وجود

... loading ...

وجود

کشمیریوں کے قتل عام پر ایمنسٹی کا اظہار تشویش

هفته 01 اپریل 2023 کشمیریوں کے قتل عام پر ایمنسٹی کا اظہار تشویش

ریاض احمدچودھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کاسب سے زیادہ تناسب مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ2022ـ23 میں کشمیری صحافیوں کی قید وبند کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب طور پر فوجداری قوانین کا استعمال کیا کیونکہ پولیس معمول کے مطابق مسلمانوں کو نماز پڑھنے، جائز کاروباری لین دین کرنے اور گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے۔ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور گجرات میں کچھ ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ نفرت انگیز جرائم بشمول دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب مکمل استثنی کے ساتھ کیا گیا۔
رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کالے قانون افسپا کو انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے چکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے پروگرام ڈائریکٹر کی طرف سے جاری بیان میں بھارتی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افسپا 1958ء اور 1990ء کی فوری واپسی کیلئے اقدامات کرے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اہم مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کروانا ہمارا فرض ہے۔ ہم نے دونمائندے مقبوضہ کشمیربھیجے۔ ان کی رپورٹس میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کونسل ان پر غور کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کے لئے کئی قراردادیں پاس کیں۔ مگر بھارت ان قراردادوں پر عمل کرنے کی بجائے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم بند کرائے۔ عالمی برادری بھی کچھ نہیں کر رہی۔ وہ دوہرے معیار پر عمل کر رہی ہے۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں تو فوراً عمل ہو گیا۔ مگر کشمیر اور فلسطین میں مسلمان پس رہے ہیں اورعالمی برادری خاموش ہے۔عالمی برادری کو یہ روش ترک کرنا ہو گی۔کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک متنازع علاقہ ہے جس میں کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ حق عالمی ادارے کی قراردادوں نے اسے دلا رکھا ہے لیکن بھارت آج تک حیلوں بہانوں سے استصواب رائے کو موخر کر کے شاید یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ بن چکا ہے۔ حالانکہ کشمیریوں نے ہر موقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کو کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور پاکستان کے یوم آزادی (14 اگست) کو وہاں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ اسی سے کشمیریوں کے جذبات کا اندازہ ہو جاتا ہے اور اگر بھارتی قیادت کو اس میں کوئی شک و شبہ ہے تو استصواب رائے کا راستہ کھلا ہے، بھارت اس کا اہتمام کرے اسے اندازہ ہو جائے گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ کشمیر (مقبوضہ) میں جو انتخابات ہوتے ہیں کشمیریوں کی نمائندہ قیادت ان کا بائیکاٹ کرتی ہے۔ اس بائیکاٹ کے بعد جو چند فیصد ووٹ پڑتے ہیں ان کی بنیاد پر تو کشمیریوں کی رائے سامنے نہیں آتی۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر میں بھارتی تحقیقاتی ادارے این ائی اے کی خصوصی عدالت کے جج نے ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس کے کارکن کے قتل کے مقدمے میں پانچ کشمیری نوجوانوں پر فرد جرم عائد کردی ہے۔ جج سنیت گپتا نے نثار احمد شیخ ، نثار احمد بٹ، آزاد حسین بھگوان، پرویز احمد اور رستم علی بھگوان کے خلاف آر ایس ایس کے کارکن چندر کانت شرما کے قتل میں فردجرم عائد کی۔ چندر کانت کو 9اپریل 2019کو ڈسٹرکٹ ہسپتال کشتواڑ کے اوپی ڈی بلاک میں قتل کر دیاگیا تھا۔5اگست کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اور مسلسل فوجی محاصرے کے دوران اب تک 750سے زائد کشمیری نظربندوں پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیاگیا ہے جن میں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ، امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری اور حریت رہنما مسرت عالم بٹ ، آسیہ اندرابی ، غلام احمد گلزار ، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، قاضی یاسر احمد ، مولانا سرجان برکاتی ، یاسین عطائی شامل ہیں۔
موجودہ حالات میں مودی سرکار کیلئے مقبوضہ کشمیر میں حالات پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ بھارت کے اندر بھی بغاوت بڑھتی جارہی ہے اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم کی پردہ پوشی میں کامیاب ہے مگر بھارت کے اندر ریاستی دہشت گردی پوری دنیا پر عیاں ہورہی ہے۔ مودی سرکار عوام کی توجہ حقائق سے ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف کوئی بھی مہم جوئی کرسکتی ہے جس کیلئے پاکستان کے گھوڑے ہمہ وقت تیار ہیں۔ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر مخدوش صورتحال سے آگاہ ہے۔ مگر افسوس اسکی طرف سے بھارتی حکومت کے رویوں پر صرف تشویش کا اظہار اور مذمت کی جارہی ہے۔ عملی طور پر بھارتی مظالم کے آ گے بند باندھنے کی جرات کوئی نہیں کررہا۔ ضرورت مودی سرکار کے جنونی اقدام کو لگام دینے کی ہے’ اس کی خاطر اب عملیت کی طرف آنا ہوگا ورنہ بھارت جس راستے پر چل نکلا ہے’ وہ سراسر تباہی کی طرف جاتا ہے۔آج بھارت میں بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ کشمیر کی طرح بھارت میں بھی مظاہروں میں تیزی آرہی ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر