وجود

... loading ...

وجود

ووٹرز کی بے قدری

جمعرات 30 مارچ 2023 ووٹرز کی بے قدری

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی منافع خوروں نے لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن رمضان آتے ہی ملک بھرمیں مہنگائی کی نئی لہر آ گئی ہے۔ آٹے چاول دال اورمختلف اقسام کی سبزیوں کی قیمتیں بڑھنے سے غریب طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور بے رحم منافع خوروں نے موجودہ رمضان المبارک کو ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا مہینہ بنا دیا ہے۔ اوپر سے حکمرانوں کی ناکام اور بدترین پالیسیوں کی وجہ سے کسان بدحال، عوام مایوس اور نوجوان بے روزگار ہیں۔
پورے ملک میں ہر طرف غربت ناچ رہی ہے اور اسی غربت کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کررکھا ہے جس کے پیسے حاصل کرنے والی خواتین کو تو ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہی تھا۔ اب آٹے کی قطاروں میں انہیں پیروں تلے مرتے بھی دیکھ رہا ہوں ۔ عوام کے ووٹوں سے آنے والی یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو اپنے ووٹروں کو ہی مارنے پر تلی ہوئی ہے، کیسے حکمران ہیں جنہیں احساس ہے نہ ہی شرم۔ صبح سے شام 4بجے تک روزے کی حالت میں مجبور خواتین کو اے ٹی ایم مشینوں کے باہر رلتے دیکھ کر سر شرم اور ندامت سے جھک جاتا ہے اور پھر جب آٹے کے تھیلے کے ساتھ انکی لاش دیکھتا ہوں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، کتنے بے حس حکمران ہیںجو چند سو روپے کی خاطر غریبوں کا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ یہ اتنا آسان طریقہ ہے کہ بغیر کوئی وقت ضائع کیے پیسے مستحق افراد تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج کل موبائل میں ہر انسان بنک لیے پھرتا ہے حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے غریبوں کو اگر دینے میںمخلص ہے تو پھر ان کے موبائل اکائونٹ میں ٹرانسفر کردیے جائیں لیکن جو حالت اے ٹی ایم مشینوں کے باہر میں نے خواتین کی دیکھی وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ کیا یہ کسی کی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں نہیں ہیں جو انہیں اس طرح سڑکوں پر خوار کیا جارہا ہے۔ حکمران بننے والے کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ خاندانی بادشاہ نہیں ہیں جو صدیوں تک انکا یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔آج اگر یہ حکمران بنے ہوئے ہیں تو کل پھر انہیں اسی عوام کے پاس جانا پڑے گا اور اسی خوف سے تو یہ الیکشن نہیں کروا رہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن سے عوام کی توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لیے یہ سارے تماشے کیے جارہے ہیں۔ اقتدار ہے ہی ایسی چیز جس کے پاس ہو وہ چھوڑنے کا نام نہیںلیتا لیکن وقت بھی بڑا ظالم ہے، جب کسی کو اقتدار سے نکالنے پہ آتا ہے تو پھر اسکا نام ونشان بھی مٹ جاتا ہے۔
پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی حکمرانوں میں ذوالفقار علی بھٹو تخت سے تختہ دار تک پہنچ گیا ،بینظیر بھٹو کو ا قتدار سے فارغ کیا ۔میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس سے جیل بھیجا گیا اور عمران خان کو اقتدار سے چٹکیوں میں فارغ کردیا گیا اور جو فوجی آمر آئے وہ بھی اپنے دور کے مضبوط ترین حکمران تھے لیکن کہاں گئے اور گم ہو گئے کسی کو یاد نہیں۔ عراق کے مضبوط ترین صدر صدام حسین کو بھی جب اقتدار سے فارغ کیا گیا تو پھر اسے بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملی۔ اسی طرح آج کل ہمارے حکمران بھی ہر قیمت اور حربے پر اقتدار کی کرسی سے چِمٹے رہنا چاہتے ہیں۔
آئین پر عمل کی بجائے اسے بھی مذاق بنایا جارہا ہے ۔ وقت پر الیکشن نہ کروانے کی ضد کی وجہ سے اس وقت جمہوریت، سیاست، معیشت سمیت سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے تو دوسری طرف ملک میں ڈھائی کروڑ بچے غربت کی وجہ سے ا سکولوں سے باہرہیں 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم اور لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے معیشت تباہ، بیروزگاری عام اور مہنگائی نے لوگوں کے ہوش اڑاکے رکھے ہیں اور حکمرانوں نے کراچی سے لے کر چترال تک عوام کو ریوڑ کی طرح آٹے کی ٹرکوں کے پیچھے لگا رکھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک بند گلی میں، ادارے بے توقیر اور ایوان تماشابنا ہوا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ تمام ادارے مکمل طور پر غیر جانبدار ہوجائیں تاکہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں سکیں ۔ اگر وقت پر آئین کے مطابق الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے تو سپریم کورٹ نے الیکشن التوا کیس میں حکومت کی جانب سے فنڈز نہ ہونے اور دہشت گردی کے سبب انتخابات ملتوی کرنے کے موقف کو مسترد کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی اور انتخابات ضروری ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی ۔سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے ۔ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں اور اداروں کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔ ایک ایک بندے پر درجنوں کیس کیے جارہے ہیں اور پولیس کی کارستانیاں دیکھیں وہ کیسے اپنے آپ کو تباہ کررہی ہے۔ حسان نیازی پر کیسوں کی بھر مار کردی اور پھراسکے بعد اسلام آباد کچہری میںوکلاء نے پولیس کا داخلہ بند کردیا ۔لاہور میںحالات ابھی تک کشیدہ ہیں۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ شاید عوام بیوقوف ہیں لیکن انہیں سب علم ہے کہ حکمران طبقہ کی جنگ کرسی، ذات اور مفادات کے لیے ہے جو کرپٹ نظام کے محافظ بھی ہیں ۔ان سب نے توشہ خانہ لوٹا قومی خزانہ اور ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرکے اندرون بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنائیں ۔ ملک کے صرف اٹھارہ بڑوں کے چار ہزار ارب کے اثاثے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ جس ملک میں عوام آٹے کی لائنوں میں ہوں وہاں حکمرانوں نے اتنی دولت کہاں سے کمائی؟جبکہ قوم کی گردنوں پر مسلط ظالم جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کو کوئی ادارہ، نیب یا عدالت کرپشن پر نہیں پوچھتی اور رہی سہی کسر نیب قوانین میں تبدیلی کرکے پوری کردی گئی ہے۔ اس گھسے پٹے جمہوری بادشاہی نظام سے جان چھڑوانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ الیکشن کروائے جائیں کیونکہ ووٹ کی طاقت سے ہی ان کا احتساب ممکن ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اداروں کا وقار ختم ہو جائیگا اور جو حالات شروع ہوچکے ہیں اس کا انجام کیا نکلے گا،سوچ کر وحشت ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر نگران وزیر اعلی محسن نقوی دن رات کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کی فکر میں رہتے ہیںکہ جس سے عوام کا فائدہ ہوسکے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے صوبہ بھرمیں شہریوں کی سہولت اور رش کم کرنے کیلئے مفت آٹے کے سینٹرزکو صبح 6 بجے کھولنے کاحکم دیا ہے اور اب تک لاہور ہی وہ شہر ہے جو آٹے کی تقسیم میں پر امن ہے کیونکہ یہاں پرکمشنر علی رندھاوا اور سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ کی براہ راست نگرانی شامل ہے۔ اسی طریقہ کارکو باقی شہروں والے بھی اپنا لیں تو حالات کسی حد تک قابو میں رہیں گے اور لوگوں کا وقت بھی بچے گا، ویسے تو حکومت کو چاہیے کہ عوام کو اتنا ذلیل وخوار کرنے کی بجائے اتنے ہی پیسے ان کے موبائل اکائونٹ میں ڈال دیں تاکہ وہ گھر پر بیٹھ کر اپنا کوئی اور کام کرلیں ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر