... loading ...
رفیق پٹیل
پنجاب اور خیبر پختون خواہ صوبے میں انتخابات کے التواء کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کہ پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کرائے جائیں پاکستان کا سیاسی بحران شدید تر ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان تنائوشدت اختیار کر گیا ہے ۔حکومت اکتوبر تک التوا چاہتی ہے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر انتخابات کو ملتوی کرکے انتخابات کو 2025 یا اس سے بھی آگے لے جایاجائے، اس مقصد کے حصول کے لیے چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کا قانون منظور کرکے صدر کو بھیجا جاچکاہے سیاسی محاذ آرائی دشمنی کی شکل اختیار کر چکے ہیں اب موجودہ حکومت کے لیے اقتدارپر قابض رہنا قریباً ناممکن ہے۔ اقتدار کی طوالت سے عوامی سطح پر وہ سب کچھ کھو دیں گے، روز بروز ان کا ووٹ بینک کمزور ہورہا ہے۔ لوگ مہنگائی سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ کوئی سیاسی طوفان کوبرپا کرسکتے ہیں۔
سیاسی استحکام کے لیے ملک بھر میں انتخابات کے لیے اتفاق رائے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں ہے ،اس کی بنیادی وجہ معاشی بحران ہے ۔ دنیا کے اہم ممالک اور مالی ادارے موجودہ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ممکنہ طورپر یہ ایک غیر مستحکم اور کمزور حکومت تصور کی جارہی ہے جس کا مستقبل غیر یقینی ہے ۔ اگر حکومت پس پردہ معاملات طے کرکے انتخابات کا راستہ اختیا ر نہیں کرتی اور کسی ٹکڑائو یا سیاسی شہید بننے کو فوقیت دے گی تو وہ خود اپنا نقصان کرے گی ۔ایک بڑا سمجھوتہ کرکے پیچھے ہٹنے کی راہ سے وہ مستقبل میں بہتری کی جانب جا سکتی ہے خصوصاً اس درمیانی مد ت میں پیپلز پارٹی کو تنظیم نو اور عوام سے رابطے کا بہترین موقع ملے گا۔ شہباز شریف کی ناکامیوں کا بوجھ پیپلز پارٹی پر آچکاہے۔ خصوصاً بلاول بھٹو کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں رہ کر ان کی سیاست کو فائدہ ہوا یا نقصان شاید پیپلز پارٹی اس کا تجزیہ ضرور کرے گی جب انہیں یقین ہوگا کہ ان کی اپنی کشتی بھی ڈوب سکتی ہے تو وہ اپنی پارٹی کو از سر نو مقبول بنانے کی کوشش شروع کریں گے اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت سے ہر طرف دبائو بڑھا رہے ہیں انہیں غیر سیاسی انداز میں میدان سے باہر کرنے کی کوشش سے پیپلز پارٹی میں اختلا فات پید ا ہو رہے ہیںکسی بہت بڑے انتشار کا نقصان بھی خود پی پی کو ہی ہوگا۔
عمران خان کی گرفتاری نااہلی یا انہیں زہر دے کر ہلاک کرنے کے خدشات کا اظہار پی ٹی آئی اور دیگر حلقوں کی جانب سے کیا جا رہاہے۔ دس ماہ قبل عمران خان کو آسانی سے سیاسی میدان میں شکست دی جا سکتی تھی لیکن حکومت نے معیشت کی بہتری کے بجائے عمران خان کو خطرہ تصورکرکے پی ٹی آئی کو انتظامی طریقے سے کمزور کرنے کے ایسے اقدامات کیے جس سے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی ساکھ اور عوامی حمایت کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا۔ پہلے پچیس مئی کو اسلام آباد اور لاہور میں پر تشدد واقعات ہوئے معروف صحافی ارشد شریف کا قتل،سینیٹر اعظم سواتی،شہبازگل، اور عمران ریا ض سمیت بے شمار لوگوں کی گرفتاریاں اور تشدد حکومت کے لیے ایک منفی تاثر پیدا کر رہی تھیں۔دوسری جانب مریم نواز نے برطانیہ سے وا پسی کے بعد جس طرح کی مہم چلائی جس کا بہت بڑا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا ۔انتظامیہ کی طاقت کے ذریعے عمران خان اور پی ٹی آئی کو کچلنے کی کوشش نے قومی اور عالمی سطح پر پی ڈی ایم کے لیے بہت زیادہ منفی تاثر پیدا کیا۔ یہاں تک کہ ملک کے اہم ادارے اور عوام کے درمیان مزید خلیج بڑھنے کے خطرات سامنے آئے۔ عمران خان پر 140 سے زائد مقدمات ہزاروں کارکنو ں کی گرفتاریاں ، مینار پاکستان پر جلسہ روکنے کی کوشش میں لاہور اور پنجاب کی شاہراہوں کی بندش کے باوجود کامیاب جلسے نے پی ڈی ایم کے لیے مزید رسوائی کا ماحول پید ا کر دیا۔ حالانکہ عمران خان مسلسل جلسے کرتے رہے تھے ۔اس سے زیادہ حکومت متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن مریم نواز کی تقریروں اور وزارت داخلہ کے تشدد کو ہو ا دینے والے اقدامات کے بعد کے حالات میں اس جلسے نے مسلم لیگ ن کو شدید نقصان پہنچایا ۔اس کاملبہ پی ڈی ایم کی جماعتوں پر بھی گر رہا ہے، خاص طور سے بلاول بھٹو کے سیاسی مستقبل پر منفی ثرات ہو رہے ہیں ۔پی ڈی ایم ابتدا میں وزیر اعظم کا عہدہ آصف زرداری یا پی پی کے حوالے کرتی تو اس بات کا امکا ن تھا کہ وہ نصف پی ٹی آئی کو اپنے ساتھ ملا لیتے ۔بین الاقوامی اداروں سے معاملات طے کرتے لیکن شہباز شریف کی جلد وزیر اعظم بننے اور وزارت خزانہ سے پی پی کو دور رکھنے سے بہتری کی راہ نہ نکل سکی۔ بین ا لاقوامی مالیاتی ادارے سے معاملات نہ طے ہوسکے۔ اس سے قبل بجلی،پیٹرول اور دیگر اشیاء کی مہنگائی حکومت میں شامل جماعتوں کو عوامی سطح پر کمزور کررہی تھیں۔اصل نقصان مسلم لیگ ن کو ہورہا تھا، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی اپنا دا من بچارہی تھیں۔ حالانکہ ملک کے انتظامی معاملات پر پیپلز پارٹی کے چیئر مین آصف زرداری کی گرفت بڑھ چکی تھی۔ اب ان کی بیماری کی افواہیںگردش میں تھیں۔ وہ دبئی کچھ عر صہ قیام کے بعد پاکستان آکر سرگم عمل ہوچکے ہیں۔ عام طور سے وہ کسی خاص مرحلے پر دبئی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشاورت کرتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ وزیر اعظم شہباز شریف سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سندھ میں ان کی براہ راست حکومت ہے۔ مرکز میں وہ بڑے حصہ دار ہیں۔ پنجاب میں بالواسطہ ان کی عملداری شروع ہوچکی ہے۔ عوام میں مقبولیت میں کمی کے باوجود وہ اس وقت پاکستان کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ شاید نواز شریف کے پاکستان آنے کے بعد ان کی یہ حیثیت کمزورہوجائے گی اور آہستہ آہستہ نواز شریف تمام اداروں کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے سرگرم ہونگے ۔پیپلز پارٹی بھی مجبوراً ان کا ساتھ دے گی۔ ممکنہ طور پرمریم نواز کو وزیر اعظم بنانے کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ پہلے شایدوہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنیں گی، وزیر اعظم کا عہدہ ابتدائی طور پر ایک مرتبہ پھر نواز شریف ہی سنبھال لیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرکے معاملات کو بالواسطہ کنٹرول کریں گے۔ آئندہ کے انتخابات میں ہر ممکن طریقہ کارسے تحریک انصاف کا راستہ روکا جائے گا جس میں عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی کا عمل بھی شامل ہے۔ اس وقت صورتحال انتہائی نازک ہے۔ معاملات سپریم کورٹ میں ہیں اور حکمراں اتحاد بھی یکسو نہیں ۔ہر جماعت کی اپنی رائے ہے۔ آہستہ آہستہ ہر گزرنے والادن اتحاد کو کمزو کر رہا ہے ۔ایک امکان یہ ہے کہ پس پردہ کچھ معاملات ضرور طے ہونگے اور بغیر کسی انتشار کے آئندہ کے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ مسلم لیگ ن کا اقتدارقائم رہنے کی کوشش اور عدلیہ اور چیف جسٹس سے محاذ آرائی اور ججوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری رہنا حالات کی مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے ۔پاکستان اس کامتحمل نہیں ہوسکتا، کہیں ساری سیاسی کہانی ختم نہ ہوجائے۔
٭٭٭