... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتدار کے نشے میں دُھت لوگ کس طرح بد اخلاقی کے دلدل میں لت پت ہوتے ہیں اس کا نظارہ آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس سلسلے میں گجرات پیش پیش ہے کیونکہ وہی آدرش(نمونہ) ہے ۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب بی بی سی کی دستاویزی فلم حقائق کو پیش کرتی ہے تو ان لوگوں کو اپنی شبیہ خراب ہونے کی فکر ستانے لگتی ہے ۔ یہ لوگ اسے غیر ملکی سازش اور سامراجی ذہنیت کا الزام لگاکر پابندی لگا دیتے ہیں مگر اس کے بعد خود اپنے چہرے پر پڑی نقاب نوچ کر کریہہ چہرا دکھا دیتے ہیں۔ اقتدار کے خمار نے ان کی مت مار دی ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کرکیا رہے ہیں؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی کیس میں سزا یافتہ مجرم شیلیش چمن لال بھٹ کو ایک سرکاری تقریب میں شہ نشین بٹھا کر اس کی عزت افزائی نہیں کی جاتی۔ مسلمانوں کی دلآزاری کے لیے یہ لوگ خود اپنی شبیہ بگاڑ نے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ ہندوتوا کے مادر پدر آزاد حیوانی چہرے پر گجرات کے رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے ٹویٹ کیا ‘یہ حکومت اتنی بے شرم ہو چکی ہے کہ اب وہ سرکاری تقاریب میں ریپسٹ کو سٹیج پر بٹھاتی ہے ، ان کی پذیرائی کرتی ہے ۔ یہ بی جے پی کا کردار گرنے کی انتہا ہے ‘۔
25 مارچ کو داہود ضلع کے کرمادی گاؤں میں پانی فراہمی کی اسکیم سے متعلق ایک پروگرام منعقد ہوا تھا ۔ اس میں بلقیس بانو کی عصمت ریزی کا مجرم شیلیش چمن لال بھٹ مقامی بی جے پی رکن پارلیمان و سابق مرکزی وزیر مملکت جسونت سنگھ بھبھور اور اس کے بھائی رکن اسمبلی شیلیش بھبھور کے ساتھ اسٹیج پر نظر آیا ۔ یہ اس قدر شرمناک واردات تھی بلاتکاری جنتا پارٹی کے رہنماوں کو بھی اس پر تبصرہ کرنے سے بچتے نظر آئے اور سب کو سانپ سونگھ گیا۔ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے اس مجرم کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے پر بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا چونکہ بی جے پی کے رہنما مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اسی وجہ سے سزا یافتہ مجرم کے ساتھ اسٹیج شیئر کر رہے ہیں۔انہوں نے بی جے پی حکومت سے قصورواروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور لکھا کہ میں ان شیطانوں کو دوبارہ جیل میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ مہوا موئترا نے عوام سے ایسے ٹھگوں کی حمایت کرنے والی پارٹی کو ووٹ نہ دے کر انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کوکہاکیونکہ اگر خواتین غیر محفوظ ہوں تو مخالفت اور احتجاج ضروری ہے ۔
ملک کے اندر فی الحال ایک ایسی مایوسی کا ماحول ہے کہ عام آدمی تو دور خود بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول بھی احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر پر انہیں حیرت نہیں ہے ۔ ان مجرموں کو تو رہا ہونے پر جیل کے باہر مبارکباد دی گئی تھی اس لیے اہل اقتدار کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے ہوئے دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہے تاہم یعقوب رسول کو سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے ۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن یہ خبر منظر عام پر آئی اسی دن سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس کی سماعت ہونی تھی۔ مرکز کی بے حس حکومت نے گزشتہ سال یوم آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر قوم کو اس بدترین تحفہ سے نوازہ تھا ۔ اس سے ان کے اندر چھپی سیاہی جشن آزادی کے ماتھے پر کلنک بن گئی تھی کیونکہ اس دن گجرات حکومت نے 2002 کے گجرات فسادات میں پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے 14 افراد کے عمر قید کی سزا کاٹنے والے 11 قاتلوں کو رہا کردیا تھا۔ شیلیش بھٹ ان میں سے ایک تھا۔ اس کے بارے میں کہا گیا تھاکہ وہ سنسکاری برہمن ہے اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوتوا سنسکار میں قتل وغارتگری اور عصمت ریزی کا شمار اعلیٰ اخلاق میں ہوتا ہے ۔
بلقیس بانو گینگ ریپ کے قصورواروں کی رہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے 21 اکتوبر کو اسے نیشنل فیڈریشن ویمن کیجانب سے دائر درخواست کو بھی مرکزی عرضی کے ساتھ جوڑ دیا تھا ۔ درخواست میں گجرات حکومت کے قصور واروں کی رہائی کے حکم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں 17 اکتوبر 2022کو گجرات حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ 1992 کے رہنما خطوط کی روشنی میں لیا جانے والا یہ فیصلہ درست ہے ۔بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے مجرموں کو ان کی سزا کے 14 سال مکمل ہونے اور جیل میں ان کے اچھے برتاو کی وجہ سے رہا کیا گیا تھا۔ اس نام نہاد اچھے برتاو کی قلعی بھی بہت جلد کھل گئی جب پتہ چلا کہ ان لوگوں نے کئی بات پے رول پر رہائی سے لوٹنے تاخیر کی اور بدتمیزی سے پیش آئے ۔ یہ فطری بات ہے کیونکہ ایسے خونخوار مجرم اپنی ہمدرد جیل کے اندر جاتے ہی سدھر نہیں سکتے ۔ گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنے بچاو میں مرکزی حکومت کو لپیٹتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ مرکزی حکومت کی تائید و اجازت سے یہ گھناونی حرکت کی گئی۔
گجرات حکومت نے یہ تکنیکی نکتہ بھی اٹھایا کہ عرضی گذار سبھاشنی علی اور مہوا موئترا کااس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس معاملے میں شکایت کنندہ نے عدالت سے رجوع نہیں کیا ۔ اس طرح دسمبر 2022میں نظر ثانی کی یہ درخواست خارج ہوگئی لیکن اس کے بعد جب خود بلقیس بانو نے مقدمہ کیا تو عدالت سماعت پر راضی ہوگئی مگر ا مسال 4جنوری کو جسٹس بیلا ترویدی نے خود کو اس سے الگ کرلیا۔ ایک خاتون جج کا اتنے حساس معاملے سے الگ ہوجانا یہ بتاتا ہے کہ ان پر اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ دینے کا دباو کس قدر زیادہ رہا ہوگا ۔ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری اور خاندان کے 14 افراد کا قتل جن میں تین سالہ بیٹی بھی شامل ہو ،کا قانونی موشگافیوں کی آڑ میں ٹال مٹول اس نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کی سفاکی کا منہ بولتا نمونہ ہے ۔
امسال فروری میں سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی جسٹس چدر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے جلد ہی ایک خصوصی بنچ تشکیل دینے کا وعدہ کیا نیزجسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا جیسے دلیر ججوں پر مشتمل بنچ بناکر اسے پورا کردیا۔ اس بنچ نے عرضی پر سماعت کی ابتداء میں ہی 11 قصور وار لوگوں کی وقت سے پہلے رِہائی کے خلاف داخل عرضی پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اس جرم کو اندوہناک بتایا۔اس سے قبل بلقیس بانو کی وکیل شوبھا گپتا نے بتایا تھا کہ ریاست (مہاراشٹر) جہاں ٹرائل کیا گیا تھا، اس کو قصورواروں کی چھوٹ پر فیصلہ لینا چاہیے ، نہ کہ اس ریاست کو جہاں جرم کیا گیا تھا۔ معاملہ کی سماعت کے دوران بنچ نے اسے بھیانک جرم قرار دیا ۔عرضی دہندگان کی نمائندگی کرنے والی وکیل ورندا گروور نے دلیل دی کہ اس سنگین معاملے میں نہ صرف ٹرائل جج بلکہ سی بی آئی نے بھی کہا تھا کہ کوئی چھوٹ نہیں دی جانی چاہیے ، پھر بھی انھیں رِہا کر دیا گیا۔ گروور نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پیرول پر رہتے ہوئے قصوروار کے خلاف خاتون سے چھیڑ چھاڑ کا ایک اور معاملہ درج کیا گیا تھا اور چھوٹ دیتے وقت اسے پوری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
اس معاملے میں سماعت کے دوران سرکار کی جانب سے یہ احمقانہ دلیل بھی دی گئی کہ 11 قصورواروں کی رِہائی کے خلاف سبھی عرضیاں جذباتی دلائل پر مبنی تھیں لیکن بنچ نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قانون پر ہے اور اس کا جذبات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ بلقیس بانوکے وکیل کی دلیل ہے کہ قبل از وقت کی خبر نہ صرف عرضی دہندہ، اس کی بڑی بیٹیوں، گھر ، بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سماج کے لیے بڑاجھٹکا تھی ۔ سماج کے سبھی طبقات نے 11 قصورواروں کو رِہائی کے لیے سرکاری رحم وکرم کے تئیں اپنا غصہ، مایوسی، عدم اعتمادی اور مخالفت ظاہر کیا تھا۔بلقیس بانو اور اس کے کنبہ کے خلاف جرم کو خوفناک بتاتے ہوئے بنچ نے واضح کیا کہ اس معاملے کا فیصلہ قانون کی بنیاد پر کیا جائے گا۔تفصیلی دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی آئندہ سماعت 18 اپریل کو مقرر کی ہے ۔اس دوران جسٹس جوزف کا یہ تبصرہ بہت اہم ہے کہ عدالت کے پاس قتل کے کئی معاملات میں قصوروار سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں ۔انہوں نے یہ سوال کرکے سرکاری جانبداربینچ کو بے نقاب کردیا کہ کیا یہ ایسا معاملہ ہے جہاں دیگر معاملوں کی طرح یکساں طور سے پیمانوں کو نافذ کیا گیا ہے ؟بنے سماعت کی آئندہ تاریخ تک نہ صرف دلیلیں پوری کرنے کی ہدایت دی بلکہ ریاستی حکومت کو اگلی تاریخ پر قصورواروں کو چھوٹ دینے سے جڑی متعلقہ فائلوں کے ساتھ تیار رہنے کو کہا۔ اس سے عدالت کے تیور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس معاملے میں اگر مجرم دوبارہ جیل بھیج دئیے جائیں تو یہ سبق سکھانے والے شاہ جی کے لیے ایک عبرتناک سبق ہوگا لیکن وہ اس سے کچھ سیکھیں گے اس کا امکان کم ہے کیونکہ جن لوگوں کے نزدیک اقتدار کا حصول کسی جائز و ناجائز کی تفریق کا قائل نہیں اورجولوگ اپنے کرتوتوں کے سبب سرکار گنوانے کو جیل جانے کے مترادف سمجھتے ہیں ان سے کیا توقع کی جائے ؟
٭٭٭