وجود

... loading ...

وجود

کشمیر میں آر ایس ایس کا ایجنڈا

منگل 04 اپریل 2023 کشمیر میں آر ایس ایس کا ایجنڈا

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سرینگر میں اپنے انٹرویو زاور بیانات میں کہا کہ نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ بھارتی حکام نے کشمیریوں کی جائیدادیں اور زمینیں چھیننے اور کشمیری ملازمین کو معطل کرنے کی ظالمانہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور اب تک درجنوں سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ بھارت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام اداروں میں غیر کشمیریوں کو تعینات کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے تاکہ ان اداروں پر کشمیریوں کا کنٹرول ختم کیا جا سکے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرکے مختلف علاقوں میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار محاصرے اور تلاشی کی مسلسل کارروائیوں کے دوران نوجوانوں کو ہراساں، دہشت زدہ اور گرفتار کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ مارچ میں مقبوضہ علاقے میں حریت کارکنوں سمیت 70شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی ہندوتوا حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی رہنمائوں، سول سوسائٹی کے ارکان اورانسانی حقوق کے کارکنوں کو کالے قوانین کے تحت جھوٹے الزامات پر بار بارگرفتار اور ہراساں کر کے انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔بھارتی حکام حق خودارادیت کے مطالبے کو دبانے کے لیے حریت رہنمائوں،صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور یہاں تک کہ عام کشمیریوں کو بھی جھوٹے مقدمات میں پھنسا رہے ہیں۔
جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے کے مسلم تشخص کو ختم کرنے پر تلی ہے۔ انہیں علاقے کی مسلم شناخت کی سب سے بڑی نمائندہ علامت جامع مسجد سری نگر کے منبر سے زبردستی دور رکھا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میںبھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ضلع سانبہ کے کئی دیہات میں محاصرے اورتلاشی کی کارروائیاں کیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک طرح کا یہ ایک نیا سلوک ہے۔ کشمیر میں تصادم کے دوران ان کے گھروں کو جلانے اور منہدم کرنے کا چلن پرانا ہے، تاہم اب بلڈوزر سے ان کے مکانوں کو نشانہ بنانے کا ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میںمودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی جائیدادوں کو کسی نہ کسی بہانے ضبط کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ مودی حکومت کشمیریوں کو حق پر مبنی جدوجہد سے دستبردار کرانے کیلئے انکی جائیدادیں ضبط کر رہی ہے۔ نریندر مودی کی ہندو توا حکومت نے اسرائیلی ہتھکنڈے کی نقل کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط اور تباہ کر نے کی مہم شروع کر دی ہیں تاکہ ان پر حق خودارادیت کے حصول کیلئے جاری جائز جدوجہد ترک کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا سکے۔ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنا سیاسی انتقام،مقصد تحریک آزادی سے دستبردار کرنا ہے۔ متنازع قانون یو اے پی اے کے تحت سرینگر میں مزید 5 کشمیریوں کے مکان ضبط کر لیے ہیں۔
بھارت میں عموماً مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے ماورائے عدالت اقدام ہوتے رہے ہیں، جہاں ان کے گھروں کو متعدد بار مسمار کیا جا چکا ہے۔ تاہم کشمیر میں یہ ایک نیا رجحان ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے ضلع اننت ناگ میں پہلگام علاقے کے لوار گائوں میں بلڈوزر کی مدد سے ایک منزلہ عمارت کو منہدم کر دیا۔ جس عمارت کو منہدم کیا گیا وہ مبینہ طور پر تنظیم حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر عامر خان کا مکان تھا۔ عامر خان کا اصلی نام غلام نبی ہے جو فی الوقت عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے اعلیٰ آپریشنل کمانڈر ہیں۔ وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئے تھے۔بھارت میں مرکزی اور ریاستی ہندو قوم پرست حکومتیں اکثر، سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیرات کا حوالہ دیتے ہوئے، عمارتوں پر بلڈوزر چلانے کا حکم دیتی ہیں اور اس کارروائی کے لیے عدالت پر مبنی انصاف کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔
آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت کشمیریوں کو ان کی زمینوں، جائیدادوں اور ملازمتوں اس لیے محروم کررہی ہے تاکہ وہ تحریک آزادی سے کنارہ کشی اختیارکر لیں لیکن انکا جذبہ آزادی توانا و مستحکم ہے اور وہ اپنی جدوجہد کو مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔مودی حکومت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے اور ہندوؤں کی آبادکاری کیلئے کوشاں ہے۔نہتے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کر کے، کشمیریوں کو کشمیر سے بے دخل کر کے ، غرض ہر صورت میں وادی پر اپنا مکمل قبضہ چاہتی ہے۔ گویا بی جے پی کی قیادت میں ہندتوا حکومت ، نازی نظریہ سے متاثر ہوکر مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے ہر حد کو عبور کر چکی ہے۔
بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے ۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ” انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ”نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر