراعلیٰ ویربہادر سنگھ نے مئی 1987کے آخری ہفتہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جی کے سری واستو کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قایم کیا تھا۔اس کمیشن نے جانچ بھی کی لیکن اس کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں آسکی ہے ۔اگر آپ آزادی کے بعد برپا ہونے والے فسادات کی جانچ کرنے والے کمیشنوں پر نظر ڈالیں تو سب کا ایک ہی انجام ہوا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی حکومت نے ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جو فساد برپاکرتے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فسادات کے دوران خود سرکاری مشنری کا رویہ فسادیوں سے
مختلف نہیں ہوتا اور پولیس تو اس میں ایک اہم فریق ہوتی ہے ۔ اگر اس کی حقیقت جاننی ہوتو آپ کو وبھوتی نارائن رائے کی کتاب ‘فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس’ کا مطالعہ کرنا چاہئے ، جس میں انھوں نے خود اپنے ہی محکمہ کی جانبداریوں اور فرقہ وارانہ ذہنیت کو پوری جرات سے بے نقاب کردیا ہے ۔
ملک کو جھنجھوڑنے والے ملیانہ قتل عام میں 72 بے قصوروں کی موت ہوئی۔ اس میں 93 لوگوں کے خلاف ایف آئی آردرج کرکے انھیں ملزم بنایا گیا۔آٹھ سو سے زیادہ تاریخیں پڑیں، تیس ملزمان ابھی تک فرار بتائے جاتے ہیں،23ملزمان کی موت ہوچکی ہے اور باقی چالیس زندہ ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے ۔آزاد ہندوستان میں ہر مسلم کش فساد کا مقدر یہی ہے ۔ہرفساد کے بعد اس کی عدالتی تحقیقات ہوتی ہے ۔ ملزمان کے خلاف مقدمے بھی چلتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں جو فسادات برپا ہوئے اور جن میں ہزاروں بے گناہ مسلمان ہلاک ہوئے ان میں آج تک کسی ملزم کو کوئی سزا نہیں ملی۔ خود دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کرنے والے باعزت بری ہوگئے ۔اس سلسلہ کا سب سے خوفناک فساد1992-93میں بمبئی میں ہوا تھا جس کی تحقیقات جسٹس سری کرشنا کمیشن نے نہایت ایمانداری کے ساتھ کی تھی اور تمام مجرموں کو بے نقاب کردیا تھا۔ یہ شاید کسی فساد کی سب سے سچی تحقیقاتی رپورٹ تھی، لیکن جب اسے اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وہی شیوسینا اقتدار میں تھی جس نے فساد برپا کیا تھا۔ اس وقت کی شیوسینا حکومت نے اس رپورٹ کو نامنظور کردیا اور یہ آج تک فرقہ وارانہ فسادات کی سیکڑوں تحقیقاتی رپورٹوں کے ساتھ خاک پھانک رہی ہے ۔
٭٭٭