وجود

... loading ...

وجود

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

پیر 10 اپریل 2023 چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

باسط علی
۔۔۔۔۔

٭ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے، ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کا اجلاس بھی چیف جسٹس کو ہی طلب کرنا ہوتا ہے


٭ کسی جج کے خلاف ریفرنس کے مراحل مکمل ہو نے پرسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو انکوائری نوٹس ملتا ہے، جس پر وہ سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتے ہیں


٭ حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال پردباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے، استعفے کا مطالبہ، ریفرنس اور سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل اسی کا حصہ ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے خلاف مسلم لیگ نون نے ایک منظم مہم برپا کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ہی ادارے کے اندر اور باہر سے مسلسل نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے خلاف سب سے پہلے مریم نواز نے گفتگو کا آغاز کیا۔ لندن واپسی کے بعد وہ ایک نئے بیانئے کی تلاش میں تھی۔ ابتدا میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو نشانا بنانے والی ہیں۔ اس حوالے سے ایک دوبیان بھی اُن سے منسوب ہوئے مگر پھر یہ اطلاع گردش میں آئی کہ پہلے جنرل(ر) باجوہ کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ موجودہ بندوبست کے حوالے سے تمام ثبوت سامنے لاسکتے ہیں۔ اور اگر وہ زد میں آئے تو محفوظ پھر کوئی بھی نہیں ہوگا۔ دوسری جانب سے بھیجے جانے والے پیغام میں باور کرایا گیا کہ اُن کی جانب سے جو اقدامات بھی اُٹھائے گئے وہ سب ”باس“ کے احکامات کا نتیجہ تھے۔ چنانچہ اُن کے پاس بھی ”کہنے“اور”دکھانے“ کو بہت کچھ ہیں۔ ان مبینہ اطلاعات کی تصدیق سے پہلے ہی ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ مریم نواز کی تقاریر سے دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کا ذکر غائب ہو گیا۔ تاہم وہ سپریم کورٹ کے حاضر جج صاحبان کو اسٹیبشلمنٹ کے قائم مقام ثابت کرنے پر تُلی رہیں اور اُنہیں عمران خان کے ”سہولت کار“کے طور پر ظاہر کرنے کی تکرار کرنے لگی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی بیانیہ تھا۔ جس کی مضحکہ خیز حد تک تکرارسیاسی اور قانونی مبصرین کو حیران کرنے لگی۔ مگر سیاسی تجزیہ کار ساتھ یہ بھی تجزیہ کرتے رہے کہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون کے پاس کسی بھی بیانئے کی کمی کے باعث یہ مجبوری ہے کہ وہ عدلیہ کو ہی نشانے پر رکھتے ہوئے رخصتی کی راہ لیں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا سادہ بھی نہیں۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے اندر جاری کشمکش کی تب تک خبریں سرگوشیوں میں ہی سہی سامنے آنے لگی تھیں۔ آج سپریم کورٹ کی یہی اندرونی کشمکش حکومت اور مسلم لیگ نون کے لیے گرجنے برسنے کا ساز گار ماحول مہیا کررہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نوے روز کے اندر انتخابات کے جائز آئینی سوال پر فیصلے نے اس اندرونی اور بیرونی کھیل کو مہمیز کیا ہے۔ اندرونی طور پر اس جائز آئینی سوال کے جواب کی تلاش کے بجائے اِسے طریقہ کار کی بحث میں الجھا کر طرح طرح کے اختلافی نوٹ دیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار پر سوالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور 14/ مئی کو انتخابات کے واضح حکم کے باوجود حکومت نے اس فیصلے کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اس حوالے سے لندن میں موجود مسلم لیگ کے سربراہ نوازشریف نے براہ راست بھی اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان تین ججز(چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن) کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے۔ نوازشریف کے بعد مریم نواز نے بھی اسی نوعیت کے مطالبے کو دُہرانا شروع کردیا۔ بعد ازاں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ”سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطابندیال سمیت دیگر دو ججز کے خلاف ریفرنس زیر غور ہیں“۔
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے خلاف مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے جس میں ایک طرف سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 منظوری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجنا ہے جسے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔دوسری طرف وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ ہے۔ اس مطالبے کی تکرار تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کے دیگر رہنماؤں سے بھی کرائی جا رہی ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی پیش پیش ہیں۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بھی یہی مطالبہ دُہرا دیا ہے۔ اس دوران میں حکومت اپنے زیر اثر وکلاء تنظیموں اور بار کونسلوں سے بھی اس مطالبے کی حمایت کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم اس دوران میں اصل سوال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا ہی ہے۔ واضح رہے کہ مقتدر حلقوں کے زیراثر سمجھے جانے والے ایک وکیل راجہ سبطین نے دو روز قبل پنجاب کے پی انتخابات کیس کو بنیاد بناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک درخواست بھی دائر کردی ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا طریقہ اور نتیجہ دونوں ہی کا جاننا اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے نوازشریف، مریم نواز اور راناثناء اللہ سمیت حکومتی حلقوں کی تمام خواہشات اور بیانات کے برعکس اس کا قانونی طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر جائے گا تو وہ بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209(5)بی کے تحت مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کو متعلقہ جج کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل ہے، مگر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت ہی مس کنڈکٹ پر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس ضمن میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف کوئی بھی ریفرنس اس بنیاد پر نہیں بن سکتا کہ اُس کا فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں، یا پھر پسندیدہ ہے ناپسندیدہ۔ درحقیقت کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے لیے کسی مِس کنڈکٹ کا ہونا ضروری ہے۔اگر فیصلوں کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کی کوئی بھی گنجائش ہوتی تو کسی بھی جج کے خلاف ہر فیصلے پر دوسری متاثرہ پارٹی ریفرنس دائر کر رہی ہوتی۔
حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس کے باوجود صدر مملکت کے دفتر کا کردار انتہائی اہم ہونے کے باعث حکومت کے لیے یہ راستا تو بے حد دشوار محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ وکیل سبطین خان کی جانب سے جمع کرائے گئے ریفرنس نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی طریقہئ کار حکومت کے لیے کسی ”خوش خبری“ کا سامان نہیں کررہا۔ سبطین خان نے 7اپریل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے ریفرنس جمع کروایا۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ”یہ ریفرنس دو رکنی بینچ کے کہنے پر ازخود نوٹس کی تحقیقات کے لیے دائر کیا جارہا ہے“۔ ریفرنس کے مطابق”سینئر ججوں کو بینچ میں نظر انداز کرنا اور من پسند ججوں پر مشتمل بینچ بنانا چیف جسٹس کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔۔27فروری کو دو ججوں کی معذرت کے بعد اختلاف کرنے والے مزید دو ججوں کو نئے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کی نسبت سے تھا اور اگر جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بینچ کا حصہ رہنے دیا جاتا تو یکم مارچ کا فیصلہ وہ نہ آتا جو چیف جسٹس چاہتے ہیں اور شاید چیف جسٹس کو اس کا ادراک تھا اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر اختلاف کرنے والے دو ججوں کو بھی نئے بینچ میں شامل نہیں کیا۔۔۔حالیہ تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے آرٹیکل 209 شق چھ کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے“۔مذکورہ موقف پر غور کرنے سے ہی اندازا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ”مس کنڈکٹ“ کی ناگزیر شرط پوری کرنے کے لیے کس قدر زور صرف کیا جارہا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے اس معاملے میں جو کچھ بھی کیا وہ اُن کے اختیارات کے واضح اور طے شدہ قانونی طریقے کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کے باوجود اسی ریفرنس کو کارروائی کے لیے بنیاد بنا بھی لیا جائے تو اس سے کچھ بھی برآمد ہونے کی کوئی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے بعد اس کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد سب سے پہلے سپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے ریفرنس میں موجود مواد کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا ریفرنس میں ایسا مواد موجود بھی ہے کہ نہیں، جو مس کنڈکٹ کے ذمرے میں آتا ہے۔ مگر اس میں بھی ایک دشواری یہ ہے کہ ریفرنس کے جائزہ کے لیے مذکورہ کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کو ہی بلانا ہوتا ہے۔ چاہے وہ ریفرنس خود چیف جسٹس کے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔ چیف جسٹس اپنے ہی خلاف ریفرنس کمیٹی کا اجلاس بُلانے کے بعد صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ خود اُس ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوتے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو چیف جسٹس کی جانب سے ریفرنس کمیٹی کے جائزہ اجلاس کی طلبی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ اجلاس جلدیا بدیر بلا بھی لیا جائے تو پھر موجودہ حالات میں چیف جسٹس کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کے باعث جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کمیٹی میں شامل ہوں گے اور اگر جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف بھی ریفرنس ہوتا ہے تو فہرست میں ان کے بعد کا سینئر ترین جج شامل ہو گا۔
مذکورہ طریقے پر اجلاس کے انعقاد کے بعد سپریم جوڈیشل کمیٹی یفرنس کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات صدر کو بھیجے گی۔ یہاں ایک بار پھر صدر کے اختیار کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ صدر بھی اس مرحلے اور موقع پر اپنا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ مذکورہ طریقہ کار پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے چیف جسٹس کا اپنے ہی خلاف ریفرنس پر جائزہ کے لیے کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ایک سوال ہے۔ پھر اگر اجلاس بلا لیا جائے تو جائزہ کمیٹی سے مواد کے مس کنڈکٹ کے ذمرے میں تصدیق کا مرحلہ دوسرا سوال ہے۔ پھر اگر یہ بھی ہو جائے تو صدر کے دفتر میں اس کا قابل پزیرائی ہونا تیسرا بڑا سوال ہے۔اس دوران جتنا وقت لگ سکتا ہے، اس میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آجائے گی۔ تب تک موجودہ حکومت کے مستقبل پر بھی کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیز اس عرصے میں طاقت ور حلقوں کی حکمت عملی برقرار رہنے کی بھی کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔
مزید برآں مذکورہ ریفرنس کے حوالے سے ایک اور طریقہ بھی موجود ہے۔ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے مذکورہ تمام مراحل مکمل ہو جائے توسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو ایک انکوائری نوٹس ملتا ہے۔ متعلقہ جج ایسی صورت میں نوٹس ملنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتا ہے۔ چنانچہ ریفرنس کو چیلنج کرنے کے بعد جب تک اس درخواست کا فیصلہ نہ ہو جائے ریفرنس کی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ یہی کچھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اپنے خلاف ریفرنس میں ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کی تھی جس پر لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے مذکورہ طریقہ کار پر غور کیا جائے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف کسی ریفرنس کو نتیجہ خیز بنانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اگر ریفرنس کا براہ راست ڈول ڈال گیا تو بھی اس ریفرنس کے بذریعہ صدر جانے کے مسئلے کا کوئی فوری حل نکالنا ممکن نہیں لگتا۔ اس پورے معاملے کے درست تناظر میں اب یہ بات قطعی طور پر کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس کھیل میں اپنا غصہ نکالنے، نوازشریف اور مریم نواز کی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ البتہ مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے رونق میلہ لگانے، چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ گرمائے رکھنے اور اُنہیں دباؤ میں لانے کے لیے یہ حربہ کچھ اتنا بُرا بھی نہیں۔


متعلقہ خبریں


26؍اپریل کو مکمل ملک گیر ہڑتال ہو گی، حافظ نعیم الرحمان وجود - پیر 21 اپریل 2025

  ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وح...

26؍اپریل کو مکمل ملک گیر ہڑتال ہو گی، حافظ نعیم الرحمان

دو اتحادی جماعتوں کی پنجاب میں بیٹھک، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میںپاؤر شیئرنگ پر گفتگو ، ساتھ چلنے پر اتفاق وجود - پیر 21 اپریل 2025

  پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی) ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ،...

دو اتحادی جماعتوں کی پنجاب میں بیٹھک، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میںپاؤر شیئرنگ پر گفتگو ، ساتھ چلنے پر اتفاق

جعلی لاگ ان صفحات سے صارفین کی او ٹی پی چوری کا انکشاف وجود - پیر 21 اپریل 2025

  نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کا جی میل اور مائیکروسافٹ 365پر 2ایف اے بائی پاس حملے کا الرٹ رواں سال 2025میں ایس وی جی فشنگ حملوں میں 1800فیصد اضافہ ، حساس ڈیٹا لیک کا خدشہ جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات اور او ٹی پی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔نیشنل ک...

جعلی لاگ ان صفحات سے صارفین کی او ٹی پی چوری کا انکشاف

بجٹ میں 7؍ ہزار 222 ارب روپے کے خسارے کا خدشہ وجود - پیر 21 اپریل 2025

  خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب...

بجٹ میں 7؍ ہزار 222 ارب روپے کے خسارے کا خدشہ

پولیو کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، وزیراعظم وجود - پیر 21 اپریل 2025

  حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک...

پولیو کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، وزیراعظم

آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف وجود - پیر 21 اپریل 2025

  سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا پاکستان میں استحکام نہیں ،قانون کی حکمرانی نہیں تو ہارڈ اسٹیٹ کیسے بنے گی؟عمرایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے حکومتی اتحاد پر...

آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف

وزیراعظم کی کینال منصوبے پر پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت وجود - اتوار 20 اپریل 2025

  پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...

وزیراعظم کی کینال منصوبے پر پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار وجود - اتوار 20 اپریل 2025

  وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...

افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار

9 مئی مقدمات، ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم، فرد جرم عائد وجود - اتوار 20 اپریل 2025

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...

9 مئی مقدمات، ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم، فرد جرم عائد

5؍ ہزار مزید غیرقانونی افغان باشندے واپس روانہ وجود - اتوار 20 اپریل 2025

واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...

5؍ ہزار مزید غیرقانونی افغان باشندے واپس روانہ

وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ وجود - اتوار 20 اپریل 2025

حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...

وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ

وزیراعظم کی 60ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت وجود - اتوار 20 اپریل 2025

کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...

وزیراعظم کی 60ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت

مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر