... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
اگر آپ کا کوئی دوست یا بزرگ آپ کے کسی کام میں غلطی کی نشاندہی کرتا ہے یا آپ پر کوئی تنقید کرتا ہے تو کیا آپ اُس سے خفا ہوجاتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تویہ رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپ خود پسندی کا شکار ہیں لیکن اگر آپ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے جواب میں اپنا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور جس غلطی کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروائی جارہی ہوتی ہے اُسے درست کرنے کی اپنی سی مقدور بھر کوشش کرتے ہیںاور اپنے ناقد کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اُسے ایک مہربان شخص تصور کرتے ہیں تو پھر یقینا آپ عام لوگوں سے مختلف اور ایک عقلمند انسان ہیں اور اگر ایساہو کہ آپ کسی کی تنقید کو سرے سے محسوس ہی نہیں کر پاتے ہوں تو یہ اس بات کا علامت ہے کہ آپ ایک غبی یا بے وقوف شخص ہیں۔ہم میں سے اکثر نوجوان نہیں جانتے کہ تنقید ہوتی کیا ہے اور تنقید کا نشانہ بننے کے بعد کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کرنا اُن کے لیے فائدہ کا باعث ہوسکتا ہے ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ انسان جو دوسروں کی تنقید کو پوری خندہ پیشانی اور صبر سے سنتا ہے اور اُس کی روشنی میں اپنے اطوار اور اعمال کا جائزہ لیتا ہے اور اگر تنقید جائز ہو تو پھر اپنی خامیوں کا دور بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا ایسا انسان اپنی زندگی کے ہرقدم پر کامیاب و کامران رہتا ہے کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ تنقید کرنے والا ہمیشہ غلط ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار صحیح بھی ہوتاہے ۔ اس لیے وہ رکتا ہے اور سوچتا ہے کہ مجھ سے کس مقام پر غلطی ہوئی یا کہاں میں نے غلط قدم اُٹھایا جو مجھے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہم میں سے ہر شخص ہر روز 27 بار دوسرے شخص کو تنقید کا نشانہ ضرور بناتا ہے اب ہماری یہ تنقید کہاں تک درست ہوتی اور کہاں تک غلط ۔ہمارے لیے عموماً اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ ہم میں سے ہرشخص کے اپنے اپنے خیالات ہوتے ہیں اور ان کے اظہار کا ہر ایک کے پاس اپنا وضع کردہ مکمل طریقہ کار بھی ہوتا ہے۔ جس طرح ہم دوسروں کے تنقیدی خیالات کی وجہ سے اکثر منہ بنا لیتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمارے تنقیدی خیالات سے دوسرے بھی تکلیف محسوس کرتے ہوں گے ۔تنقید ہماری ہو یا پھر کسی دوسرے کی، زیادہ تر غیر ارادی ہی ہوتی ہے یعنی ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی خامیاں بیان کر کے اُس کو ذہنی اذیت پہنچائیں ۔بس یونہی کوئی بات ہوئی ،کسی نے کوئی کام کیا ،کسی نے اپنی پسند کا اظہار کیا،ہم نے اپنے خیالات ،اپنی پسند ناپسند کو الفاظ کا جامہ پہنا دیا اب یہ عموماً سننے والے پر ہے کہ وہ ہماری باتوں کو کس انداز میں لیتا ہے ۔زیادہ حساس افراد تنقید پر چیخ اُٹھتے ہیں کہ’’مجھے تمہارے الفاظ نے دُکھ پہنچایا‘‘اور تنقید کرنے والا جھٹ سے کہہ دیتا ہے کہ ’’ میں تو دوستانہ رائے دے رہا تھا تم تو یونہی بگڑ رہے ہو‘‘ لیکن تنقید سننے والا عام طور اس طرح کے جملوں پر کان نہیں دھرتا کیونکہ اُس کی ’’انا‘‘ اند ر سے اُسے چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ اُس کے دوست کا مقصد اُسے تکلیف پہنچانا اور اذیت میں مبتلا کرنا تھا۔ہماری انا تو یہ ہی چاہتی ہے کہ ہم ہمیشہ ہر قسم کی تنقیدکی سختی سے مخالفت کریں اس طرح ہمار ی ’’انا ‘‘ ہم سے اپنا تحفظ کرواتی ہے لیکن جب یہ احساس حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے توہماری ’’انا ‘‘ طاقتور ہوتی جاتی ہے اور ہماری ’’عقل ‘‘میں کمزوری آنا شروع ہو جاتی ہے اور یوں ہم رفتہ رفتہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ساری دنیا ہماری دشمن بن گئی ہے اور ہر شخص صرف ہمیں ہی مٹانا چاہتا ہے اس خیال کے زیرِ اثر آکر ایک دن اچانک ہم پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کردیتے ہیں اور پھر اس جنگ کا انجام ہماری شکست پر آکر منتج ہوتا ہے۔بقول شاعر
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
جو شخص ہمارے جتنا قریب ہوتا ہے اُتنا ہی اُسکی تنقید ہمارے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔اس کے مقابلے میں اگرکوئی اجنبی شخص ہماری جھوٹی تعریف میں ایک لفظ بھی کہہ دیتا ہے تو ہم پھولے نہیں سماتے ۔یہ تجزیہ کیے بغیر کے آیا یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے یہ خوبی ہم میں واقعی پائی بھی جاتی ہے یا نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دوست کے الفاظ ،خواہ ان میں کتنا ہی خلوص اور سچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اگر ہماری ’’انا ‘‘ کی تسکین اور خواہش کے مطابق نہیں تو ہم سخت صدمہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہمیں عجیب عجیب گمان اور خیالات لاحق ہونے لگتے ہیںکہ یہ شخص ہمارے دوست کی شکل میں کہیں آستین کا سانپ تو نہیں ۔حالانکہ ہمیں اپنے قریب رہنے والے ہر شخص کی تنقید کی عزت کرنی چاہئے اور اس پر توجہ دے کرکم ازکم ایک بار اپنے دامن کو ضرور ٹٹولنا چاہئے کہ واقعی کہیں ہمارا ہی دامن تو کانٹوں سے بھرا ہوا نہیں ہے۔ ہم سے محبت کرنے والا اور ہمارے قریب رہنے والا ہوسکتا ہے کہ ہمارے بھلے کے لیئے ہی ہم سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہو۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم میں سے زیادہ ترافراد ہمیشہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے ہیں ایسی خود رحمی اور خود ترسی کاشکار افراد آپ کو بہت ملیں گے یہ لوگ خود اپنے آپ پر ترس کھانے کے عادی ہوتے ہیں ،اپنی صحت پر ،اپنے ماحول پر اور اپنے حالات پر ۔وہ عموماً ہر وقت یہ ہی سمجھتے رہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس بھی پیسے کی ریل پیل ہوتی ،حالات ساز گار ہوتے تو وہ کچھ اور ہی ہوتے لیکن کیا کریں قدرت بھی ہمیشہ ان کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے اور دنیا بھی قدم قدم پر انہیں ہی باربار دھوکہ دیتی ہے۔خود رحمی و خود ترسی کا یہ مہلک رویہ اُن کی ’’ذہنی نشوونما‘‘ اور ’’کامیابی ‘‘کو خطرے میں ڈال دیتا ہے لیکن کیا کریں اپنے ساتھ مظلومانہ رویہ اختیار کرنے میں ہماری ’’انا ‘‘ کو بڑی تسکین ملتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ ہماری فطرت کا ناگزیر حصہ بن جاتی ہے پھر ہم سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم تو پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ہم پر ظلم ڈھایا جائے ۔
اس طرح کے خیالات سے چھٹکارے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی تنقید کو اپنی بہتری کا انتہائی بہترین وسیلہ سمجھیں اور اس سے اپنی خامیاں دور کرنے میں مدد حاصل کریں ۔اگر ہمارا کوئی پیار کرنے والا ہمارا بزرک یا دوست ہماری کسی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کی تنقید میں ہمیں ’’محبت کی جھلک ‘‘ ضرور نظر آنی چاہئے ۔اُس کے اعتراض میں ہی ہمارے لیئے ہمدردی اور محبت پوشیدہ ہے وہ آپ کو اپنا سمجھتا ہے جب ہی تو چاہتا ہے کہ آپ میں یہ بدنما کمزوری نہ رہے ۔اگر دوست ہی دوست سے بے تکلف نہ ہوتو پھر ایسی دوستی کس کام کی ۔یعنی کیا آپ اپنے آپ کو شیشہ کا بنا ہوا سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیار کرنے والے ہر وقت ہم سے بات کرتے وقت ڈرتے ہی رہیں کہ کہیں اُن کے منہ سے نکلا ہوا کوئی لفظ ہماری ’’انا ‘‘ پر قہر بن کر نہ گر جائے اور یوں ہماری شیشے کی بنی شخصیت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ نہ ہوجائے ۔اگر ہمارے اردگرد رہنے والے افراد اسی ڈر کے اثیر ہو کر رہ جائیں گے تو پھر ہم سے کوئی بھلا بات ہی کیوں کرے گااور یوں رفتہ رفتہ ہمارے اردگرد سجی ہوئی رنگین محفلیں ویران ہوکر بہت جلد شامِ غریباں کا منظر پیش کرنے لگیںگی ۔کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی تنقید پر اُن کی شکر گزاری کریں کہ جن کی وجہ سے ہمیں اپنی خامیاں پر نظر کرنے کا ایک موقع میسر آرہا ہے وگرنہ کسی غیر کو کیا مطلب کہ جو وہ اپنا قیمتی وقت آپ کی کتابِ زیست کے مطالعے میں صرف کرکے آپ کو اس میں درج آپ کی غلطیاں اور خامیاں بتا تا پھرے ۔اس لیے ہمیشہ یہ بات گرہ باندھ لیں کہ جو شخص بھی آپ پر تنقید کرتا ہے وہ آپ کا حقیقی ہمدرد ہے اور اُس کی طرف سے کی جانے والی تنقید آپ سے بے پناہ محبت کے جذبہ کا اظہار ہی ہے۔کسی کے لفظوں کو سُن کربظاہر نہ آپ کا خون بہتا ہے اور نہ آپ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹتے ہیں مگر اُسکے باوجود الفاظ کے زخموں کو برداشت کرناکسی بھی شخص کے لیے مشکل ترین کام ہوتاہے۔الفاظ کی چوٹ وہی شخص برداشت کرسکتا ہے جو ظاہری سطح سے بلند ہوکر چیزوں کو دیکھنے کا عادی ہو۔اس زاویہ نگا ہ سے اگر آپ بھی سوچیں گے تو آپ کے پیاروں کے ’’تنقید کے نشتر ‘‘ آپ کے لیے ’’ احسانات کے تحفے ‘‘بن جائیں گے ۔الفاظ تو ایسی بے رنگ کی تصویروں کی مانند ہوتے ہیں جن میں آپ اپنی پسند کے کوئی بھی رنگ بھر سکتے ہیں ۔اپنے پیاروں کے تنقیدی الفاظ میں ہمیشہ ’’بھلائی کے رنگ‘‘بھریں آپ دیکھیں گے اس طرزعمل سے آپ کی زندگی رنگین ہوجائے گی جو نہ صرف آپ کو بھلی معلوم ہوگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی قابل تعریف اور قابل تقلید بن جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭