... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی صدور کو دوسری مرتبہ بھی منتخب ہونے کا موقع رہتا ہے اس لیے وہ لوگ کبھی جنگ و جدال کی آگ بھڑکاتے ہیں یا امن و آشتی کے پھول کھلاتے ہیں تاکہ رائے دہندگان انہیں دوبارہ اقتدار کی کرسی پر فائز کردیں ۔ بش باپ بیٹوں نے عراق پر حملے کیے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے امن کا چراغ جلانے کی کوشش کی ۔ وہ یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صدی کا معاہدہ یعنی ڈیل آف سنچری کروا کر اپنا نام روشن کرنا چاہتے تھے مگرناکام رہے تو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے کو ‘ابراہم ایکارڈ’کا نام دے کر مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ نے سوچا خارجہ پالیسی میں یہ کامیابی اونجلیکل عیسائیوں کو خوش کردے گی اور وہ پھر سے الیکشن جیت جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ‘نئے مشرق وسطی کا آغاز’ڈھائی سال کے اندر منہ کے بل گر گیا۔ ٹرمپ پہلے تو صدارت سے گئے اب جیل کی ہوا بھی کھائیں گے ۔ایران مخالف ‘فرینڈز آف امریکہ’نامی اتحاد کو امید تھی کہ اب وہ عرب ممالک خفیہ نہیں بلکہ کھلے عام اسرائیل کے ساتھ کام کر سکیں گے لیکن وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت اخبار’یدیعوت احرونوت ‘نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات اور ” اسرائیل کے درمیان تعلقات کے بارے میں تشویش کی ایک وجہ سعودی ایران کے درمیان تعلقات ہیں۔ اس کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی افواج کے رویے اور بنیامین نیتن یاہو کے اپنی حکومت پر عدم کنٹرول کی وجہ سے دفاعی نظام خریدنے کا معاہدہ منجمد کر دیا ہے ۔ عالمی برادری میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کو کنٹرول نہیں کرتے بلکہ فی الحال قیادت ان کے سخت گیر حلیف سموٹریچ اور بن گویر کے ہاتھوں میں ہے یعنی اسرائیل اپنے داخلی انتشار کی بھاری قیمت چکا رہا ہے ۔ اسرائیل کی اس ناکامی کی بھرپائی کو ہندوستان کے ساتھ دفاعی معاہدے سے بھی نہیں ہوسکتی۔ مودی جی نے چونکہ وہ معاہدہ اپنے غیر تجربہ کار دوست اڈانی کے توسط سے کرایا اس لیے کانگریس کا الزام ہے کہ یہ دفاعی سودہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے ۔ اس لیے بعید نہیں کہ دباو بڑھنے پر کسی بہانے سے اسے منسوخ یا منجمد کردیا جائے ۔
متحدہ عرب امارات نے نیتن یاہو کا دورہ منسوخ کر کے اسرائیل کو شیطانِ عظیم کے لقب سے یاد کرنے والے ایران کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاکرایران کے قومی سلامتی سپریم کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی کو بلا یا ۔ امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے ان سے مشترکہ مفادات کے حصول کی خاطر دوطرفہ تعاون میں توسیع کے طریقوں اور تعلقات پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس موقع پرباہمی دلچسپی کے علاقائی و عالمی حالات اورمسائل بھی زیر بحث آئے نیز خطے میں امن و تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت اجاگر کی گئی ۔ اس کوشش کا مقصد ترقی وخوشحالی کے حوالے سے خطے کے عوام کی خواہشات پوراکرنا ہے ۔ امارا ت کے نائب صدر شیخ محمد بن راشدالمکتوم نے بھی ایرانی سفارتکارعلی شمخانی نے ملاقات کرکے مختلف شعبوں میں فریقین کے مفادات میں تعاون کے طریقوں کا جائزہ لیا ۔اس بات چیت میں دوطرفہ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی شعبوں کے مفادات پر تبادلہ خیال ہوا۔ یہ بہت خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ امارات اور ایران کے درمیان دشمنی ڈال کر مغرب نے ملت اسلامیہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
اس سے قبل ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ دونوں فریقوں نے خودمختاری کا احترام کرنے ، اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے اور 2001 میں طے شدہ سکیورٹی تعاون کے معاہدے کو فعال کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کی ابتداء فروری میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے بیجنگ دورے سے ہوئی ۔ اس کے بعد ایرانی کونسل سکریٹری علی شمخانی نے اپنے سعودی ہم منصب سے بات چیت کا آغاز کیاتاکہ تہران اور ریاض کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایرانی صدر کے دورے کو حتمی شکل دی جاسکے اور وہ دعوتنامہ آگیا۔اس طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور مملکت سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ۔ اسرائیل کے سیاسی حلقوں میں اس سے ایک کہرام مچ گیا اور حزب اختلاف نے متحد ہوکر اسی طرح کا ہنگامہ کھڑا کردیا جیسے وطن عزیز میں اڈانی کی بدعنوانی پر ہورہا ہے ۔
اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ ایک زمانے میں نیتن یاہو کے دست راست ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں الگ ہوکر خود وزیر اعظم بن گئے ۔ انہوں نے ایران سعودی عرب معاہدے کے بعد یاہو پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ “ایک زبردست ناکامی ہے ، جو سیاسی غفلت، عمومی کمزوری، اور ریاست میں اندرونی تنازعات کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے ۔ ہندی چینی تعلقات کی خرابی کے لیے بھی مودی سرکار کی یہی کمزوریاں ذمہ دار ہیں ۔ بینیٹ کے مطابق “ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی اسرائیل کے لیے خطرناک پیش رفت ہے اور یہ ایران کی سیاسی فتح ہے ۔ ان سے پہلے والے اسرائیلی وزیر اعظم یائر لپیڈ نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ خارجہ پالیسی کی مکمل اور سنگین ناکامی ہے ۔ اپنے بیان میں لپیڈ نے نشاندہی کی کہ یہ معاہدہ “علاقائی دفاعی دیوار کا گرنا ہے جسے ہم نے ایران کے خلاف تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات سے تعلقات استوار کرکے اسرائیل نے یہ سوچ لیا تھا کہ بہت جلد سعودی عرب اس کا ہمنوا بن جائے گا اور پھر ایران کے درمیان یہ ممالک اس کے تحفظ کی خاطر دیوار چین بن جائیں گے ۔عرب امارات اور سعودی عرب ایران سے تصادم کی صورت میں اس کے لیے لڑکرتحفظ کا سامان کریں گے یعنی 1920 کی دہائی میں’ آئرن وال’ کے نام سے مشہور لائحۂ عمل کے تحت اسرائیل کو اس قدر مضبوط بناجائے گا کہ عربوں کے پاس اسے کو تسلیم کرنے کے چارہ نہیں رہے گا لیکن چین نے ایران کی سعودی عرب سے دوستی کروا کر یہ خواب چکنا چور کردیا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کواپنا امارات کا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔دورے کا اعلان رواں سال جنوری میں کیا گیا تھامگر تناؤ میں اضافے کے خوف کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا۔ اسرائیلی عہدیدار لاجسٹک مسائل کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ اماراتیوں کو اندیشہ تھا کہ نیتن یاہوکے ایران کے خلاف ان کی سرزمین سے عوامی سطح پر بات کرنے کے سبب ایران سے امارات کے
تعلقات بگڑ سکتے ہیں یعنی اب اسرائیل پر ایران کو ترجیح حاصل ہوگئی نیز مسئلہ فلسطین کی حساسیت بھی دورے کی منسوخی کاسبب بنی ۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں خارجہ امور اور سلامتی کمیٹی کے سربراہ یو لی ایڈلسٹائن نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کو “اسرائیل کے لیے بہت برا قرار دیا۔سابق وزیر بینی گینٹز کے خیال میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک “پریشان کن پیش رفت ہے ۔ “انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیل کو درپیش سکیورٹی کے چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور کابینہ آمرانہ روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔امریکی وال سٹریٹ جرنل نے دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ کو ایک ایسے خطے میں جہاں امریکہ طویل عرصے سے جغرافیائی سیاست پر غلبہ رکھتا ہے بیجنگ کی سفارتی فتح قراردیا ۔ اخبار’یدیعوت احرونوت’ نے سعودی عرب ۔ ایران معاہدہ کو “اسرائیل کے منہ پر تھوکنے اور نارملائزیشن کو وسعت دینے والی نیتن یاہو کی کوششوں کے لیے ایک شدید دھچکا بتایا۔اخبار کا خیال میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نیا نقشہ کھینچے گا اور جدید جوہری معاہدے کے لیے رابطہ کاری کو بحال کر سکتا ہے۔
مذکورہ اخبار بائیڈن کے محمد بن سلمان سے ریاض میں مفاہمت کے فوراً بعد سعودی عرب کی جانب سے روس کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے کا اعلان کو پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف سمجھتا ہے جس سے پریشان ہوکر وائٹ ہاؤس نے امریکا سعودی تعلقات کے “دوبارہ جائزہ کا اعلان کردیا تھا۔ سعودی عرب کی دوستی کو “گلوبز نے اسرائیل کی دوسری غلطی قراردیتے ہوئے لکھا پہلی بھول ایک دہائی قبل وزیر دفاع ایہود بارک کے ذریعہ شامی صدر بشار الاسد کے “فوری طور پر زوال کی پیش گوئی کی تھی اور وہ اندازہ غلط نکلا تھا۔ روس اور ایران کے درمیان ایک حقیقی فوجی اتحاد کو گلوبز حکمت عملی کے فقدان سے تعبیر کرتا ہے ۔ امریکہ کے حریف چین کا مشرق وسطیٰ میں داخل ہوکر اپنی اقتصادی اور فوجی موجودگی کو فروغ دینا عالمی سطح پر اسرائیلی سرپرست امریکہ کے لیے خطرناک ہے ۔اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار’ہارٹز’ نے شام اور حزب اللہ کو یورپ اور وائٹ ہاؤس کے کچھ رہ نماؤں کی حمایت کو اسرائیل کے لیے نقصان دہ بتایا۔ویسے کسی اور کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں فی الحال اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے ذمہ داری وزیر اعظم نیتن یاہو نے خود اپنے سر لے رکھی ہے ۔ ان کی تباہ کاریاں تو مودی جی کو بھی شرمندہ کرنے والی ہیں جس پر پورا مضمون درکار ہے ۔
اسرائیلی وزیراعظم کا تازہ ترین کارنامہ وزیر دفاع یوو گیلنٹ کوخود ساختہ عدالتی ترامیم کے خلاف تبصرے کے سبب عہدے سے برطرف کر دینا ہے یعنی چوری اوپر سے سینہ زوری والی بات ہے ۔ اپنی درگت کے بعد بیچارے یوو گیلنٹ کو کہنا پڑا’ریاست اسرائیل کی سلامتی میری زندگی کا مشن تھا اور ہمیشہ رہے گا’۔ یاہو سے اب عوام کے علاوہ ساتھی بھی ناراض وپریشان ہونے لگے ہیں ۔گیلنٹ کی برطرفی پر حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپڈ نے کہا ہے کہ نیتن یاہو بذاتِ خود اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اسرائیلی قومی اتحاد نے نیتن یاہو پراسرائیل کو کھائی میں پھینکنے کا سنگین الزام لگا یا ہے ۔اسرائیل کا سب بڑا عبرانی اخبار ”یدیعوت احرونوت” لکھتا ہے کہ نیتن یاہو ایک حقیقی آمر کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ دنیا کی سب سے وسیع اور اسمارٹ ترین جمہوریتوں نے اپنے اپنے ممالک پر
بدترین آمر مسلط کردئیے ہیں اور اتفاق سے وہ دونوں ایک دوسرے کے شعلے کا نغمہ ساتھ ‘یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے ‘بھی گا چکے ہیں ۔’چور چور موسیرے بھائی ‘والی کہاوت ان دونوں پر صد فیصد صادق آتی ہے ۔
٭٭٭