... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آج 87واں یوم پیدائش ہے۔ پاکستانی سائنس دان اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل1936کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے دنیا بھر کے ممتاز تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساعد حالات میںوطن عزیر پاکستان کو دنیا بھر میں ناقابل تسخیر بنا دیا جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیاکی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں28مئی 1998ء کوپاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربے کرکے خود کو دنیا میں ایٹمی طاقت منوا لیاتھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں انہیں دیگر اعزازات کے ساتھ ساتھ دو مرتبہ نشان پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے برس10اکتوبر کو جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل رہا۔ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں میری زندگی کا خوشگوارحصہ ہیں جو ہمیشہ تازہ پھولوں کی طرح میری من کے آنگن میںمہکتی رہتی ہیں۔ ان کی یادوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اپنے فیس بک پربھی وہ تصویر لگا رکھی ہے جو ایک یادگار اور انمول ہے ۔اس تصویر میں ڈاکٹر صاحب نامور عالم دین مولانا سمیع الحق ، ڈاکٹر رفیق غنچہ اورمیں بھی موجود ہوں ۔یہ تصویر 2013کے الیکشن سے پہلے کی ہے۔ اس الیکشن میں ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں تحریک تحفظ پاکستان کے پلیٹ فارم سے میزائل کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اس الیکشن سے پہلے تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کروانا بھی میری ذمہ داری تھی۔ تحریک تحفظ پاکستان (ٹی ٹی پی)جب بنی تو اس میں ڈاکٹر صاحب کے بعد چوہدری خورشید زمان خان سب سے اہم شخصیت تھے جنہوں نے پارٹی کو نیاخون دیا۔ جوش اور ولولہ بھی دیااور دن رات محنت بھی کی پارٹی کے قیام کے بعدجب سیکریٹری اطلاعات کا مرحلہ آیا تو اس کام کے لیے مجھے منتخب کیا گیا۔ میں ان خوش قسمت پارٹی ورکروں میںسے ایک تھا جو ابتدائی ایام میںہی پارٹی کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے۔ شروع شروع میں پارٹی کا دفتر چوہدری خورشید زمان خان کے گھر بنایا گیا۔شروع شروع میں مجھے ڈاکٹر صاحب نے پارٹی کا ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات بنا یا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے پارٹی کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات بنانے کے ساتھ ساتھ انچارج میڈیا سیل پنجاب بھی بنا دیا۔ الیکشن کے قریب ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا ترجمان بھی نامزد کردیا۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی کیونکہ جو الفاظ ادا کرنے ہوتے تھے، وہ ایک طرح سے ڈاکٹر صاحب کے الفاظ ہوتے تھے ۔اس لیے پھر ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ الیکشن کے قریب آکر ہمیں سپر مارکیٹ میں ایک خالی کوٹھی مل گئی۔ جہاں ہم نے الیکشن آفس بنا لیا ۔یہ کوٹھی ڈاکٹر صاحب کے دوست نواب کیفی نے دی تھی جو الیکشن کے بعد تک ہمارے پاس رہی۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ پابندیوں کی زد میں تھے اور گھر سے بہت کم باہر نکلتے۔ لاہور میں پارٹی ورکروں سے ملاقات کے لیے ہر حال میں جاتے ۔الیکشن کی
صورتحال اور ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب اور چوہدری خورشید زمان کی مشاورت بھی چلتی رہتی تھی۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تقریبا پورے پاکستان سے امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائی جنہیں ڈاکٹر صاحب کی مشاورت سے پارٹی کے سیکریٹری جنرل چوہدری خورشید زمان خان نے پارٹی ٹکٹس جاری کیے، مہینوں نہیں بلکہ چند دنوں میں ہی اس پارٹی نے پورے ملک میںاپنی جڑیں بنا لی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں بھی پابندیوں کی زد میں تھے اور انکا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب لاہور میں پارٹی ورکروں سے ملاقات کے لیے ہر حال میںتشریف لاتے۔ 20213کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے خود الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا جب الیکشن ہو گئے تو اس کے بعد پارٹی بھی انہوں نے ختم کردی ۔
لاہور میں ہمارے پارٹی کے ساتھی شوکت ورک کے ساتھ مل کر انہوں نے مینار پاکستان کے قریب ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی ان کے ہاتھوں سے لگایا جانے ولا پودا آج ایک تناور درخت بن چکا ہے جہاں لاکھوں مستحق مریض مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔جب پارٹی ختم ہوئی تو پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس فراغت کے بہت سے لمحات تھے اور میں جب بھی ڈاکٹر صاحب سے ملنے ان کے گھر جاتا تواکثر شام کا وقت ہی ہوتا تھا اور ہم اکثر برآمدے میںکرسیاں رکھ کر بیٹھ جاتے ،جہاں ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے بہت سے واقعات بھی بتاتے ۔ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے وطن کی مٹی کی جو خوشبو آتی تھی۔ وہ ناقابل بیان ہے ان کے اندر پاکستان کا درد اور عوام کا دکھ موجود تھا جس کا انہوں نے متعدد بار ذکر بھی کیا وہ پاکستان کی حالت ایٹمی قوت بنا کرتو بدل چکے تھے ساتھ میں وہ پاکستان کے لوگوں کی تقدیر بھی بدلنا چاہتے تھے۔ اس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابل برداشت تھی اور انہوں نے اس کے خاتمے کے لیے سستے منصوبوں کا اعلان بھی کیا مگر حکومت وقت نے پوچھا تک نہیں ۔الٹا ان پرمزید پابندیاں لگا دی گئیں۔ انہیں ایک طرح سے گھر میںنظر بند رکھا گیا اور انکی سرگرمیاں محدود کردی گئی۔ ملاقاتوں پر بھی پابندی تھی اسی دوران جب میں میں انہیں ملنے جاتا تو وہ پہرے داروں کو سختی سے کہہ دیتے کہ روحیل کو آنے دواور پھر ہم کافی دیر بیٹھ کر باتیںکرتے رہتے ۔اسی دوران سامنے والی دیوار سے بندر بھی آجاتے جو ڈاکٹر صاحب کے قدموں سے لپٹ جاتے ۔ڈاکٹر صاحب انہیں مونگ پھلیاں ڈالتے اور پھر وہ واپس چلے جاتے ۔ڈاکٹر صاحب جیسا عظیم انسان پاکستان کی تقدیر میں تو تھا لیکن ہم نے اس عظیم انسان کی قدر نہیں کی۔ ایسے افراد صدیوں بعد بھی پیدا نہیںہوتے اور ہم نے لمحوں میں انہیں اپنے سے جدا کردیا ۔میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرا ہوا وقت ایک خواب لگتا ہے جسے میںکبھی ٹوٹنے نہیں دینا چاہتا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 10اکتوبر 2021کو کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے ۔اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور ہمیں ان کی طرح کے باقی رہنے والے لوگوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭٭