... loading ...
عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، جو لوگ وقت کے ساتھ نہیں چلتے ، اپنی آپ کو اپ ڈیٹ نہیں کرتے پیچھے رہ جاتے ہیں،دنیا بہت تیز رفتار ہے ، موجودہ صدی میں سب سے زیادہ ایجادات ہوئی ہیں، جو کاروباری کمپنیاں وقت کے ساتھ نہیں چل پائیں، ان کا نام نشان مٹ گیا، اس لیے جو کامیاب ہیں، اور جو کامیاب ہونا چاہتے ہیں، انھیں جدت اور نئی چیزوں کو سیکھنا ہوگا، مصنوعی ذہانت نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے ۔ فوٹو گرافی کی دنیا میں کوڈک کمپنی بہت شہرت رکھتی تھی۔ کوڈک میں ایک لاکھ ستر ہزارملازمین کام کر رہے تھے ،وہ دنیا میں85 فیصد فوٹو پیپر فروخت کرتے تھے ۔کچھ ہی برسوں میں ڈیجیٹل فوٹو گرافی نے انہیں بازار سے نکال دیا، اس کمپنی کے معیار میں کوئی کمی نہیں تھی۔پھر بھی وہ مارکیٹ سے باہر ہوگئی۔وجہ؟ اس کمپنی نے وقت کے ساتھ ساتھ وہ تبدیلی نہیں کی، جس کی ضرورت تھی۔
آنے والے 10دس، بیس برس میں دنیا پوری طرح سے تبدیل ہو جائے گی۔آج چلنے والی صنعتوں میں سے 70 فیصد بند ہوجائیں گی۔اب ڈیجیٹل انقلاب کا دور ہے ۔ آن لائن کاروبار کا زمانہ ہے ، گھر بیٹھ کر لوگ اپنا کام کر رہے ہیں،اوبر (Uber)صرف ایک سافٹ ویئر ہے ۔اپنی ایک بھی کار نہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے ،ایئر بی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے ۔لیکن ان کے پاس اپنا کوئی ہوٹل نہیں ہے ۔
چیٹ جی پی ٹی ہر طرح کے معلومات کے ڈھیر لگا سکتی ہے ۔اب امریکہ میں نوجوان وکلاء کے لیے کوئی کام باقی نہیں ہے ۔کیونکہ آئی بی ایم واٹسن سافٹ ویئر ایک لمحے میں بہتر قانونی مشورے دیتا ہے ۔واٹسن نامی سافٹ ویئر انسانوں کے مقابلے میں کینسر کی تشخیص 4 گنا زیادہ درست طریقے سے انجام دیتا ہے ۔2030تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گے ۔اگلے 10 سالوں میں 90فیصدکاریں پوری دنیا کی سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی۔فروخت ، خدمت ، ریچارج ، لوازمات ، مرمت ، بحالی وغیرہ وغیرہ اب سب کچھ اے ٹی ایم سے کیا جا رہا ہے ۔اب لوگوں نے اپنے فون سے ہی ریلوے ٹکٹ بک کرنا شروع کر دی ہیں۔کرنسی نوٹ کو پہلے پلاسٹک منی نے تبدیل کیا تھا۔اب یہ ڈیجیٹل ہو گئی ہے ۔دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے ۔ اب آپ کو مزید محنت کرنا ہوگی، نئے نئے چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ آنکھیں اور کان کھلے رکھیں ورنہ آپ پیچھے رہ جائیں گے ۔اپنے کووقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونے کے لیے تیار رہیں۔وقت کے ساتھ آگے بڑھیں اور کامیابی حاصل کریں۔لیکن ہم اپنے ملک میں ایک طرف اشرافیہ کو دیکھ رہے ہیں، جو اپنے محلات میں عیاشی کر رہے ہیں، دوسری جانب غریب عوام ہیں، جو آٹا لینے کے لیے روندے جارہے ہیں،مجھے اس نظام سے نفرت ہو رہی ہے ، جس میں دن رات نان ایشو پر بحث و مباحثہ ہورہا ہے ،لوگوں کوالجھایا جارہا ہے ۔
میں محبت سے محبت کرتا ہوں، اور میرے دل میں ان کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے ، جو آزادی کا قتل کرتے ہیں،جب میں انصاف کا قتل اور ظالم اور لٹیروں کا راج دیکھتا ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔میں طیش سے بھر جاتا ہوں۔خدا کی لعنت ہو، ان پر جنہوں نے پوری ایک نسل کو بھیڑوں کے ریوڑ میں تبدل کردیا ہے ، کبھی انھیں گیس اور پیٹرول سے محروم کیا جاتا ہے ، اور کبھی آٹے اور روٹی سے ، میں کسی خیالی جنت کے خواب نہیں دیکھتا، لیکن جانتا ہوں کہ اس ملک میں انصاف، جموریت، ایک ڈھکوسلا ہے ۔ غریب کے لیے انصاف کے دروازے نہیں کھلتے ، وہ انصاف کی دہائیاں دیتے ہوئے ایڑیاں رگڑ کر مرجاتے ہیں، اور ہماری عدالتوں میں ایک تماشا لگا رہتا ہے ۔ میں خواب دیکھتا ہوں ایک ایسے ملک کا جہاں لوگ با آسانی انصاف کی عدالت میں جاسکیں، وہاں ان کے مقدمات سنے جائیں ، جن کی تذلیل ہوئی ہو، جن کے بچے غائب کر دیے گئے ہوں، جن کے حقوق غصب کیے ہوں، جن کی آزادی چھین لی گئی ہو، میں ان بزدلوں کو بھی حقارت سے دیکھتا ہوں، جو اس نظام سے بغاوت نہیں کرتے ، میں جابر حکمرانوں سے نفرت کرتا ہوں، جو مفت آٹے کی لائن میں عوام کو کھڑا کرکے ان کی توہین اور تذلیل کرتے ہیں، اور بزدلوں سے مجھے گھن آتی ہے ۔
مجھے عمران خان کی سیاست اور اس کے طرز حکمرانی سے شدید اختلاف ہے ، لیکن اس کے باوجود میں اس کی جدوجہد، اس کے استقلال، اس کی ہمت ، اور اس کے اسٹیمنا کی داد دیتا ہوں، جس نے ایک چوروں کے ٹولے کو نکیل ڈالی ہوئی ہے ، اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے ، اس کے ایک بیان پر پاگلوں کی طرح کئی وزرائ، مشیر، اورحکمران ایوان میں میڈیا پر چیختے چلاتے ہیں۔ جو لوگ عمران خان کو نا اہل قرار دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں، عنقریب اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ۔اس ملک میں اشرافیہ کا راج ہے ، انھیں فرق نہیں پڑتا کہ آٹا، ایک سو ستر روپے کلو ہوگیا، اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہوگئی ہے ، لیکن میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں، جب لوگ بھوک کے عالم میں ایک وقت کا کھانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو وہ خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہیں، جو ان کا بچوں کا حق ہے ۔ اس وقت ملک میں عدلیہ، اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ، اور سیاست دانوں کی ایک جنگ جاری ہے ، اقتدار کی، دولت کی ، ہوس کی، اس ملک کو ان سب نے مل کر تباہ کیا ہے ، اور عوام کو آج بھوک اور غربت کی آخری سطح تک لے آئے ہیں، غیرملکی قرضے ، امداد، اور لوٹی ہوئی دولت پر پلنے والے یہ گندے کیڑے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن عوام بھی ان لٹیروں کو خوب پہچانتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب عوام انھیں ان کے محلات سے نکال باہر کریں گے ۔
٭٭٭